اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نوازشریف اسلام آباد کے نواح میں ایک نیا شہر آباد کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ ایک ایسا شاہکار جس میں شہری زندگی کی ہرسہولت میسر ہو۔ ترکی اور ملائشیا کے شہروں کا مقابلہ کرتاہو۔شہر کے بیچوں بیچ ایک شاہراہ گزاری جائے گی ۔اس کے اطراف میں فلک بوس عمارتیں اٹھائی جائیں گی۔یوں وزیراعظم نواز شریف کے نئے پاکستان کی تعمیر کا خواب حقیقت میں متشکل ہوگا۔ بظاہر منصوبہ شاندار نظرآتاہے ۔ پاکستان کو درپیش انگنت مسائل میں ایک گھمبیر مسئلہ رہائشی مکانات کی عدم دستیابی بھی ہے۔محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں اسی لاکھ گھر تعمیر کیے جانے چاہئیں۔ ہر سال اس ضرورت میں چھ لاکھ کا اضافہ ہوجاتاہے۔ اس شعبے میں براہ راست حکومتی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔گزشتہ ایک دہائی میں نجی اداروں نے بڑی تیزی سے پراپرٹی کے کاروبار میں قدم جمائے اور شہریوں کی ضروریات پوری کیں ۔متعدد معیاری تعمیراتی منصوبے مکمل کیے۔ ان منصوبوں نے پاکستان کو نئی شناخت عطاکی لیکن ان کاروباری اداروں نے مصنوعی طریقوں سے زمین اور مکانات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ بھی کرادیا۔چنانچہ مکان خریدنا یا بنانا ایک سہانا سپنا بنا دیا گیا۔مکانات کی کمی کے باعث کرائے داروں کی زندگی بھی اجیرن ہوچکی ہے۔صاف ستھری آبادیوں میں کرائے کے مکانات بہت مہنگے ہیں۔ اچھی خاصی آمدنی والے افراد بھی گھر بنانا تو دور کی بات معقول علاقے میں رہائش رکھنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ماہرین اقتصادیات کی رائے ہے کہ اگر پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر مکانات کی تعمیر پر توجہ نہ دی گئی تو یہ بحران بہت سنگین ہوسکتاہے۔عمومی طور پرتعلیم یافتہ اور خوشحال لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کا کہنا ہے کہ شہروں میں منتقلی کا موجودہ رجحان برقرار رہا تو 2030ء میں پاکستان کی آدھی آبادی شہروں میں آباد ہوجائے گی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ کس قدر بڑے پیمانے پر نئے مکانات اور آبادیاں بسانے کی ضرورت ہے۔ورنہ شہروں کے گردونواح میں کچی آبادیاں کھڑی ہوجائیں گی جنہیں باقاعدہ بنانا ناممکن ہوجاتاہے۔ دوسری جانب تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ کاروبار کا پورا سرکل گھومنا شروع ہوجاتاہے۔روزگار کے مواقع ہی عام نہیں ہوتے بلکہ ہر صنعت کا مال بکتاہے جب کہ ہنرمندوں کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاتاہے۔ترکی کی حالیہ ترقی اور شرح پیداوار میں اضافے کا ایک بڑا سبب تعمیرات کی صنعت میں سرمایہ کاری بتایا جاتاہے۔گزشتہ دس برس میں ترکی کی حکومت نے نجی اداروں کے تعاون سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے چھ لاکھ مکانات تعمیر کرائے۔ پاکستان میں ایسے نجی اداروں کی کمی نہیں جنہوں نے نئی بستیاں آباد کرکے نیک نامی کمائی ۔ لوگ ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔لیکن اس سیکٹر میں دھوکے بازوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے عام شہریوں کی جمع پونجی لوٹی۔لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ہر دوسرے شخص کے پاس اس حوالے سے ایک کہانی ہے۔پندرہ برس قبل راولاکوٹ میں ایک ہائوسنگ سکیم شروع ہوئی ۔ دام مناسب اور ادائیگی قسطوںمیں کرنی تھی۔ قرعہ اندازی میں پلاٹ لے لیا۔قسطیں دیتا رہا۔پھر اطلاع ملی کہ سوسائٹی میں جاری تعمیراتی کام بند ہوچکاہے۔ پندرہ برس گزرچکے ہیں کوئی اطلاع نہیں کہ پلاٹ یا جمع شدہ رقم کا کیا بنا؟ اگست 2008ء میں اسلام آباد میں ایک ہائوسنگ سکیم کی بھرپور تشہیر ہوئی۔ میرے مشورہ پر ناروے میں مقیم خالہ زادہ بھائی علی شاہنوا ز خان نے پانچ پلاٹ لے لیے۔بروقت قسطیں اداکرتے رہے۔بعد میں معلوم ہوا کہ سکیم کے پاس اتنی زمین ہی نہیں جتنے پلاٹ فروخت کیے جاچکے ہیں۔ ہزاروں افرادگزشتہ دو سال سے منتظر ہیں کہ انہیں پلاٹ دیا جائے یا رقم لوٹائی جائے لیکن سکیم انتظامیہ نے چپ سادھ رکھی ہے۔ کوئی پوچھنے والے نہیں کہ شہریوں کے ساتھ کی جانے والی دغابازی کا ذمہ دار کون ہے؟ذاتی واقعات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ محض سنی سنائی باتیں نہ دہرائی جائیں بلکہ مستند بات کی جائے۔ وزیراعظم نوازشریف یا ان کی حکومت کو قومی وسائل صرف کرکے ایک نیا شہر آباد کرنے کے بجائے وہ فضا پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں سرمایہ کار کا اعتماد بحال ہو۔ہرکوئی اطمینان کے ساتھ زمین یا مکان خرید سکے۔ جمع پونجی ڈوبنے کا خطرہ نہ ہو۔حکومت کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ جائیداد کی خریدو فروخت کے حوالے سے سخت قانون سازی کرے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ تعمیراتی معیار پر سمجھوتہ نہ کرے۔ غریب دیہاتیوں کی زمین اونے پونے ہتھیانے نہ دے۔ دھوکہ باز بڑے مگرمچھوں کے خلاف تادیبی کارروائی سے چھوٹی مچھلیاں خود بخود عبرت پکڑلیتی ہیں۔دنیا بھر میں مالیاتی ادارے بالخصوص بینک مکانات کی خریداری کے لیے آسان قسطوں پر قرض دیتے ہیںجسے عرف عام میں مورٹ کہتے ہیں۔اسی طرح کا کوئی بلاسودی یا اس سے ملتا جلتا نظام وضع کیا جائے تاکہ شہری بلاخوف و خطر حسب ضرورت مکانات خرید یا تعمیر کرسکیں۔ سرکاری اداروں کے ذریعے میگا پروجیکٹ کرنا سعی لاحاصل ہے۔بجا کہ وفاقی دارلحکومت کے ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کی کارکردگی اس کے ہم عصر اداروں کے مقابلے میں بہتر رہی لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔جس بڑے پیمانے پر اس شہرمیں ہر حکومت نے کروڑوں نہیں اربوں روپے کی جائیداد کا خردبرد کیا وہ ’لوٹ مار‘ کی قومی تاریخ کا ایک تلخ باب ہے‘ جس پر سے انشاء للہ ایک نہ ایک دن پردہ اٹھے گا۔ اکثر افسروں نے ایک نہیں بلکہ دودو پلاٹ ہتھیائے۔عارضی طور پر سی ڈی اے میں تعینات ہونے والوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اسلام آباد میں ہزاروں شہری ایسے مل جاتے ہیں جنہوں نے کئی عشرے پہلے سی ڈی اے سے پلاٹ خریدے‘ پوری رقم جمع کرائی لیکن ابھی تک پلاٹ کا قبضہ نہیں ملا۔ کئی ایک سیکٹر جو مدتوں پہلے سی ڈی اے فروخت کرچکی ہے ان پر ابھی تک سابق مالکان قابض ہیں۔ حکومت جب کسی بڑے منصوبے کا اعلان کرتی ہے تو ماتھا ٹھنکتاہے کہ کہیں شہریوں کو لوٹنے کا کوئی نیا منصوبہ تو روبہ عمل نہیں! جو حکومت قومی ائر لائن پی آئی اے میں ہر ماہ تین ارب کا خسارہ برداشت کرتی ہے لیکن اس نقصان سے چھٹکارا پانے کی کوئی تدبیر نہیں کرتی‘جو حکومت اٹھارہ کروڑ میں سے صرف بارہ لاکھ شہریوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے اور اربوں روپے کی جائیدادوں اور زرق برق گاڑیوں اور عالی شان محلاّت کے مالکان سے چند ہزارروپے بھی ٹیکس نہیں لے پاتی‘ جس کے کچھ پولیس افسر بھتہ خوری میں ملوث ہیں‘ ایسی انتظامیہ سے یہ توقع کرنا کہ وہ ایک نیا شہر آباد کرے گی‘ ایک سنگین مذاق لگتاہے۔وزیراعظم نواز شریف کی نیت پر شک نہیں لیکن بدقسمتی کے ساتھ وہ جس انتظامی مشینری کی قیادت میں یہ منصوبے شروع کر رہے ہیں وہ نہ صرف نااہل بلکہ بدنیت بھی ہے۔ڈرلگتاہے کہ اس نئے منصوبے کی بھی درست منصوبہ بندی نہ کی گئی اور کڑی نگرانی کا نظام نہ وضع کیا گیا تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی سیکنڈل ہوگا جو نون لیگ کی حکومت کا سفینہ ڈبونے کا باعث بن سکتا ہے۔