حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے عیاں ہوتاہے کہ رائے دہندگان کے نزدیک کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت سے وابستگی مستقل نہیں۔عمران خان کی جیتی ہوئی دونشستوں پر مخالف امیدوارں بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی غلام احمد بلور کی کامیابی حیرت انگیز ہی نہیں بلکہ دھماکہ خیز بھی ہے۔اے این پی کے بارے میں خیال تھا کہ یہ جماعت سیاسی منظر نامہ سے حرف غلط کی طرح مٹ گئی ہے لیکن اب وہ اپنی نظریاتی حریف جمعیت علمائے اسلام کے تعاون سے دوبارہ ابھررہی ہے۔سیاست کے رنگ بھی نرالے ہیں ۔ تحریک انصاف کے خلاف حاجی بلور اور مولانا فضل الرحمن کے حامی یک جان دوقالب ہوگئے۔ راجن پور سے ’خادم اعلیٰ‘ پنجاب شہباز شریف کی نشست پر تحریک انصاف کی کامیابی اور پاکستان کی راجدھانی‘ جہاں وزیراعظم نواز شریف خود تشریف فرما ہیں اورچودھری نثارعلی خان جیسا طاقت ور اور زیرک وزیرداخلہ انتخابی عمل کی نگرانی کررہاتھا‘ نون لیگ قومی اسمبلی کی نشست بیٹھی۔نون لیگ کے امیدوار اشرف گجر‘ جن کا تعلق ایک بڑی مضبوط برادری سے ہے‘ کراچی کے باسی اسد عمر سے‘جن کی اس شہر میں کوئی برادری نہیں‘ شکست کھاگئے۔حالانکہ پوٹھوہار ڈویژن میں نون لیگ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہے‘ حتّٰی کہ 2008ء کے عام انتخابات میںبھی جو جنرل (ر) پرویز مشرف کی چھتر چھایا میں ہوئے‘ نون لیگ نے اسلام آباد کی دونوں نشستیں حاصل کرلی تھیں۔اب راولپنڈی کی دو اور اسلام آباد کی ایک نشست مسلم لیگ کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔اس کا سہرا جماعت کے مقامی راہنمائوں انجم عقیل اور حنیف عباسی کے سر ہے‘ جن پر زمین ہتھیانے اور سملنگ جیسے سنگین الزامات ہیں۔ اسد عمر نے اینگرو کارپوریشن جیسی ملٹی نیشنل کمپنی میں بطور منتظم اعلیٰ خدمات سرانجام دیں جو پاکستان میں منافع کمانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور قابلیت اور لیاقت کے بل پر بتدریج قومی سیاسی منظر نامہ پہ جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔اسلام آباد سے نون لیگ کی شکست محض کمزور امیدوار اور جماعتی خلفشار کے باعث نہیں ہوئی بلکہ یہاں کا ووٹرملک کے باقی حصوں کے برعکس زیادہ باشعور ہے ۔اسلام آباد میں خواندگی کی شرح بھی دوسرے علاقوں سے زیادہ ہے۔اس سال مئی کے انتخابات میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ شہروں بالخصوص پڑھے لکھے طبقات میں تحریک انصاف کو دوسری جماعتوں پہ واضح برتری حاصل ہے۔ اسلام آباد سے اسد عمر کی کامیابی سے سیاسی جماعتوں بالخصوص نون لیگ کو یہ سبق لینا چاہیے کہ اسے پنجاب میں برادری کی سیاست سے اوپر اٹھنا ہوگا۔محض گجر،جاٹ،راجپوت ،کشمیری اور آرائیں ہونا کوئی معیار ہے اور نہ کامیابی کی ضمانت۔اگر نون لیگ اسد عمر کے مقابلے میں اسی طرح کی شناخت کا امیدوار میدان میں اتارتی تو صورت حال مختلف ہوسکتی تھی اورسیاست میں مثبت رجحان پیدا ہوتا‘ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل لوگوں کی قدر میں اضافہ ہوتا۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں میں میرٹ اور قابلیت کے حامل افراد کو اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ تصور کیا جاتاہے۔ الیکٹرانک اورسوشل میڈیا کے پھیلائو کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ فوری تبدیلی دیکھنے کے لیے بے چین ہوگئے۔نوازشریف اور عمران خان جو منصوبے پیش کرتے ہیں انہیں متشکل ہونے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔مثال کے طور پر خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف معلومات تک رسائی کے حق کا قانون منظور کرنے جارہی ہے۔اس قانون کی منظوری کے بعد شہری سرکاری دستاویزات اور احکامات کے بابت تصدیق شدہ معلومات حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔کوئی بھی شہری حکومت کے پاس موجود معلومات اور ریکارڈ دیکھنے کے لیے مانگ سکے گا۔حکومت یہ معلومات فراہم کرنے کی پابندہوگی۔عمران خان نے وعدہ کیاہے کہ وہ انفارمیشن کمیشن بھی قائم کریں گے تاکہ شکایات کی صورت میںمتعلقہ محکموں کی بازپرس کی جاسکے۔اس قانون کی منظوری سے سرکاری حکام کو اپنے کاموں میں شفافیت لانا پڑے گی۔بدعنوانی اور کرپشن کے امکانات محدود ہوجائیں گے اور شہری یہ جان سکیں گے کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ کس طرح استعمال کیاجاتاہے۔کے پی کے کی حکومت اور انتظامی مشینری بدعنوانی اور خراب کارکردگی میں اس وقت ’ولایت ‘ کے منصب پر فائز ہے۔ اس قانون پر عمل درآمد شروع ہوگیا تو خیبر پختون خوا کے انتظامی ڈھانچے میں نمایاں بہتری آجائے گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے بھی پرعزم ہے۔بلدیاتی انتخابات کے بعد انتظامی اختیارات گائوں اور یونین کونسل کی سطح پر منتقل ہوجائیں گے۔ جو ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی گزشتہ ستائیس برسوں سے سرکاری وسائل کو من مانے طریقوں سے برتنے کے ذمہ دار ہیں وہ آسانی سے یہ فیصلہ قبول نہیں کریں گے ۔کوئی بھی اپنی چودھراہٹ چھوڑنا نہیں چاہتا۔ معاملہ ’مال وزر ‘کا ہو تو انسان زیادہ ہی حریص ہوجاتا ہے ۔ تحریک انصاف کے پی کے جو اسٹریکچرل تبدیلیاںلارہی ہے وہ اس صوبے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر کے پی کے میں بلدیاتی نظام کامیابی سے تشکیل پاجاتاہے تو سیاسی جماعتوں کو کارکنوں اور راہنمائوں کی ایک کھیپ دستیاب ہوگی جو آئندہ چند برس میں قومی افق پر بھی اپنے آپ کو منواسکتی ہے۔استنبول کا مئیر طیب اردوان، تہران کا مئیر احمدی نژاد اگر اپنے ملکو ں کے وزیراعظم اور صدر بن سکتے ہیں تو پشاور کا مئیر بھی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر بڑے سے بڑا مقام حاصل کرسکتاہے۔بلدیاتی انتخابات کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ انتہاپسند عناصر بالخصوص نوجوان شدت پسندوں کا ایک اچھا خاصا حصہ سیاسی سرگرمیوں کی طرف مائل ہوجائے گا۔اس طرح اس صوبے میں جاری پرتشدد سرگرمیوں میںنظر آنے والی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسائل کاراتوں رات حل چاہتے ہیں۔ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکاہے۔ صدیوں سے جاری تربیت کا اثر ہے کہ رائے عامہ حکمران نہیں مسیحا کی تلاش میںسرگرداں ہے۔قدیم صحیفوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ جادو کی چھڑی ہلانے سے سارے دکھ درد دور کیے جاسکتے ہیں۔لوک گیتوں میں بھی ایسے رومانوی کردار تراشے جاتے ہیں جن کے اشارہ ابرو سے دنیا جہاں کے مصائب سے چھٹکارا مل جاتاہے۔ دوسر ا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تین سے چار عشروں پر محیط فوجی حکومتوں نے سیاستدانوں کا امیج مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔انہیں جان بوجھ کر کرپٹ کیا گیا۔ سیاست کو فطری طور پر ارتقاء کا سفر طے کرنے نہیں دیا گیا ۔چنانچہ لوگ سیاستدانوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ان کے دل سیاستدانوں سے انتقام اور نفرت سے جل رہے ہیں۔خود سیاستدانوں کا طرززندگی بھی اس نفرت میں اضافے کا باعث بنا۔متوسط طبقہ سے سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والے رہنما دیکھتے ہی دیکھتے بورژوا بن جاتے ہیں۔ خدا ئی لب ولہجے میں مخلوق سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ لوگ اب طفل تسلیوں پر ٹرخنے والے نہیں۔ان کے ہاتھ ایک ایسا گر آگیاہے جس کے استعمال سے وہ کسی بھی سیاسی قوت کو ہیرو سے زیرو بناسکتے ہیں۔ایم کیوایم جو کل تک کراچی اور حیدرآباد کی بے تاج بادشاہ تھی‘ اب تحریک انصاف کی پذیرائی اس کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہی ہے۔یہی حال باقی جماعتوں اور شخصیات کا بھی ہے۔کامیابی وکامرانی کی کسوٹی کارکردگی بن چکی ہے اور اگلے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کا یہی پیمانہ ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی۔نئے چہروں کو سامنے لانا ہوگا۔ابھرتے رجحانات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔نوجوان جو آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں ان کے مسائل اور جذبات کا خیال رکھنا ہوگا۔