"IMC" (space) message & send to 7575

قومی سلامتی کمیٹی کا قیام

وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی تشکیل نو کرکے اس کو کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی (Cabinet Committee for National Security-CCNS)کا نام دیاگیا ہے۔کمیٹی کے سربراہ وزیراعظم ہوں گئے جب کہ خارجہ، دفاع، داخلہ اور خزانہ کے وفاقی وزراء کے علاوہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین، پاک فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہ اس کے مستقل رکن ہوں گے۔یہ کمیٹی قومی سلامتی ،دفاع،خارجہ اور داخلی سکیورٹی پالیسی کی حکمت عملی وضع کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔اس طرح تمام ادارے ایک پلیٹ فارم پر مشترکہ طور پر اہم امور پر پالیسی فریم ورک مرتب کرسکیں گے اور نتائج کے بھی یکساں ذمہ دار ہوں گے۔ پاکستان کو درپیش مشکلات کے بے شمار اسباب میں سے ایک بڑا سبب قومی اداروں کے مابین اہم سٹریٹیجک ایشوز پر اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ طاقت کی تکون ابہام پیدا کرنے کا باعث بنتی رہی۔طاقت اوراقتدار کا ایک ہی بنیادی مرکز ہوناچاہیے۔ نوازشریف اداروں کے مابین اہم قومی امور پر اتفاق رائے پیداکرنے کی جو کوشش کررہے ہیں وہ ایک مثبت پیش رفت ہے ۔اس کوشش میں بنیادی ترجیح قومی مفاد کو حاصل ہونی چاہیے نہ کہ ذاتی پسند وناپسند کو۔مشاورت کا دائرہ وسیع کیا جائے ۔صلاح مشورہ کا عمل اداروں کے اند ر تو ہونا ہی چاہیے‘ سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھی اس عمل میں شریک ہوناچاہیے۔ وزیراعظم نوازشریف پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی خاطر داخلی ہی نہیں بلکہ خارجی محاذ پر بھی کشیدگی نہیں چاہتے۔ بھار ت کے ساتھ تنائو میں اضافے کو ان کی یک طرفہ کوششوں نے ایک سطح پر روکا؛ حالانکہ آئے روز کنٹرول لائن پر پاکستانی شہری اور فوجی جوان شہید ہورہے ہیں اور بھارت کا رویہ اشتعال انگیز ہے۔وہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بھی بڑی احتیاط برت رہے ہیں۔افغان صدر حامد کرزئی اورافغان حکام دھمکیاں دیتے ہیں۔ بھارتی جنرل پاکستان کے اندر تک سرگرم تعاقب کی باتیں کرتے ہیں لیکن نواز شریف امن کے پیامبر بن کر خاموشی سے سب کچھ برداشت کررہے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے مطابق اس وقت حکومت اور عسکری قیادت کے مابین زبردست ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ حکومت یقینا اس ہم آہنگی کو برقراررکھنا چاہے گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں سابق صدر پرویز مشرف پر فردجرم عائد کردی گئی ۔حکومت کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ مشرف پرمقدمات چلتے رہیں اور فیصلہ نہ ہو تاکہ حکومت کی مشکلات میں غیر ضروری اضافہ نہ ہو۔ نوازشریف نے چند دن قبل قوم سے خطا ب میں مفاہمت اور وسیع تر قومی مفاد کی خاطر مل جل کرچلنے کے جس عزم کا اظہار کیا اس کے تنا ظر میں یہ کہنا بعیدازقیاس نہیں کہ وہ پرویز مشرف کے ساتھ سخت رویہ نہیں رکھیں گے۔مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ ہو یا بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کا معاملہ‘ ایسا نظر آتاہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھو دیں گے۔یہ پہلو بھی حکومت کے پیش نظر ہے کہ مشرف کو سزادینے کے فیصلے کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ یہ بعض قوتوں کے لیے ایک دھچکا بھی ہوگا۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تمام تر مشکلات اور سیاسی اشتعال انگیزیوں کے باوجود نہ صرف سویلین حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دی بلکہ انہیں ہر ممکن تعاون بھی فراہم کیا۔ان کی دوسری تین سالہ مدت ملازمت بحرانوں کی نذر ہوگئی۔ امریکا سے تعلقات محض خراب ہی نہیں بلکہ کشیدہ ہوگئے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت بھی داخلی سکیورٹی کے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتی تھی۔سرحدیں غیر محفوظ اور دشمن حساس تنصیبات تک پر حملے کررہاتھا۔بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں آباد ہزارہ قبائل پر قیامت صغریٰ گزری ۔تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود جنرل کیانی نے توازن برقراررکھا اور فوج کو سیاسی کشاکش سے دور کرتے گئے۔ اب وہ اگلے چند ماہ میں سبکدوش ہونے والے ہیں۔ انہیں قومی سلامتی کا مشیر بنانے کی پیشکش دفاعی پالیسیوں میں تسلسل برقراررکھنے کی ایک کوشش ہے ۔ناقدین اور حاسدین کے متوقع زہریلے تبصروں کی پروا کیے بغیر اگر جنرل کیانی یہ پیشکش قبول کرلیں تو اس نازک موقع پر ملک کی خدمت ہی ہوگی۔ نوازشریف نے اپنی حالیہ تقریر میں پاکستان کی ترقی کا جو طویل المیعاد اور کثیر الجہتی وژن پیش کیا وہ اس وقت تک متشکل نہیں ہوسکتاجب تک ملک کے اندر سیاسی استحکام نہ ہو۔گوادر سے کاشغر تک ریلوے ٹریک اور موٹروے کے منصوبے مکمل امن کا تقاضا کرتے ہیں۔ ملائیشیا میں مہاتیر محمد نے ترقی کی منزلیںسبک رفتاری سے طے کیں تو اس کا سبب داخلی استحکام بتایاجاتا تھا۔وہاںسیاسی ہنگامے اور علیحدگی کی تحریکیں نہ تھیں۔کوئی گروہ ریاست کے ساتھ متحارب نہ تھا۔یہی کیفیت ہانگ کانگ اور سنگاپور کی بھی ہے۔نوازشریف کی تقریر سے عیاںہوتاہے کہ انہیں ملک کو درپیش مشکلات کا ادراک ہے۔مسائل کے حل کے لیے جو نسخہ وہ تجویز کررہے ہیں جزوی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود عمومی طور پر وہ درست نظرآتاہے۔ نوازشریف نے درست طور پرپاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کوقراردیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف فوج نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔طالبان سے مذاکرات بھی کیے اور معاہدے بھی۔ مالاکنڈ ڈویژن میںصوفی محمد کی سربراہی میں نظام عدل کے نفاذ کا مطالبہ تسلیم کیا گیا لیکن اس کے باوجود طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل ناکام ہوگیا۔علاوہ ازیں طالبان بالخصوص تحریک طالبان پاکستان کوئی ایک اکائی نہیں بلکہ ان کی آڑمیں جرائم پیشہ افراد نے ایک پورا نیٹ ورک قائم رکھا ہے۔لاہور میں القاعدہ کے منظم نیٹ ورک کاپکڑا جانا‘ بلوچستان سے گولہ بارود کا بہت بڑا ذخیرہ پولیس کے ہاتھ لگنا اس امر کی نشاہدی کرتاہے کہ شدت پسندوں کی جڑیں گہری اور ہاتھ لمبے ہیں۔ کئی جگہوں پر وہ ریاستی اداروں سے بھی طاقت ور ہو سکتے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی نے صائب فیصلہ کیا کہ جو دہشت گرد ہتھیار ڈالیں گے ان سے مذاکرات کئے جائیں گے جبکہ اسلحہ نہ پھینکنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔وقت آگیا ہے کہ حکومت فیصلہ کرے تاکہ اس عفریت کے خلاف ایک ہی مرتبہ جم کر لڑائی لڑی جاسکے۔جب تک انتہاپسندوں کی کمین گائوں پر کاری ضرب نہیں لگائی جاتی‘ ان سے ہتھیار چھینے نہیں جاتے‘ ان کو ملنے والے مالی وسائل کا راستہ روکانہیں جاتا‘ اس وقت تک اٹھارہ ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والا دوہزار کلومیٹر طویل اکنامک کاریڈور کی تعمیر کا منصوبہ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گا۔ مشرف کے خلاف زیرسماعت مقدمات کی پیروی کو بھی موخر کردینا چاہیے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کو آصف علی زرداری اور ان کے خاندان نے ایک تاریخی حادثہ سمجھ کر رفت گزشت کردیا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کو سولی پر لٹکانے والوں کو نظرانداز ہی نہیں کیا بلکہ بعض شخصیات کو اپنی کابینہ میں بھی شامل کرلیا۔مفاہمت اور اشتراک عمل کا یہ جذبہ پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے میں معاون ثابت ہوسکتاہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں