توقعات کے عین مطابق پا ک بھارت سربراہی ملاقات تعلقات کا نیا باب لکھنے میں ناکام رہی۔ذرائع ابلاغ نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے مابین نیویارک میں ہونے والی ملاقات کا بہت بڑا ہوّا کھڑاکیا لیکن پرنالہ وہیںبہہ رہاہے۔من موہن سنگھ نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا: پاکستان کو دہشت گردی بند کرنا ہوگی۔وزیرخارجہ سلمان خورشید کہتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی کیونکہ نوازشریف اور پاک فوج ایک صفحے پر نہیں ۔ نوا زشریف کے دورۂ امریکا کو غیر موثر کرنے کے لیے غیر مرئی قوتیں بہت پہلے متحرک ہوچکی تھیں۔ان کے نیویارک پہنچنے کے ساتھ ہی دوبڑے حملے کرکے انہیںدفاعی پوزیشن میں دھکیل دیاگیا ۔پشاور میں چرچ پر حملہ ایک بہت ہی گہری اور غیر معمولی سازش تھی ۔مسیحیوںکے لیے چرچ کی اہمیت واضح ہے۔ بلاشبہ بے گنا ہ جانوں کے قتل اور گرجا گھر کی تباہی نے مغربی رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اگر چہ جنر ل اسمبلی کوئی ایسا فورم نہیں جہاں دنیا کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہوں لیکن اس کا سالانہ اجلاس دنیا بھر کے راہنمائوں کو موقع فراہم کرتاہے کہ وہ عالمی برادری کو درپیش مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کریں ۔وزیراعظم نواز شریف اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغرب بالخصوص امریکا کے ساتھ تعلقات میں پائی جانے والی سردمہری کو توڑنے اور بھارت کے ساتھ تعلقات کا نیا باب شروع کرنے کے آرزومند تھے۔ چرچ پر ہونے والے حملے نے ان کی پوزیشن بہت کمزور کی۔عالمی راہنمائوں سے مذاکرات کی نوعیت ہی بدل گئی۔ زیادہ وقت وضاحت میں گزرا۔امریکا اور مغربی ذرائع ابلاغ نے چرچ پر حملے اور مسیحیوں کی اموات کو نمایاں کوریج دی۔نیویارک ٹائمز جیسے موقر روزنامہ نے نہ صرف اس حادثے پر ایک طویل مضمون رقم کیا بلکہ پاکستان میں عیسائیوں کی حالت زار پر بھی گریہ و زاری کی۔تفصیل کے ساتھ بتایا گیاکہ پاکستان میں آباد مسیحی کس قدر مشکل زندگی گزارتے ہیں۔صفائی ستھرائی کے سوا ان کو کوئی کام میسر نہیں۔ ریاستی مشینری ان کے جان ومال کے تحفظ سے قاصر ہے۔دنیاکے معروف ٹیلی وثرن چینلز نے بھی ایسے پرگرام پیش کیے جن سے پاکستان کا رہا سہا امیج بھی ختم ہوگیا۔ وزیراعظم ابھی نیویارک پہنچے ہی تھے کہ جموں کے علاقے میں ایک تھانے اور فوجی کیمپ پر حملہ ہوگیا۔ ایک کرنل سمیت نو افراد مارے گئے۔حملہ جموں کے ایک ایسے علاقے میں ہوا جو ہندو آباد ی کامسکن ہے اور جہاں ماضی میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا وجود نہ تھا۔ان حملوں نے نوازشریف کی بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کی خواہش کے غبارے سے ہوا نکال دی۔بھارتی وزیراعظم اور وزیرخارجہ نے اشتعال انگیزی اور جواب الجواب کا روایتی ماحول پیداکرنے سے گریز کیا لیکن میڈیا اور بھارتیہ جنتاپارٹی سیخ پا ہوئے۔وہ پاکستان کو سزا دینے کے مطالبات کرتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ حملہ آور پاکستان سے آئے ۔ بھارتی حکومت ’’نواز من موہن ‘‘ملاقات کے لیے راضی نہ تھی۔امریکا اور یورپی یونین کے سفارتی دبائو کے باعث سربراہی ملاقات طے پائی۔ملاقات کا مرحلہ آیا تو جموں میں حملہ ہوگیا۔ یہ ملاقات تنائو اور کشیدگی کی فضا میں ہوئی ۔ دونوں راہنما ملے تو سہی لیکن دوطرفہ تعلقات میں کوئی پیش رفت نہ کرسکے۔بعض قارئین کو یادہوگا کہ جون 2009ء میں روس کے شہر یکاترن برگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میںبھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے صدر آصف علی زرداری کو صحافیوں کے روبرو کہا: پاکستان کو بھارت کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں بند کرنا ہوں گی۔صدر زرداری اس جھڑک کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت وہ حکومتی نظام میں نوازشریف کی طرح غالباً واحد شخصیت تھے جو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے سرگرم تھے۔صدر زرداری کا جوش وخروش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔بعدازاں انہوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات میںپہل قدمی سے گریز کیاحتیٰ کہ بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ملک قراردینے کے باوجود اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیاگیا۔کچھ ایسا ہی حال نوازشریف کا بھی ہوتانظر آتاہے جو خطے میں امن کی فاختہ بن چکے ہیں لیکن بھارتی ان پر اعتماد کے لیے تیار نہیں۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن نے جموں کے واقعے کی مذمت ہی نہیںکی بلکہ اسے دہشت گردی کی کارروائی بھی قراردیا ۔پاکستان کی بے بسی ملاحظہ فرمائیے کہ وہ اب مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہونے والے واقعات پر بھی مذمتی بیانات جاری کرنے پر مجبور ہے۔اس کے باوجود مسائل کے حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔ من موہن سنگھ نے امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں خطے کے تمام مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو قراردے کر اپنی جان چھڑالی۔حالیہ پُرتشدد واقعات کے تناظر میں صدر اوباما ان کے نقطہ نظر کو ردکرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بھارت کے ساتھ کسی بڑی پیش رفت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔اگلے برس ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان موضوع بنتانظرآتاہے۔ نوازشریف کو اس سراب کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں۔ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے تسلسل سے چھوٹے چھوٹے اقدامات کریں۔عوامی رابطوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں۔ کنٹرول لائن کے آرپار کشمیریوں کو ملنے جلنے میں سہولتیں فراہم کریں۔ کشمیر اور بھارت کی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ رابطہ رکھیں۔ایک کھلے معاشرے اور ملک کی طرح بھارتی ذرائع ابلاغ کے ساتھ تبادلۂ خیال کے دروازے بند نہ کریں۔بھارت کے اعتدال پسند طبقات کی پاکستان میں آمدورفت کی حوصلہ افزائی کریں۔پارلیمنیٹرین کے مابین مکالمے کو فروغ دیں۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے اندر سرنگ لگانا ہوگی ۔انہیں قائل کرنا ہوگا کہ پاکستان سے تعلقات میں بہتری دونوں ممالک کے فائدہ میں ہے ۔ یہ کام بڑی حکمت سے کرنے کے ہیں ۔پاکستانی عوام کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت مذاکرات کی بھیک مانگ رہی ہے اور اس نے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔کشمیر کے معاملے کو ہرگز فراموش نہ کریں۔ جس طرح نوازشریف نے اس مسئلہ کو جنرل اسمبلی میں اٹھایا،اسی طرح اس موضوع پر آواز اٹھائی جاتی رہنی چاہیے۔ انصاف ‘حق خود ارادیت اور انسانی حقوق کی بات کرنے میں شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ حکومت کواپنی طے شدہ ترجیحات یعنی دہشت گردی کے خاتمے، اقتصادی بحالی اورتوانائی کے مسئلے کے حل پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ۔ اس کے پہلو بہ پہلو دیگر مسائل سے، خواہ وہ خارجہ پالیسی سے متعلق ہوں یا داخلہ سے صرفِ نظر نہ کیاجائے۔ہمہ جہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔شدت پسندی اور انتہاپسندی کا مسئلہ راتوں رات حل ہونے والا نہیں۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اگلے کئی عشروں تک اس عفریت کے خلاف محاذآرائی جاری رہے گی ۔ جیسا کہ عرض کیا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں ڈرامائی بہتری کی گنجائش کے امکانات محدود ہیں۔افغانستان میں برپا شورش نہ صرف برقراررہتی نظر آتی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوسکتاہے۔ان تمام مسائل کا بتدریج حل تلاش کرنا ہوگا۔مذاکرات اور طاقت کا استعمال بھی ساتھ ساتھ جاری رہنا چاہیے ۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ جہاں جو ہتھیار کارگر ہو اس کا استعمال کیا جائے ۔