"IMC" (space) message & send to 7575

دفاع پاکستان ریلی :چند معروضات

وزیراعظم نوا ز شریف کے لچک دار رویئے اور عالمی طاقتوں کی کاوشوں سے نیویارک میں بھارتی اور پاکستانی وزرائے اعظم کے مابین ملاقات کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ سفارتی حلقوں میںکنٹرول لائن پر جاری کشیدگی کے پس منظر میں اس ملاقات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اگر چہ اس ملاقات سے غیر معمولی نتائج کی توقع نہیں لیکن چوٹی کانفرنسوں کی اپنی علامتی اہمیت ہوتی ہے۔بعض اوقات اس طرح کی ملاقاتوں سے ناقابل یقین مثبت نتائج بھی برآمد ہوجاتے ہیں۔شملہ معاہدہ بھی ایسی ہی ایک ڈرامائی ملاقات کا نتیجہ ہے۔ 2جولائی 1972ء کی سہ پہر ذوالفقار علی بھٹو کا وفد شملہ معاہدے کی ناکامی کے بعد وطن واپسی کا قصد کرچکاتھا۔ سامان باندھ لیاگیا۔ بھارتی وزیراعظم اندار گاندھی الوداع کہنے ہوٹل تشریف لائیں۔بات سے بات چل نکلی اور دونوں راہنمائوں نے ایک دوسرے کی داخلی اور خارجی مجبوریوں کا احساس کیا ۔شملہ معاہد ہ طے پاگیا۔ نوے ہزار کے لگ بھگ پاکستانی قیدی رہا ہوگئے۔سقوط مشرقی پاکستان کے باوصف پاکستان نے اپنے روایتی نقطہ نظر سے انحراف نہیں کیا۔سیاستدان ملتے ہیں تو وہ غیر روایتی اور بسااوقات غیر مقبول فیصلہ بھی کرلیتے ہیں۔ کنٹرول لائن پر کشیدگی کے معاملے پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے ملک کی مشکلات میں اضافے سے گریز کیا۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کنٹرول لائن کا دورہ کیا لیکن بھارتی آرمی چیف کے برعکس اشتعال انگیز بیانات جاری کرنے سے اجتناب کیا۔نواز شریف نے امریکا اور یورپی یونین سے درخواست کی کہ وہ غیر ضروری طور پر پیدا ہونے والی کشیدگی کو روکنے میں کردار ادا کریں۔ایک مغربی سفارت کار نے راقم الحروف کو بتایا کہ نوازشریف چاہتے ہیں کہ بھارت کے اگلے انتخابات میں پاکستان کے خلاف دشنام طرازی نہ کی جائے بلکہ یہ انتخابات پاکستان سے دوستی کے نام پر لڑے جائیں۔ چھ ستمبر کو اسلام آباد اور راولپنڈی میں جماعت الدعوہ نے دفاع پاکستان کے عنوان سے ایک بڑے اجتماع کا اہتمام کیا۔دس ہزار کے لگ بھگ شرکا کو نہ صر ف جڑواں شہرو ں بلکہ گردونواح کے علاقوں سے جمع کیا گیا۔مولانا سمیع الحق، جنرل حمید گل، حافظ محمد سعید ،لیاقت بلوچ اور سردار عتیق احمد خان نے نوازشریف کی خارجہ پالیسی پر مکمل طور پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔انہیں بھارت کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ مقررین نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ پاک بھارت تجارت نہیں چلنے دیں گے۔علاوہ ازیں افغانستان میں جاری طالبان کی بھرپور حمایت او ر جہاد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیاگیا۔اس کے برعکس نون لیگ کی حکومت افغانستان میں قیام امن کے لیے بھرپور کوششیں کررہی ہے۔افغان صدر حامد کرزئی کو نواز شریف نے ذاتی کوششوں سے دورہ پاکستان پر آمادہ کیا۔ اپنی عسکری اور سفارتی ٹیم کے ہمراہ کرزئی سے مذاکرات کیے ۔اب لیاقت باغ سے دفاع پاکستان کونسل کے راہنما ئوں نے انہیں پیغام دیا کہ پاکستان کی اہم سیاسی اور مذہبی قوتیںاب بھی متحارب طالبان کی پشت پناہی کرتی ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ان رہنمائوں کی شہرت مقتدرحلقوں کے حلیفوں کی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اپنی جگہ لیکن کیا ایک منتخب حکومت کو داخلی اور خارجہ پالیسی کا تعین کرنے اور اس پر آزادی سے عمل درآمد کا مینڈیٹ نہیں؟محض تین ماہ پہلے عوام نے بھاری اکثریت سے نواز شریف کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ قومی پالیسیوں کی تشکیل نو کرسکتے ہیں۔مانا کہ بھارت سے تعلقات کی بہتری میں توازن کی ضرورت ہے۔ کشمیر جیسے پیچیدہ مسئلہ پر پیش رفت کے لیے بھی نہایت سنجیدگی اور تدبر سے چلنا ہوگا لیکن گنتی کے چند شدت پسندگروہوں کو حکومت کی داخلی اور خارجہ پالیسی کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دفاع پاکستان کونسل کے راہنما پاکستان کے مسائل کا جو حل پیش کرتے ہیں وہ ملک کو مشکلات سے نکالنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔ان میں اکثر آج بھی سردجنگ کے عہد میں جیتے ہیں۔بدلے ہوئے حالات کا انہیں ادراک نہیں۔ مسلسل مزاحمت اور جدوجہد کو پاکستان کی سا لمیت کا تقاضا قراردیتے ہیں۔دفاع پاکستان کے راہنمائوں میں سے اکثر کا ایک ماضی ہے۔بہت ساروں کی شخصیت افغان جہاد کی کوکھ سے اٹھی ہے۔ نائن الیون کے بعد عالمی منظرنامہ ڈرامائی انداز میں بدلا ۔امریکا اپنے لائو لشکر سمیت افغانستان میں آ گیا۔پاکستان پر بے پناہ سیاسی اور سفارتی دبائو ڈالا گیا کہ وہ اپنی تزویراتی حکمت عملی اور سیاسی فکر میں بنیادی تبدیلی لائے۔اس کا سر جھکانے کی خاطر اس کے اندر جنگ چھیڑدی گئی ‘جس میںہزاروں شہری شہید اور گھائل ہوئے۔ ریاستی اداروں نے بہت سے ایسے گروہوں کو نظرانداز کردیا کیونکہ وہ پاکستان میں امن وامان کا مسئلہ پیدا نہیں کرتے۔ یہ ادراک نہیں کیا گیا کہ ان عناصر کی سرگرمیاںشدت پسندگروہوں کے وجود کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ان کے لیے مالی وسائل جمع کرنے اور افرادی قوت فراہم کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں اور بعض اوقات ان کے لیے پناہ گاہیں فراہم کرتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال لاہور سے القاعدہ سے منسلک ایک شخص کا پکڑا جانا ہے۔ حربی امور کے ماہرین ان عناصر کو پاکستان کی سلامتی کے لیے ٹائم بم قراردیتے ہیں‘ جو کسی بھی مرحلے پر اپنی ہی ریاست پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ الیاس کشمیری کی طرح جو کبھی بازوئے شمشیر زن تصور ہوتا تھا لیکن وقت آنے پر اس نے پلٹ کر اپنی ہی ریاست پر وار کیا۔ کشمیر کا بھی اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ اس کی وکالت وہ عناصر کرتے ہیں جنہیں دنیا اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیتی ہے۔ عمران خان مقدمہ کشمیر دنیا کے سامنے پیش کرتے،پیپلزپارٹی یا نون لیگ والے ہی یہ خدمت سرانجام دیتے تو شاید کچھ پذیرائی مل جاتی۔ دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے کشمیر کی وکالت ،بے چارے کشمیریوں کی تحریک کا عالمی امیج بہتر کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی ۔بدقسمتی سے اعتدال پسند عناصر جن کا عالمی امیج اور ساکھ ہے وہ ایسے ایشوز کو ہاتھ ہی نہیں لگاتے جن کے ساتھ لوگوں کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں