"IMC" (space) message & send to 7575

وار

عید کی شام راولپنڈی کے ایک سینما گھر میں فلم ’’وار‘‘دیکھنے گیا۔سوشل میڈیا پر اس کے حامیوں اور نقادوں کے مابین تندوتیز جملوں کے تبادلے نے جلد فلم دیکھنے کی خواہش کو مہمیز دی۔ سینما میںبھیڑ بہت تھی‘ مشکل سے نشست ملی ۔وار دلچسپ اور منفرد ہے۔ معمول کی رومانوی فلموں سے بہت مختلف ۔غالباًپہلی بار ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجوں کو فلمی انداز میں اجاگر کیاگیا۔فلم کامرکزی خیال یہ ہے کہ پاکستان کو برباد کرنے والے ہاتھ غیر نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں‘ جن کی برین واشنگ کر دی گئی یا بھٹک گئے۔ دھن دولت کی طمع نے ان کی آنکھیں چندھیادی ہیں ۔ فلم میں کئی دلچسپ مراحل آتے ہیںجہاں جہاندیدہ بزرگ نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ریاست کے ساتھ محاذ آرائی تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیںلاتی لہٰذا جنگ وجدل ترک کردو۔ صلح اور مفاہمت کا پرچم لہرائو ۔ طاقت کے گھمنڈ اور شہرت کے نشے میں مست نوجوان عقل وخرد کی باتیں کرنے والوں کونہ صرف غیر موثر کردیتے ہیں بلکہ بسااوقات ا نہیں صفحہ ہستی سے بھی مٹادیا جاتاہے۔غیر ملکی طاقتیں جو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہیں‘ ان کے حربوں کو فلم میں بڑی خوبصورتی سے طشت ازبام کیا گیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ان مقاصد کے لیے مساجد اور مدارس کا استعمال ہوتاہے حتیٰ کہ عورتوںکے لیے معاشرے میں پائی جانے والی تکریم اور ہمدردی کو بھی شدت پسند اپنے مذموم مقاصد کے لیے بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔ماضی میںسلطنت عثمانیہ کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے عورتوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔اس زمانے میں سلطنت میںسخت پردہ رائج تھا؛ چنانچہ کمال اتا ترک نے پردہ کرنے پر پابندی عائد کردی۔ ایک دانشور نے بجاطور پر اعتراض کیا کہ فلم میں جنگ کے تمام پہلوئوں کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ ریاستی اداروں کی نااہلیوں کا ذکر نہیں۔ان پالیسیوں پر نکتہ چینی نہیں کی گئی جن کے نتیجے میں ان مسائل نے جنم لیااور ایک پوری نسل انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔عرض کیا کہ یہ فلم ہے پی ایچ ڈی کا مقالہ نہیں۔نہ ہی ہسٹری چینل کی ڈاکومنٹری ہے جو جزئیات تک کھول کر پیش کردیتی ہے۔ پاکستان میں ایسی فلم کا بننا خواب دیکھنے کے مترداف ہے۔ جنگوں پر فلمیں اور ڈرامے بنانا اور اپنے شہریوں کو ان کی پیچیدگیوں سے آگاہ کرنا قدیم فن ہے ۔یورپ میں لڑی جانے والی پہلی اور دوسری جنگ عظیم پر درجنوں نہیں سینکڑوں فلمیں بن چکی ہیں۔نائن الیون کے المناک حادثات پر بھی کئی فلمیں بنیں۔بعض فلموں میں اس حادثے کی صداقت ہی کو جھٹلایادیاگیا۔نائن الیون کو اسٹیج شدہ ڈرامہ قراردیا گیا۔ بھارت کے بالی وڈ میںہر موضوع پر فلمیں بنتی ہیں۔پاک بھارت جنگوں اور کشیدگی کے تناظر میں کئی فلمیں بنائی گئیں۔ بھارتی فوج نے بھی تکنیکی معاونت فراہم کی۔بھارت میںملک کے اندر دہشت گردی کے واقعات پر بھی فلمیں بنی ہیں۔ بعض پاکستان مخالف پروپیگنڈا فلمیں ہیں۔لکیر نامی فلم دیکھے زمانہ گزرگیا لیکن اس کا یہ مکالمہ بھولتا نہیںکہ سرحدیں محض زمین پر ایک لکیر ہوتی ہیں۔