"IMC" (space) message & send to 7575

وزیر خزانہ کی جادوگری کہاں گئی؟

وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار کو قومی سطح پر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔وہ اعتدال پسند اور سلیقہ شعار شخصیت ہیں۔ ان کی بنیادی شناخت اقتصادی امورمیں گہری مہارت بتائی جاتی ہے۔یہی ہنر انہیں کوچۂ سیاست میں لانے کا موجب بنا۔ دس برس سے سینٹ کے رکن ہیں۔ اس دوران پرویز مشرف سے لے کر پیپلزپارٹی کی حکومت تک کی کاروباری اور تجارتی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ایوان بالا میں غربت میں اضافے اور عام شہریوں کو درپیش مشکلات کو اجاگر کرتے۔ان کی گفتگو میں ہمیشہ نچلے طبقہ کے لیے درد مندی پائی جاتی ہے ۔ اس لیے لوگ توقع کرتے تھے کہ وہ ان کی مشکلات کم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے لیکن توقع کے برعکس‘ باوجود یکہ موصوف خود وزارت خزانہ کی مسند پر متمکن ہیں اور ہر دن شہریوں پر مہنگائی کا بم گرایاجاتاہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے چار ماہ کی مختصر مدت میں عوام کی معاشی مشکلات میں بے محابا اضافہ کیا۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں نقل وحمل کے کرائے اور اشیائے صرف سمیت ہر شے کے نرخ آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ڈالر کی قیمت نے روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی کی ۔جس کے برے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔اس طالب علم کو اقتصادی ماہر ہونے کا دعویٰ نہیں لیکن بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہونے والے ہوش ربا اضافے نے مجھ سمیت شہریوں کی چیخیں نکال دی ہیںحتیٰ کہ کھانے پینے کی اشیا ء تک خریدنا محال ہوگیا ہے۔دنیا بھر میں حکومتیں کوشش کرکے بنیادی ضرورت کی اشیا ء کی قیمتوں کو کنٹرول کرتی ہیں تاکہ معاشرے کا محروم اور کم آمدن والا طبقہ متاثر نہ ہو۔ آج باوقار زندگی گزارنا خواب بن چکا ہے۔ دوسری جانب سرکار نہ جانے کیوں اربوں روپے بیمارصنعتوں کو قائم رکھنے پر صرف کرتی ہے۔ ’’دیہاتی بڑھیا‘‘ بھی جانتی ہے کہ کاروبار ٹھپ ہوجائے تو کوئی دوسراکام ڈھونڈاجاتاہے ۔کم ازکم خسارے سے دوچار کاروبار جاری نہیں رکھاجاتا۔ ارباب اقتدار کی عقل پر حیر ت ہوتی ہے کہ وہ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے) ،ریلوے اور سٹیل مل جیسے سفید ہاتھیوں کو پال رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں ایک نجی کمپنی کو پاکستان سٹیل مل فروخت کی جارہی تھی ۔ پورے ملک میں ایسی ہا ہاکار مچی کہ معاملہ عدالت عظمیٰ تک جاپہنچا۔قصہ مختصر سٹیل مل بک نہ سکی۔ اس دوران 88ارب روپے کا مزید خسارہ ہوا ۔ امارات ایئر لائن کو بنانے اور سنوارنے والوں میں پی آئی اے کے سابق ملازمین کا ہاتھ بتایا جاتاہے۔آج اس ایئر لائن کا شمار دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوںمیں ہوتاہے۔امارات ایئر لائن میں خدمت سرانجام دینے والے بعض افراد سے گفتگو کا موقع ملتارہتاہے۔وہ متفق ہیں کہ پی آئی اے منافع بخش ادارہ بن سکتاہے۔بشرطیکہ سیاسی مداخلت تمام ہو۔ پیشہ وارانہ مہارت کے حامل افراد کو اس ادارے کی زمام کار سونپی جائے۔ظاہر ہے ‘موجودہ نظام میںیہ ممکن نہیں ۔یہ تسلیم کرنے میں حرج نہیں کہ ہم بحیثیت قوم قابل اور دیانت دار افراد کا گروہ تلاش کرنے اور انہیں کام کرنے کی اجازت دینے کی نیت اورصلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ آج پی آئی اے کا خسارہ 155ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ریلوے کی حالت زار کسی تبصرے کی محتاج نہیں۔ہر چیز کی حد ہوتی ہے مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے۔عالم یہ ہے کہ جاوید اشرف قاضی جیسے شخص نے جو ایک دفاعی ادارے کی قیادت بھی کرچکے ہیں‘ چین سے ناکارہ ریلوے انجن خریدے۔شیخ رشید احمد‘ پرویز مشرف کے دور میں ریلوے میں وزیر مقرر ہوئے۔ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں میں‘ کے مصداق ہر ٹھیکہ اور نوکر ی راولپنڈی والوں کی نذر کردی۔یہ اور بات ہے کہ اس کے باوجود وہ 2008ء کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئے۔حاجی غلام احمد بلور پانچ برس تک ریلوے کے مدارالمہام رہے۔ موصوف نے ڈوبتے ادارے کو سنبھالنے کے بجائے اسے مزید بگاڑدیا۔ریلوے کا خسارہ40ارب سے تجاوز کرچکاہے۔ان اداروں سے جان چھڑانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا۔ دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک کو پاکستان جیسے مسائل کا سامنا رہاہے ۔ستر کی دہائی میں ملائشیا کا شمار دنیا کے کمزور اور پسماندہ ممالک میں ہوتاتھا۔ ایک ایسا مسلمان ملک جس میں غیر مسلموں کی نہ صرف بہت بڑی تعداد آباد تھی بلکہ وہ نسلی طور پر بھی اکثریتی آبادی سے مختلف تھے۔ مافیا مضبوط اور غنڈا گردی عام تھی۔ڈاکٹر مہاتیر محمد ‘جو پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔وہ ملائشیا کے حکمران بننے میں کامیاب ہوگئے ۔ اکیلے ایک شخص کے عزم اور حوصلے نے ملائشیاکو خطے کا اقتصادی ٹائیگر بنادیا۔معاشی ترقی کی رفتار اس قدر تیز ہوئی کہ جاپان جیسے ملک نے ملائشیا میں اپنی صنعتوں کا ایک بڑا حصہ منتقل کردیا۔ مہاتیر کا فارمولا بڑا سادہ تھا۔ انہوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں ہونے دی۔مافیا کو قابو کیا۔رسہ گیروں کی گردنوں میں پٹہ ڈالا۔عام لوگ کو تحفظ ملا۔سرمایہ کاروں کو عزت اور وقار کے ساتھ کاروبارکے مواقع دستیاب ہوئے۔ نہ صرف دنیا بھر سے ملائشیائی باشندے اپنے سرمائے اور ہنر سمیت وطن پلٹنے لگے بلکہ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں نے بھی ملائشیا میں اپنی کاروباری سلطنتیں قائم کرلیں۔ نوازشریف سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔وہ ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ان کی شخصیت میں ٹھہرائو اور تحمل بھی بہت ہے۔وہ جائز طور پرپورے خطے کی بھلائی اور ترقی کے بارے میں فکرمند ہیں۔ دشواری یہ ہے کہ وہ اقتصادی ترقی کا جو وژن پیش کررہے ہیں وہ ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے۔ جس پر عمل درآمد میں پانچ نہیں بلکہ لگ بھگ بیس برس درکار ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ اس دوران غریب عوام کا کیا حشر ہو گا؟انہیں دووقت کی روٹی کیسے دستیاب ہوگی؟ چیلنج یہ ہے کہ ان کا چولہا بجھنے نہ پائے۔ بچے بھوکے نہ سوئیں اور ان کے سر پر چھت سلامت رہے ۔ عوام نون لیگ کے وژن کو سراہتے ہیں لیکن اس کی خاطر پیٹ پر پتھر نہیں باندھ سکتے۔سرکاری اہلکاروں اور سیاستدانوں کے اللے تللے دیکھتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتاہے۔مہنگائی کے باوصف ان کے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہورہاہے۔ڈالر مہنگاہوتاہے تو بھی ان کے بینک بیلنس میں اضافہ ہوجاتاہے۔پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو بالائی طبقے کا ایک حصہ راتوں رات ارب پتی بن جاتا ہے۔اس کے برعکس عام آدمی کی آمدن نہ صرف قلیل ہے بلکہ افراط زر میں ہوش ربا اضافہ سے اس کی قوت خرید دم توڑچکی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ راتوں رات اقتصادی سدھار لے آئے لیکن اسے شہریوں کو راحت پہنچانے کے قابل عمل منصوبے بنانا ہوں گے۔ورنہ ردعمل پیدا ہوگا اور ملک انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ نوجوانوں کے لیے بیس ارب روپے کا جو پیکیج مختص کیا گیا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو عام لوگوں کو ریلیف پہنچانے کا راستہ نکالنا ہوگا۔بجلی اور پٹرول مہنگا کرکے حکومتی اخراجات پورے کرنا ایسے ہی ہے جیسے غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننا۔ اسحاق ڈار کو اپنی جادوگری دکھانا ہوگی‘ نہیں تو مقبولیت کی جس لہر پر نون لیگ سوار ہوکر برسراقتدار آئی ہے وہ دم بھی توڑسکتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں