"IMC" (space) message & send to 7575

کامیاب پیش رفت

پاکستان اور روس کے اعلیٰ حکام کے مابین ہونے والے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ پر مبصرین نے بہت کم توجہ دی؛ حالانکہ موجودہ عالمی حالات اور خطے کی صورت حال کے پس منظر میں پاکستان اور روس کے درمیان تیزی لیکن خاموشی سے فروغ پذیر تعلقات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔بالخصوص افغانستان سے نیٹو کے فوجی انخلا ء اور بعد ازاں افغانستان میں بدامنی یا خانہ جنگی کے امکانات کے پس منظر میں دونوں ممالک کے درمیان جاری مشاورت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔گزشتہ برس اکتوبر کے آخری دنوں میں روسی صدر ولادیمیرپوٹن نے پاکستان کا دورہ ملتوی کیا تو دونوں ممالک کے تعلقات کو خاصا دھچکا لگا؛ تاہم پاکستان منفی ردعمل کا شکار نہیں ہوا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اسی ماہ اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق ماسکو گئے۔ اسلام آباد اور ماسکو میں حکام کی جانب سے بتدریج تعلقات میں گرم جوشی لانے کی جستجو جاری رہی۔جس کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے ماسکو میں پہلے کامیاب اسٹرٹیجک ڈائیلاگ مکمل ہوئے۔ دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری قیادت سرد جنگ کی تلخ یادوں سے اوپر اٹھ کر دوطرفہ تعلقات میں سدھار لانے کے لیے پرعزم نظرآتی ہے۔اگرچہ ان کے راستے میں کافی مشکلات حائل ہیں۔بھارت جو کہ روس کا قریبی حلیف ہے‘ پاک روس تعلقات میں بہتری کو پسند نہیں کرتا۔ سرد جنگ کو تمام ہوئے کئی عشرے گزر گئے‘ لیکن بھارت ابھی تک روس کو دوستی کے حصار میں قیدرکھناچاہتاہے۔علاوہ ازیں امریکا بھی پسند نہیںکرتا کہ پاکستان کا اس پر انحصار کم ہو۔وہ پہلے ہی پاکستان کے چین کے ساتھ گہرے تعلقات کے نتائج دیکھ چکا ہے۔اسلام آباد کی ماسکو کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت اسے گوارا نہیں؛ کیونکہ یہ خطے کی سیاست کا رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔چنانچہ امریکا کی حامی لابی اسلام آباد میں پاک روس تعلقات کے خلاف سازشیں کرتی رہتی ہے۔ روسی قیادت کی جانب سے تلخ عالمی حقائق کا ادراک پاک روس تعلقات میں بہتری کا بنیادی محرک تصور کیا جاتا ہے۔ صدر پوٹن چاہتے ہیں کہ روس کا کھویا ہوا عالمی مقام بحال ہو۔ یہ خواہش اس وقت مزید تواناہوئی جب دنیا کساد بازاری کے سبب اقتصادی بحران سے دوچار ہوئی لیکن تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے باعث روسی معیشت حیر ت انگیز طور پر مضبوط ہوئی۔ روس ہتھیاروں کی فروخت کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے۔پاکستان کو امریکا اور مغربی ممالک سے جدیدہتھیار اور ٹیکنالوجی کے حصول میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔روس اس خلا کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ علاوہ ازیں روس توانائی ، ریلوے لائن اور اسٹیل کے بڑے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتاہے بشرطیکہ اُس کے سرمایہ کاروں اور کارکنوں کے تحفظ کی ضمانت دے سکے۔ خود روس کے اندر آباد مسلمانوں میں حکومت کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔چیچن دنیا کے خطرناک ترین جنگجو تصور کیے جاتے ہیں۔انہوں نے روس کے اندر کئی ایک عسکری کارروائیاں کیں‘ جن میں بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ گزشتہ ہفتے خبر آئی تھی کہ ایک عرب ملک کے ایک سینئرسفارت کار نے صدرپوٹن کو دھمکی دی کہ اگر وہ شام میںصدر بشارالاسد کی حکومت کی حمایت ترک نہیں کریں گے تو چیچن جنگجو روس کو تنگ کرسکتے ہیں۔ روس چاہتاہے کہ پاکستان ان عناصر کی مدد نہ کرے۔ماضی میں چیچنیا کے جلاوطن صدر نے کچھ وقت تک پشاور کو اپنا مستقر بنائے رکھا۔مغربی اور چند ایک عرب ممالک کی خواہش تھی کہ پاکستان کی سرزمین کو روس کے خلاف استعمال کیا جائے۔ شکر ہے کہ حکومت نے ان اقدامات کی اجازت نہ دی۔ حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر طالبان اور ان کے حامیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ ماسکو نے دیکھا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکارہے ۔ پاکستانی رائے عامہ شدت پسندوں کی حامی نہیں رہی۔ان واقعات نے بھی پاکستان کے بارے میں روایتی روسی روش کو تبدیل کیا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ’بنانا‘یا امریکا کی طفیلی ریاست کے طور پر ابھرا۔جو اپنی حاکمیت اعلیٰ کھو چکا ہے۔اس کی سرزمین کو پامال کیا جاتاہے۔امریکا ڈرون حملے کرتاہے۔طالبان اور القاعدہ کے جنگجو اسے پناہ گاہ کے طو رپر استعمال کرتے ہیں؛ حتیٰ کہ دنیا کا مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن آٹھ برس تک بیگمات اور بچوں کے ہمراہ پاکستان کے پرفضامقام ایبٹ آباد میں مقیم رہا۔ پرویزمشرف نے ذاتی اغراض اور ہوس اقتدار کی خاطر جس طرح پاک سرزمین کا تقدس پامال کرایا اس کی داستان ہوش ربا سابق جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب لکھی ہے۔ حالیہ عشرے میں پاکستان کی جوتذلیل ہوئی اس نے ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مجبور کیا کہ وہ امریکا کے حصار سے باہر نکلنے کی تدبیر کرے۔اسی پس منظر میںچین اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں گہرائی لائی گئی ۔خطے کے مسائل کے حل کے لیے علاقائی حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔بھارت کے ساتھ کشیدگی اور تنائو کو ایک سطح پر منجمد کیا گیا۔ صدر حامد کرزئی کی دشنام طرازی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا۔روس کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی گئی۔روس عالمی اور علاقائی طاقت کے طور پرعلاقائی مسائل کے حل میں مثبت کردار ادا کرسکتاہے۔خود روسی حکام کو بھی ادراک ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ افغانستان پر روسی صدر کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابولوف نے کہا: ہمارا تجزیہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے تعمیر ی اور مثبت کردار کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی فوج نے بھی روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔روس کی موجودہ قیادت میں اکثر کی سیاسی اور نظریاتی تربیت سردجنگ کے زمانے میں ہوئی ۔خود موجودہ صدر پوٹن کے جی بی کے سربراہ رہے ہیں ۔روسی فوجی جنرلوں اور سیاستدانوں کے ذہنوں سے ماضی کی یادوں کو محو کرانا سہل نہیں۔جہاد افغانستان کی قیادت فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے کی۔ دنیا بھر سے اسلحہ اور عساکر جمع کیے گئے۔ چنانچہ روس کے پاک فوج کے بارے میں بہت سارے سمجھ آنے والے تحفظات ہیں جنہیں دور کرنے کی خاطر جنرل پرویز مشرف 2002ء میں ماسکو گئے۔گزشتہ برس جنرل اشفاق پرویز کیانی ،فضائیہ کے سربراہ ائر چیف مارشل طاہر رفیق بٹ اورآئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے ماسکو کا دورہ کیا۔روس کے وزیردفاع اور گزشتہ ماہ روسی فوج کے سربراہ کرنل جنرل ولایمیر چرکن اسلام آباد آئے۔ ان دوروں کا مقصد ماضی کی تلخیوں کو دفن کرنا اور تعلقات میں نئے باب کا اضافہ کرنا ہے۔ اس ساری فوجی اور سیاسی سفارتی کاری کا حسن یہ ہے کہ روایتی چیخ وپکار سے اجتناب برتاگیا۔جس کا فائدہ یہ ہوا پاکستان مخالف لابی متحرک نہیں ہوئی۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ دفاع کے علاوہ سرمایہ کاری اور بڑے منصوبوں میں روس کی فنی مہارت اور وسائل سے استفادہ کرے۔ان تعلقات کو امریکا کے مدمقابل کھڑے ہونے یا امریکا سے بے زاری کے تناظر میں ابھارنے کی ضرورت نہیں ۔جس قدر ممکن ہو سکے تعلقات کے اقتصادی اور تجارتی پہلو کو اجاگر کیا جائے۔دفاعی تعاون اور شراکت داری کو ہر ممکن حد تک زیادہ نہ اُچھالا جائے تاکہ پاک روس تعلقات کے مخالفین کے کان کھڑے نہ ہوں ۔نہ ہی امریکا کو مخالفین کی صف میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔چین بھی ہمیشہ پاکستان کو یہی مشورہ دیتارہاہے کہ وہ عالمی طاقتوں سے تعلقات کو نہ بگاڑے؛ بلکہ ان میں ٹھہرائو لائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں