تین دن تک ’’بچے نہ دیکھیں کی ہدایت‘‘ کے ساتھ درجنوں ٹی وی سکرینوں پر لاہور میں ایک معصوم بچی کے ساتھ پیش آنے والا دلخراش واقعہ مسلسل دُہرایا جاتارہا۔ اس جرم کے مرتکب افراد کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے۔ جلدی سے جلدی انصاف ہو تاکہ لوگوں کا کلیجہ ٹھنڈا ہو۔ اس واقعے نے پورے ملک کو بے چین کیا۔ انسانی قدروں کی دھجیاں اُڑائیں۔ میڈیا نے اس حادثے کی تین دن تک لائیو کوریج کرکے ایک نئی طرح ڈالی ہے جو ہماری روایات اور انسانی قدروںسے لگا نہیں کھاتی۔ ان دنوں میں لوگوں کے لیے بچوں، والدین اور بہنوں کے ہمراہ ٹی وی دیکھنا محال ہوگیا تھا۔ بچے استفسار کرتے کہ کیا واقعہ رونما ہوا اور عورتیں مناظر دیکھ کر آنسو بہاتیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں ایسے دلخراش واقعات رونما نہیں ہوتے تھے؟ ایسے واقعات تو ازل سے ہوتے آئے ہیں لیکن اخبارات کو ہدایت تھی کہ اس طرح کے حادثات کی رپورٹنگ ملفوف انداز میں کی جائے۔ اہلِ خانہ یا متاثرہ افراد کو بے نقاب نہ کیا جائے۔ جہاں تک ممکن ہو پردہ ڈالا جائے۔ تفصیلات بیان کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ شہری جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں سے متاثر نہ ہوں‘ بالخصوص نوجوانوں میں اس طرح کی مہم جُوئی کرنے کی طرف رغبت پیدا نہ ہو۔ وہ اخلاقی قدریں باقی رہیں اور نہ کوئی اس جانب متوجہ کرنے والا باقی بچا۔ بزرگ اخبار نویس اشارے کنائے میں اخلاقی ضابطوں کی بات کرتے ہیں تو انہیں ناکام صحافی کہہ کر ٹھکرا دیا جاتا ہے۔ ایک دہائی پہلے تک اخبارات میں قلمکار بنتے بنتے کئی دہائیاں بیت جاتی تھیں۔ ایڑیاں رگڑنا پڑتیں۔ مطالعہ اور مشاہدے کی ریاضت سے گزرنا ہوتا۔بڑی مشقت کے بعد کوئی جاکر کالم یا مضمون نگار بن پاتا۔ٹی وی چینلز کی یلغار نے ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع مہیا کیے۔ سب کچھ بہت جلدی میں ہوا۔ نوآموزصحافی اور اینکرپرسنز تربیت کے ضروری مراحل سے نہ گرز سکے۔ اس کمزوری کے باعث آئے روز بڑے ڈرامے رونما ہوتے ہیں۔ لگ بھگ تین سال پہلے اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں ائر بلیو کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہوگیا۔اس دن ٹی وی چینلز پر بڑے بڑے تاریخی لطیفے ہوئے۔ پیشہ کے اعتبار سے ایک میڈیکل ڈاکٹر بھی اینکر ہیں۔ اصولی طو ر پر انہیں کسی شفا خانے میں خدمت سرانجام دینی چاہیے تھی کیونکہ انہوں نے جوانی کے بہترین ماہ و سال طب کی تربیت حاصل کرنے میں گزارے۔ وہ ناظرین کو ان عوامل کی جانکاری فراہم کررہے تھے جن کے سبب جہاز پہاڑیوں سے ٹکرایا۔اسی طرح کے ماہرین ہر طرف بیٹھے بھاشن دیے جارہے ہیں ۔ بحیثیت معاشرہ ہم زبردست کاہلی اور سستی کا شکارہیں۔چار سُو جذباتیت کا غلبہ ہے۔ہم بے شمار ایشوز پر اپنی رائے کااظہارکرنا چاہتے ہیں لیکن کر نہیںپاتے۔میڈیا میں بہت کچھ ایسا آتاہے جو دیکھ کر دم گھٹتا ہے لیکن اسے بدلنے یا روکنے کی سعی نہیں کرتے کیونکہ اظہار کا قرینہ نہیںپاتے۔دنیا بھر میں سیٹیزن میڈیا کا ایک بڑا موثر تصوّر پایا جاتاہے۔کئی ممالک میں ناظرین کسی پروگرام کو اپنی اقدار کے خلاف تصور کرتے ہیں تو وہ ٹی وی چینلز کو فون کرتے ہیں۔ ای میل کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔آج کل سوشل میڈیا کا فورم دستیاب ہے جس پر چند لمحات میںناپسندیدگی کا اظہار کیاجاسکتاہے۔ چند ماہ قبل ایک نجی ٹی وی پر ایک پروگرام چلا جس پر ناظرین کی طرف سے سخت اعتراض کیا گیا۔ ہزاروں شہریوں نے ٹی وی کی انتظامیہ کو ایک یادداشت بھی پیش کی ۔نہ صرف یہ پروگرام بند کردیاگیا بلکہ پروگرام کرنے والی پوری ٹیم کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ٹی وی کے صدر نے ناظرین کے جذبات کے پیش نظر باقاعدہ اپنے ادارے کی طرف سے غیر معقول پروگرام کے نشر ہونے پر رنج وافسوس کا اظہار کیا۔رمضان المبارک میں جب چند اداکاروں نے رمضان پروگرام کرنا شروع کیے تو ناظرین اور مبصرین کی ایک بڑی تعداد نے اس عمل کو ناپسند کیا جس پر کئی ایک چینلز نے اپنے پروگرام روک لیے۔ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ امریکا کے ایک ٹی وی چینل پر مسلمانوں کے خلاف ایک پروگرام چل رہاتھا ۔ہم لوگوں نے سوشل میڈیا اور ای میلز کے ذریعے ٹی وی انتظامیہ پر اس قدر دبائو ڈالا کہ نہ صرف پروگرام روک دیا گیا بلکہ ٹی وی انتظامیہ نے اپنے غلطی پر معذرت بھی کی۔پاکستانی شہری بھی یہ طریقے استعمال کرسکتے ہیں ۔ٹی وی چینلز کی انتظامیہ اپنے ناظرین کی پسند اور ناپسند کے بارے میں کافی حسّاس ہوتی ہے۔جس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہیں اپنے جذبات اور احساسات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک آبروریزی کے حالیہ واقعے کا تعلق ہے‘ ریاستی اداروں کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع قانون سازی کرنا ہوگی۔اس کے علاوہ مسائل کا عارضی حل تلاش کرنے کے بجائے امن وامان ، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے مسائل کو ایک پیکج کے طور پر دیکھنے اور اس سے نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے۔جدید سائنسی طریقوں کی مدد سے قانون شکنوں کے خلاف شکنجہ کسا جاسکتاہے۔مثال کے طور پر نادرا شناختی کارڈ بناتے ہوئے شہریوں کا ڈی این اے ریکارڈ بھی محفوظ بناسکتاہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں 95فیصد بالغ شہریوں کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے۔ایک عشرے میں سارے پاکستانیوںکا ریکارڈ مرتب ہوسکتاہے جو جرائم کی بیخ کنی میں کافی مدد دے سکتاہے۔ آسڑیلیا کی پولیس نے چودہ برس قبل ہر مجرم کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے شروع کیے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس ریکارڈ کی مدد سے انہیں جرائم پر قابو پانے میں بہت مدد ملی۔یہ کوئی پیچیدہ کام نہیں۔ڈی این اے بالوں،خون حتیٰ کہ لعاب سے بھی حاصل کیا جاسکتاہے۔قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ ہر انسان کا ڈی این اے مختلف ہوتاہے۔لہٰذا اگر پولیس کے پاس کم ازکم عادی مجرموں کا ریکارڈ جسے کمپیوٹر کی زبان میں Databaseکہتے ہیں ہو تو جنسی زیادتی کے مرتکب مجرم سزاسے نہیں بچ سکتے۔ پاکستان بھی دوسرے ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھاسکتاہے۔