یہ وہ نقطہ نظر ہے جو مخصوص سیاسی سوچ کی عکاسی کرتاہے۔بھارت کے اندر قومی یکجہتی اور اپنے ملک کی کامیابیوں پر جشن منانے کی روایت فلموں نے ڈالی۔حب الوطنی کا جذبہ گہرا کرنے میں بھی فلم انڈسٹری کا نمایاں کردار رہاہے۔ بھارت کے برعکس پاکستان میں ٹی وی ڈرامہ مقبول ہوا۔اسی کی دہائی میں دنیا بھر میں پاکستانی ڈراموں کی دھوم مچی ۔ بعدازاں وہ معیار برقرارنہ رکھا جا سکا۔ اب کئی برسوں بعد ڈراموں کا بھی احیا ہورہاہے۔ نئے بننے والے ڈراموں میں عمدہ پیرائے میںعصری مسائل اور الجھنوں کا اظہار کیاجاتاہے۔اکثر وہ مغربی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں لیکن معاشرے کے بدلتے ہوئے رجحانات بالخصوص طبقہ اشرافیہ میں پائے جانے والے تضادات کو خوب آشکارکرتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی فلم ساز اور صحافی شرمین عبید چنائے کی فلم فیس سیونگ کو آسکر اعزاز ملا۔اس فلم میں جنوبی پنجاب کی دوخواتین کی دردناک کہانی فلمائی گئی جن کے چہروں پر تیزاب پھینک کر جھلسادیا گیاتھا۔ گزشتہ برس بدامنی کے شکار دنیا کے کئی بڑے شہروں کی کتھا لکھنے والے کہانی کار انڈریو مارشل کے ہمراہ کراچی میں ایک ہفتہ گزارا۔وہ پہلے ہی بیروت کی تباہی اور وہاں سرگرم مافیا کی کہانی لکھ کر کافی شہرت پاچکاہے۔انڈریو بینکاک سے کراچی آیا ۔شب گئے شہر کے وسط میں واقع تھیٹر میں ایک اسٹیج ڈرامہ دیکھنے گئے۔رات گہری ہونے کے باوجود کچھ شناشا چہرے نظر آئے اور معززین کی بہت بڑی تعداد بھی۔ ڈرامہ لیاری گینگ وار کے گردگھومتاتھا۔ لیاری کا عام نوجوان اس گینگ کا کیوں اور کیسے حصہ بنا؟مافیا کو کیسے سیاسی جماعتوں اور انتظامیہ کی پشت پناہی ملتی ہے۔بدعنوانی اور پیسے کی ہوس گینگ وار کو طاقت بخشتی ہے۔ایک متاثر کن اسٹیج ڈرامہ جو شہر کے مسائل اور سرکارکی نااہلیوں اورغفلت کا نوحہ تھا۔ خوشی اس بات کی تھی کہ پاکستانیوں نے اپنی کہانی کہنا شروع کردی۔اپنے دکھوں اور مسائل کی نشاندہی کرنا شروع کردی جو گمبھیر سے گمبھیر مسائل کے حل کی پہلی کڑی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے فلموں اور ڈراموں کو بڑی کامیابی سے قوم کی تعمیر اور ترقی کے لیے استعمال کیا۔ترکی نے ایسے بہت سے تجربات کیے جنہوں نے ترکی کو ایک مضبوط ملک اور قوم بننے میں مدد دی ۔حالیہ دس برسوں میں ایسے کئی ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں جن میں ترکی کی سا لمیت کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے فوجی جوانوں کو دکھا گیا۔ کردعلیحدگی پسندوں کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات کے پس منظر میں بھی فلمیں بنائی گئیں تاکہ شہریوں کو ملکی سالمیت کو درپیش مسائل کی سنگینی سے آگہی ہو۔ پاکستان نے گزشتہ دس برسوں میں ایسے ڈرامے اور فلمیں بنانے کی طرف توجہ دی ہوتی تو نئی نسل کی ایک بہت بڑی تعداد ملک کے خلاف استعمال نہ ہوتی۔اب بھی وقت ہے کہ میڈیا کو بھرپور استعمال کیا جائے۔وار کی طرح کی اور بھی فلمیں بننی چاہئیں جو کسی ملک یا قوم کے خلاف نہ ہوں بلکہ کہانی کا محور وہ مخصوص ذہنیت اور سیاسی فلسفہ ہوجو پاکستان کے وجود کو چیلنج کرتا ہے اور شہریوں کو تشدد پر اکساتاہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں