"IMC" (space) message & send to 7575

نہ کچھ کھویا نہ پایا

واشنگٹن میںوزیراعظم میاں محمد نوا زشریف اور امریکی صدر بارک اوباما کی ملاقات تمام ہوئی۔حسب توقع کوئی بریک تھرو نہ ہوا ۔ڈرون حملوں کے خاتمے پر بہت اصرار کیا گیا۔کشمیر پر بھی حمایت طلب کی گئی ‘ ٹکا سا جواب ملا کہ یہ دوطرفہ معاملہ ہے‘پاکستان اور بھارت مل کر حل کریں۔عافیہ صدیقی کی رہائی پر بظاہر کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔نیوکلیئر سول انرجی کی فراہمی کا مطالبہ بھی سرفہرست رہالیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ نوازشریف نے واشنگٹن میں جو بھی ایشوز اٹھائے، انہیں انگریزی میں non-starterکہا جاتا ہے یعنی جن پر پیش رفت کا امکان نہ تھا ۔اس قدر وسیع پیمانے پر تشہیر اور لابی کے بعد کیے جانے والے دورہ کو ’’کیا کھویا کیا پایا‘‘ کے پیمانے پر پرکھا جائے تو پایا کا خانہ خالی نظرآتا ہے۔ رائے عامہ کو خوش کرنے کے لیے ایسے معاملات زیر بحث لائے گئے جن کو امریکا میں کوئی سننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اس کے برعکس توانائی اور معیشت کے میدانوں میں امریکا کی ٹھوس مدد طلب کی جاسکتی تھی۔ ہمارے کسانوں کوزراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی درکار ہے۔پاکستانی طلبہ کے لیے امریکی درسگاہوں تک آسان رسائی اور انہیں وظائف کی فراہمی ایک بڑا اہم معاملہ ہے۔توانائی کے میدان میں امریکی ادارے پاکستان کی محدود پیمانے پر معاونت کررہے ہیں جسے مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔نئے ڈیم بنانے کے لیے مالی وسائل کے حصول کے لیے امریکی اداروں سے بات چیت کی جانی چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا ہے کہ اختلافی موضوعات کو نظرانداز کردیا جاتا بلکہ انہیں دورہ کا محور بنانے سے گریز کیا جانا چاہیے تھا۔جس دن نوازشریف اوباما سے ملاقات کررہے تھے اسی دن واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق بہت سارے ڈرون حملے حکومت پاکستان کی مشاورت سے ہوتے رہے۔ امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں فری لنچ کا تصور نہیں پایا جاتا۔آپ کے پاس’’بیچنے‘‘ کو کچھ نہیں تو واشنگٹن میںآپ کے دام لگانے والا کوئی نہیں۔آج کے پاکستان کے پاس امریکا کی حمایت حاصل کرنے کا ایک ہی نسخہ ہے کہ افغانستان سے انخلاء کرنے والے فوجیوں او ر ان کے سازوسامان کو محفوظ راہ داری فراہم کرے۔باقی سب قصہ کہانیاں ہیں۔ وزیراعظم نے گزشتہ چار ماہ میں بہت بریفنگز لی ہیں۔فوجی حکام سے تبادلہ خیال کیا اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ بھی۔انہیں بخوبی احساس ہے کہ پاکستان کے مسائل کے حل کی کنجی صدراوباما کے پاس نہیں۔ مسائل گمبھیر اور کٹھن ضرور ہیں لیکن ان کے حل کا راستہ اسلام آباد/راولپنڈی سے گزرتاہے نہ کہ واشنگٹن سے۔غالباًیہی وہ احساس ہے کہ جس کے باعث وہ ہر اعلیٰ سطحی اجلاس میں استفسار کرتے ہیں کہ اگر ہم کسی خرابی کے ذمہ دار نہیں تو پھر دنیا کیوں ہمیں موردالزام ٹھہراتی ہے؟یہ وہ سوال ہے جو اسامہ بن لان کی ہلاکت کے بعد بھی نوازشریف نے اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادت سے پوچھا تھا ۔ صدر اوباما سے ملاقات کے بعد نواز شریف نے یہ کہہ کر حیران کردیا :اپنا گھر ہم نے خود خراب کیا اب اسے خود ہی ٹھیک کرنا ہوگا۔ نواز شریف کا یہ اعتراف باعث اطمینا ن ہے کہ کم ازکم وزیراعظم کو مرض کے اسباب کا ادراک ہے‘ تشخیص آج نہیں تو کل ہوجائے گی۔ نون لیگ کی حکومت امن کی بحالی، توانائی کی بلاتعطل فراہمی ، روزگار اور معیشت کے سدھار کے لیے سرگرم نظر آتی ہے۔اگرچہ ابھی تک اس کے مثبت اثرات شہریوں کی زندگی پہ مرتب ہو نا باقی ہیں لیکن کم ازکم وزیراعظم ان معاملات پر انتظامی مشینری کو متحرک کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہیں۔ان کی سنجیدگی کی بدولت کراچی میں کسی حد تک امن قائم ہوا۔ پاک امریکا تعلقات کو اسٹرٹیجک امور سے ذرا ہٹ کر استوار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ حالیہ چند برسوں میں‘ چند نامور پاکستانیوں نے امریکا کی علمی دنیا سے اپنا لوہا منوایا ہے۔انہیں واشنگٹن میں سنجیدگی سے سنا جاتاہے۔امریکی انتظامیہ ان کے مشوروں پر کان دھرتی ہے۔ایسے افراد اور ادارے پاکستان کا اثاثہ ہیں جو 2014ء کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے۔ اس وقت امریکا کا پاکستان پر انحصار محدود ہوچکا ہوگا۔کچھ مبصرین ان خدشات کا بھی اظہار کرتے ہیں فوجی انخلاء کے بعد امریکا میں پاکستان مخالف لابی نیوکلیئر ایشو ‘افغانستان میں شدت پسندوں سے رابطوں یا کشمیری عسکریت پسندوں کی مدد کے الزام میں پاکستان کے خلاف سخت اقدمات کراسکتی ہے۔صدر اوباما نے جماعت الدعوۃ کے حوالے سے بھی وزیراعظم نوازشریف سے بات چیت کی۔ انہوں نے ممبئی حملے کے مجرموں کو سزا نہ ملنے کا معاملہ بھی اٹھایا۔چند روز پہلے بھارتی وزیر داخلہ نے الزام لگا یا کہ حافظ محمد سعید کی وجہ سے کشمیر میں دراندازی بڑھ گئی ہے۔ان کے اس بیان نے مجھے ممتاز محقق اور برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اکبر ایس احمد کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب The Thistle and The Drone: How America\'s War On Terror Became a Global War on Tribal Islam کی یاد دلائی ۔وہ لکھتے ہیں کہ 2002ء میں امریکی اور بھارتی حکام کے درمیان لگ بھگ طے پا چکا تھا کہ وہ کنٹرول لائن کے گردو نواح میں موجود شدت پسندوں اور ان کی دراندازی کو روکنے کے لیے ڈرون حملے کریں گے۔بھارت نے امریکیوں کو قائل کرلیا تھا کہ ان علاقوں میں القاعدہ کے لوگ روپوش ہیں۔بعد ازاں امریکی وزیردفاع رمز فیلڈ اور پرویز مشرف کے مابین ہونے والی ملاقات میں ان حملوں کا رخ قبائلی علاقوں کی طرف موڑ دیا گیا۔ یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ القاعدہ کے کچھ عناصر کا خیال ہے کہ اگر کنٹرول لائن پر ’’محاذ‘‘ گرم کردیا جائے تو پاکستان وزیرستان میں جنگجوئوں کے خلاف کارروائی کے قابل نہیں رہے گا۔ان دنوں کنٹرول لائن پر جاری کشیدگی کو محض پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ یہ نان سٹیٹ ایکٹرز کا پھیلایا ہوا جال بھی ہوسکتاہے۔لیکن جوشیلے سیاستدانوں کو یہ نکتہ کون سمجھا سکتاہے۔بھارتی وزیر داخلہ سوشیل کمار شنڈے نے دودن قبل جموں میں اگلے مورچوں کے دورے کے بعد کہا: سیز فائر کی بار بار خلاف ورزی ناقابل برداشت ہے اور ہم پاکستان کو دندان شکن جواب دیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں