"IMC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کے دورہ امریکہ کا ایجنڈا

23اکتوبر کو وائٹ ہائوس میں امریکی صدر بارک اوباما محض دنیا کے ایک ترقی پذیر ملک کے وزیراعظم محمد نوازشریف سے ملاقات نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ ایک ایسی شخصیت سے مل رہے ہیں جو افغانستان سے اس کی فوجوں اور حربی سازوسامان کے انخلا کے راستہ پر بیٹھا ہے۔ خود افغانستان کے اندر برسرپیکار گروہوں پر اس کا اثر ورسوخ ہے‘ جس کی کوششوں سے متحارب طالبان کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع ہوسکا ۔اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن کے قیام میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے لہٰذا وزیراعظم نواز شریف کی فی الحال امریکا کے لیے بہت اہمیت ہے۔ امریکیوں کو سخت دکھ ہے کہ پاکستان کی ’دوغلی‘پالیسیوں نے انہیں افغانستان میں فیصلہ کن فتح سے محروم رکھا۔اب صدر اوباما چاہتے ہیںکہ وزیراعظم نواز شریف امریکی واتحادی افواج کے افغانستان سے باحفاظت نکلنے میں معاونت فراہم کریں۔طالبان کے ساتھ بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے میں اخلاص کا مظاہرہ کریں۔پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجود جنگجوئوں کو کنٹرول کریں۔انہیں افغانستان کا امن تہہ وبالا نہ کرنے دیں۔ چند ماہ بعد افغانستان میں انتخابات ہونے ہیں۔پرامن انتخابات کا انعقاد وہ پیمانہ ہوگا جو مستقبل میں افغان سیاست کے خدوخال کا تعین کرے گا۔انتخابات کے پرامن انعقاد میں نہ صرف مدد کریں بلکہ طالبان کو بھی حصہ لینے پر آمادہ کریں۔ یہ توامریکاکی ترجیحات ہیں۔سوال یہ ہے نواز شریف کیا حاصل کرنے امریکہ جارہے ہیں؟نوازشریف کے دورۂ امریکہ میں کسی بریک تھرو کی توقع نہیں۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کی سٹریٹیجک کمیونٹی میں یہ سوال زیربحث ہے کہ 2015ء کے بعد پاک امریکہ تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی؟افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے بعد پاک امریکہ تعلقات کی جہت ہی بدل جائے گی۔ امریکہ کی خطے میں دلچسپی کی سطح بڑی حد تک کم ہوجائے گی۔چند برس پہلے کے برعکس اب اسے القاعدہ سے براہ راست کوئی خطرہ درپیش نہیں۔علاوہ ازیں ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلائو ،بھارت کے ساتھ پاکستان کے کشیدہ تعلقات اور ایران سے گیس پائپ لائن جیسے معاملات پر پاک امریکہ اختلافات ہیں اور ایسا لگتاہے کہ اگلے چند برسوں میں ان میں مزید شدت آسکتی ہے۔ امریکہ سمیت مغربی دنیا میں پاکستان میں دہشت گردگروہوں کی موجودگی اور ان کے لیے پائی جانے والی سرکاری اور غیر سرکاری حمایت پر گہرے خدشات پائے جاتے ہیں‘ جو اگلے چند برسوں میں ختم ہوتے نظرنہیں آتے۔یہ مغرب کے ہاتھ میں ایک ایسی لاٹھی ہے جس سے وہ ہمیں ہانکتاہے اور دبائو ڈالتاہے۔مثال کے طور پر چند دن قبل واشنگٹن میں امریکی اوربھارتی حکام نے حقانی نیٹ ورک اور لشکرطیبہ جیسی عسکریت پسند تنظیموں کے فنڈز روکنے اوران کے مالیاتی نیٹ ورکس اور فنڈز اکٹھا کرنے والے سرگرم کارکنوں کو پکڑنے کیلئے تعاون بڑھا نے پر اتفاق کیا۔ ملک دہشت گردی اور فرقہ واریت کی تباہ کاری کا شکار ہے۔ریاست کی بالادستی کو چیلنج کرنے والے گروہوں کو ملنے والی امداد کے تانے بانے غیر ملکی طاقتوں سے جاملتے ہیں۔امریکہ کے خطے سے نکلنے کے بعد ان گروہوں کو کنٹرول کرنے یا ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔کرائے کے ان جنگجوئوں کو ہر ملک اپنے سٹریٹیجک مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا‘جس کے نتیجے میں خطے میں موجود تنائو میں اضافہ ہوسکتاہے۔ا س لیے پاکستان کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ افغان سرزمین اس کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہو۔ غیر مستحکم افغانستان پاکستان کے مسائل میں کئی گنا اضافہ کرسکتاہے۔مہاجرین کی آمد کی ایک نئی لہر آسکتی ہے جن کو سنبھالنا پاکستان کے بس کی بات نہ ہوگی ۔اب کو ئی بھی ملک یا ادارہ افغان مہاجرین کے نام پر امداد دینے کو تیار نہیں۔ امریکہ میں پاکستان کے نامزد سفیر جلیل عباس جیلانی نے چار اکتوبر کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میںبتایا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں نہ صرف افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہی ہیں بلکہ بیرون ملک موجود ناراض بلوچ راہنمائوں کے ذریعے بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔انہوں نے کئی ایسی ناقابل یقین باتیں کمیٹی کو بتائیں کہ شرکا دنگ رہ گئے ہوں۔ وزیراعظم نواز شریف نے نیویارک میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات میں نہ صرف اس موضوع پر بات کی بلکہ وہاں بھارتی حکام کو ثبوت بھی فراہم کیے گئے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ افغا ن خفیہ ایجنسی نیشنل ڈیفنس سکیورٹی (این ڈی ایس)ان سرگرمیوں کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستانی حکام نے کئی ایک افراد کو حراست میں لیا ہے جو افغانستان میں زیرتربیت رہے۔ پاکستان کے اندر امن کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کا انحصار اس کی خارجہ پالیسی اور خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات پر ہے۔وزیراعظم کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہوگا کہ وہ واشنگٹن میں حکومت کی خارجہ پالیسی میں کی جانے والی جوہری تبدیلیوں سے دنیا کو آگاہ کریں۔پاکستان کو امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں نہ صرف جوش وخروش سے مدد دینے کے عزم کا اظہار کرنا چاہیے بلکہ جو بھی کوئی دوسرا ملک اس عمل میں معاونت کرسکتاہے اس کا خیر مقدم کیاجانا چاہیے۔تن تنہا یہ ذمہ داری قبول کرنا کہ اسلام آباد طالبان اور امریکا کے مابین صلح کرائے گا پاکستان پہ ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔یہ حکمت عملی دنیا کے ان خدشات کی تصدیق کرے گی کہ پاکستان کے طالبان کے ساتھ نہ صرف روابط ہیں بلکہ وہ اس کے زیر اثرہیں۔علاوہ ازیں اسلام آباد کو اپنے اور افغان عوام کے مفادات کی خاطر افغانستان کو مستحکم اور پرامن بنانے کے لیے وقت ،توانائی اور وسائل کی بھاری سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔اس عزم اور ارادے کا دنیا کے سامنے برملا اظہار بھی کیاجاناچاہیے۔ وزیراعظم کو ان مسائل پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں جن پر پیش رفت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔مثال کے طور پاکستان امریکہ سے نیوکلیئر ٹیکنالوجی مانگتاہے تاکہ وہ توانائی کی ضروریات پوری کرسکے‘جو امریکا دینے پہ رضامند نہیں۔اس کے بجائے وزیراعظم زور دیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن بچھانے کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں۔ ڈرون حملوں کے خاتمہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن پاکستان کو ان اسباب کے خاتمہ کے لیے جدوجہد تیز کرنا ہوگی جو ڈرون حملوں کا باعث بنتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے با نسری۔ڈرون حملوں سے پیدا ہونے والے مسائل کی جانب امریکی رائے عامہ کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔میڈیا اور سول سوسائٹی کو متحرک کیاجانا چاہیے۔ان کے ذریعے اوباما انتظامیہ پر دبائو ڈالا جائے۔ امریکہ سے تعلقات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن یہ پیش نظر رہے کہ خود امریکہ کے معاشی حالات دگرگوں ہیں۔اس لیے پاکستان کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ مستقبل میں علاقائی اقتصادی بلاک ، علاقائی سطح پر تجارت اور پڑوسی ممالک کے ساتھ موثر رابطے ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھولتے ہیں نہ کہ سات سمند ر پار کی طاقتوں سے دوستی۔ اس لیے خطے کے ممالک کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات کے قیام کی کوششوں کو تیز تر کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں