جنرل اشفاق پرویز کیانی قومی افق سے رخصت ہوا ہی چاہتے ہیں ۔ پاک فوج کی تربیت گاہ کاکول میںخطاب کرتے ہوئے انہوں نے جسد قومی کو لاحق خطرات کی بڑے جامع انداز میں نشاندہی کی۔ انہوں نے متعدد مسائل پر اظہار خیال کیا لیکن ان کی تقریر کا زیادہ توجہ طلب اور متاثر کن حصہ وہ ہے جس میں جمہوری اور عسکری اداروں کے مابین مکالمے ، باہمی اعتماد اور اداراتی تعلقات کار کو پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار کرنے کی اہمیت اُجاگر کی گئی ہے۔جنرل کیانی نے کہا: پاکستان کا مستقبل جمہوری تصورات سے بندھا ہوا ہے۔ضروری ہے کہ مستقبل میں بھی عسکری قیادت ملک میں جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہے، لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا جب سب اداروں کا آپس میں باہمی اعتماد بھی بڑھے۔ اس عمل کا آغاز ہو چکا ہے ،اب اس تسلسل کو برقرار رہنا چاہیے۔ ریاستی اداروں میں عدم توازن کی وجہ سے ملکی ترقی متاثرہوئی جس کاسدباب کیا جانا چاہیے۔ جنرل کیانی نے اپنے خطاب میں پاکستان میں اچھی حکمرانی اور مستحکم جمہوری اداروں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ذکر الفاظ چبھوئے بغیر کرکے اس موضوع پر ازسرِ نو غور وفکر کی دعوت دی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ 1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان نے سلامتی سے متعلقہ اداروں میں یہ سوچ اُبھاری کہ ملکی معاملات کو کلی طور پر سیاستدانوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ چنانچہ دفاعی ادارے سیاست کو رُخ دینے کی کوشش میںلگ گئے۔اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا گیا۔پیپلزپارٹی کی راہ روکی گئی ۔ایم کیوایم کی سرپرستی کی گئی۔ہاتھ سے نکلنے لگی تو اس کی سرکوبی کی جانے لگی ۔ جنرل ضیا ء الحق اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے اور بعد ازاں معیشت کی تعمیر اور قومی وقار کی بحالی کے نعرے پر طویل عرصہ تک اقتدار سے چمٹے رہنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ جمہوری حکومتوں کے ہاتھوں ملک دیوالیہ ہوچکا تھا۔تجوری خالی تھی اور وہ کشکول گدائی لیے قریہ قریہ قرض مانگ رہے تھے۔ملک کو سنبھالنے کے یہ تجربات بری طرح ناکام ہوگئے۔فوجی حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ ہی پاکستان دوبارہ زیرو پوائنٹ پر کھڑا ہوجاتارہا۔ راقم الحروف کو دوبرس قبل ترکی کے قدیم تاریخی شہراستنبول میں ایک ہفتہ گزارنے کاموقع ملا۔درجنوں افراد جن میں وکلاء، کاروباری شخصیات اور لبرل ازم کے علمبردار بھی شامل تھے‘ سے ملاقاتیں ہوئیں۔یہ جان کر حیرت ہوئی کہ لبرل اور مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے افراد بھی وزیراعظم طیب اردوعان کی حکومت کے حامی ہیں۔عرض کیا کہ حضور آپ کا طرز حیات اردوعان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے برعکس ہے،اس کے باجود اردوعان کا پوسٹر آپ کی دکان پر سجاہے؟مجھے یہ طرزعمل دوغلا پن بلکہ منافقانہ لگتاہے۔مسلسل انٹرویوز اور عام لوگوں سے گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ لوگ اردوعان کو محض اس لیے چاہتے ہیں کہ اس نے ترکی کے تن مردہ میںنئی روح پھونکی ۔ایک کثیر المنزلہ عمارت کے مالک سے پوچھا کہ وہ اردوعان کے بارے میں کیا رائے رکھتاہے؟اس نے دلچسپ جواب دیا۔میں اردوعان کی جماعت کو اس کی کارکردگی ،اچھی حکومت کی فراہمی اور ترکی کو دنیا میں بلند مقام دلانے کی وجہ سے ووٹ دیتاہوں نہ کہ اس لیے کہ ان کی بیگم سکارف رکھتی ہے یا وہ پابندی سے نماز اداکرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی جمہوری اداروں کی مضبوطی کا یہی نسخہ ہے کہ اس کے شہری خوشحال اور محفوظ ہوں۔ نون لیگ ،تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی جو سندھ،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں حکمران ہیں ‘ اچھی حکمرانی کی فراہمی کی استعداد کار بڑھائیں۔عام لوگوں کے مسائل حل کریں تاکہ شہری جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہوسکیں۔سیاسی جماعتیں مقبول اور ہردلعزیز ہوں گی تو ان کے دفاعی اداروں کے ساتھ تعلقات کاربھی متوازن اور ہموار ہوجائیں گے۔ نون لیگ نے برسراقتدار آکر پاکستان کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں کو نئی سمت دینے کی کوشش کی ۔مکالمے اور پُرامن ذرائع سے ہمسایہ ممالک سے جاری کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی ‘جس کی تحسین کی جانی چاہیے ۔ بدقسمتی سے حکمران جماعت خواہ وہ نون لیگ ہو یا تحریک انصاف ،دونوںسکیورٹی کے باب میں زبردست کنفیوژن کا شکار ہیں۔انہوں نے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس ہوم ورک نہیں کیا ، حتیٰ کہ مذاکرات کے لیے بنیادی امور تک متعین کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ یہ تک نہیں کہا جاتا کہ جو بھی شدت پسند گروہ آئین پاکستان کو تسلیم کریں ، پاکستان کی جغرافیائی حدود اور سالمیت کا احترام کریں ان کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔یہ کام بھی جنرل کیانی کو کرنا پڑا۔انہوں نے کہا:دہشت گردی کا مسئلہ آئینِ پاکستان کے اندر حل کرنا چاہیے۔ بھارتی فوج کی طرف سے مسلسل الزام لگایا جاتاہے کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی بھارت میں دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔چند دن قبل بھارتی فوج کی شمالی کمان کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل سنجے نے کہا:لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی افواج آمنے سامنے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں دراندازوں کا یہاں داخل ہونا پاکستانی فوج کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ان الزامات کا جواب سیاسی قیادت بالخصوص مشیر خارجہ سرتاج عزیز یا طارق فاطمی کو دینا چاہیے تھا لیکن وزارت خارجہ کے ایک آدھ بیان پر ٹرخا دیا گیا۔چنانچہ جنرل کیانی نے پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات کو افسوسناک، بے بنیاد اور اشتعال انگیز قرار دیا ۔ امسال اگست کے اوائل میں وادی نیلم سے چار افراد کو بھارتی فوج اٹھا کر لے گئی۔بعد میں انہیں’درانداز ‘قراردے کر شہید کردیاگیا۔ لواحقین کے احتجاج اور گریہ وزاری کے باوصف حکومت نے بھارت سے نعشیں واپس کرنے کا مطالبہ تک نہ کیا۔وزیراعظم آزادکشمیرچودھری عبدالمجید نے بھی اپنے شہریوں کے اغوا اور ہلاکت کو معمول کا واقعہ سمجھ کر نظرانداز کردیا۔سوات بھی سرکاری اداروں کی ناکامی کی ایک مثال بنتاجارہاہے۔ جنرل کیانی نے کہا کہ پاک فوج نے سوات میں دہشت گردوں کے خلاف بے مثال کامیابیاں حاصل کیں ،تاہم ان کامیابیوں سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔دفاعی حلقوں میں صوبائی حکومت کی طرف سے مالاکنڈڈویژن کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے سے ہچکچاہٹ پر سخت اضطراب پایاجاتاہے۔ آج بھی فوج ہی کو اہم معاملات کنٹرول کرنا پڑتے ہیں۔ گرفتار شدت پسندوں کے خلاف مقدمات کی دل جمعی سے پیروی نہیں کی جاتی ۔معروف تجزیہ کار اور Frontline Pakistan: The Struggle With Militant Islamنامی شہرت یافتہ کتاب کے مصنف زاہد حسین کا کہنا ہے کہ نوے فیصد دہشت گرد محض اس لیے رہاہوجاتے ہیں کہ پولیس ان کے خلاف موثر مقدمات قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سرکار کو اپناطرزحکمرانی بہتر اور موثر بنانا ہوگا۔ایسے افراد کی ٹیم سامنے لانا ہوگی جو مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، اسٹیٹس کو سے اوپر اٹھ کر فیصلے کرسکتی ہو اور ان پر عمل درآمد کی راہ میں حائل خطرات کا مقابلہ کرنے کا عزم بھی رکھتی ہو۔