"IMC" (space) message & send to 7575

من موہن سنگھ مایوس کیوں؟

چینی کمیونسٹ پارٹی کے مستقبل کے رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا: بھارت پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے لیکن کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے بغیر پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ اس معاملے پر نواز شریف نے مایوس کیا۔ ان کا رویہ مایوس کن رہا اور وہ جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ من موہن سنگھ جب وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کے عزائم جوان تھے اور وہ خطے کی تقدیر بدلنے کے عزم کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اب ان کا سیاسی کیریئر تمام ہونے والا ہے ۔ خواہش کے باوجود کشمیر تو دور کی بات وہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب بھی کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کر سکے۔ حالانکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ امرتسر میں ناشتہ کر کے نکلیں‘ لاہور میں دوپہر کا کھانا تناول فرمائیں اور کابل میں سرشام مرغ مسلم۔ افسوس! وہ اس حال میں کوچہ اقتدار سے رخصت ہو رہے ہیں کہ چار ماہ سے کنٹرول لائن پر مسلسل گولہ باری جاری ہے جس میں بے گناہ شہری مارے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے نیویارک میں طے کیا کہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز مل کر کنٹرول لائن پر کشیدگی کم کرنے کے اقدامات کریں گے لیکن کئی ہفتے گزرنے کے باوجود اس ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ دفاعی اداروں کے سامنے دونوں حکومتوں کی بے بسی کی اس سے بری مثال حالیہ تاریخ میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ من موہن سنگھ ہی مایوس نہیں بلکہ امریکی صدر باراک اوباما بھی کافی دُکھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ پاکستان ممبئی حملہ آوروں کو سزادینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے ۔ موصوف نے جماعت الدعوۃ پر پابندی کا حکم بھی صادر فرمایا۔ وہ زمانہ لد گیا جب امریکی کشمیر پر پاکستانی نقطہ نظر ہمدردی سے سنتے اور مسئلہ کے حل میں کشمیری عوام کی خواہشات کے احترام کا تسلسل سے ذکر کرتے تھے۔ اب امریکی سفیر سری نگر جاتے ہیں تو وہ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی میزبانی کا لطف اٹھاتے ہیں۔ حریت کانفرنس کے راہنما اس بے رخی پر کڑھتے ہیں لیکن احتجاج بھی نہیں کر پاتے‘ حالانکہ حریت کانفرنس کے قیام میں امریکی حکام کا عمل دخل بھی تھا۔ 2001ء میں ممتاز کشمیری راہنما عبدالغنی لون کی دعوت پر سینئر صحافی سلطان سکندر کے ہمراہ سری نگر میں دس دن گزارنے کا موقع ملا۔ نڈر اورمرنجاں مرنج شخصیت کے مالک عبدالغنی لون نے بتایا کہ امریکی حکام نے آزادی پسند جماعتوں کا سیاسی اتحاد تشکیل دینے کی حوصلہ افزائی کی تاکہ ہم عالمی برادری کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر سکیں۔ رابن رافیل امریکہ کی جنوبی ایشیائی امور کی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ تھیں کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان سے ملنے کشمیر ہائوس تشریف لائیں۔سردار عبدالقیوم نے شکوہ کیا کہ امریکہ ہماری مدد نہیں کرتا۔ رابن رافیل جو کشمیر پر تند وتیز بیانات جاری کر چکی تھیں‘اس غیر متوقع شکوہ پر بھڑک اٹھیں :یہ جو تم کشمیر میں بندوقیں بھیجتے ہو اور حریت پسندوں کی مدد کرتے ہو‘ اس پر ہماری خاموشی مدد نہیں تو کیا ہے؟ اب ایسی بے باک گفتگو کا تصور بھی محال ہے۔ پاکستان نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے تو اسٹبلشمنٹ کے حوصلے آسمانوں کو چھونے لگے۔ کچھ جوشیلے عناصر کا خیال تھا کہ وہ نیوکلیئر بلیک میل کے ذریعے امریکہ کو کشمیر پر ثالثی کے لیے آمادہ کر لیں گے۔ خود امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی کشمیر کو دنیا کا نیوکلیئر فلیش پوائنٹ قرار دے کر اس نقطہ نظر کے حامیوں کے موقف کو تقویت دی۔ کارگل کی مہم جوئی ایسے ہی شہ دماغوں کے ذہن رسا کا شاخسانہ ہے۔ وزیراعظم نواز شریف واشنگٹن گئے تاکہ امریکہ کی مدد سے کارگل میں لگی آگ بجھا سکیں۔ نواز شریف نے اس وقت کے صدر بل کلنٹن سے اصرار کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی ٹائم ٹیبل دیں۔ کلنٹن نے جواب میں کہا: آپ چاہتے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی کی کنپٹی پر پستول رکھ کر اپنی شرائط منوائی جائیں۔ دنیا اس کی اجازت نہیں دے گی ۔ دنیا کے اپنے اصول ہیں۔ وہ ہمارے نام نہاد ’’حربی ماہرین‘‘ کے فلسفے کو قبول نہیں کرتی۔ ہمار ا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمعصر دنیا کے قوانین کو تسلیم کرتے ہیں نہ ہی ان سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود انصاف بھی عالمی طاقتوں سے مانگتے ہیں اور ثالثی کی مدد بھی انہی سے طلب کرتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اچھا کیا کہ دورئہ امریکہ کوکشمیر کے مسئلے کو از سرنو زندہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ماضی کی غلط حکمت عملی اور پالیسیوں کے طفیل اب دنیا ہمارا نقطہ نظر قبول کرنے پر رضا مند نہیں۔ ہمیں کشمیر پر اپنا مقدمہ نئے پیرائے میں پیش کرنا ہوگا۔ کشمیر یوں کو اپنی کتھا خود سنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ کشمیر میں اپنی کہانی سنانے والے کم نہیں۔ حالیہ برسوں میں کشمیری نوجوانوں نے بے پناہ علمی اور ادبی کام کیا۔ اعلیٰ پائے کی کتابیں لکھی۔ آزادی کے گیت گائے۔ شاعری کی اور فلمیں بنائیں۔میں نے دارالحکومت دہلی میں بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں کی موجودگی میں عام کشمیری نوجوانوں کو حیر ت انگیز جرأت کے ساتھ مباحثوں میں حصہ لیتے دیکھا۔ بسا اوقات بعض کشمیری سیاسی اور سماجی راہنما مہبوت کردینے والی گفتگو کرتے ہیں۔ چند برس ہوئے‘ ایک اہم شخصیت نے کچھ صحافیوں کو افطاری پر مدعو کیا۔ جلد ہی گفتگو کا رخ کشمیر کی طرف مڑگیا۔ دانستہ خاموش رہا کہ کوئی برا نہ مان جائے۔آخر میں میزبان شخصیت نے کہا آپ بھی کچھ کہیں۔ عرض کیا کہ گستاخی کی معافی لیکن اتنا عرض کرنا چاہتاہوں کہ کشمیر کے معاملے میں آپ اور آپ کی جماعت جس قدر پس منظر میں رہ سکیں‘ کشمیر کے لیے اتنا ہی اچھا ہے۔ ایک سینئر صحافی نے میرے نقطہ نظر کی تائید کی اورپاکستان کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا۔ آج یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ امریکہ سمیت دنیا کشمیر پر ہمارا مقدمہ سننے کی روادار نہیں کیونکہ اس مقدمہ کی پیروی وہ لوگ کرتے ہیں جو امریکہ اور مغرب کے کھلے حریف ہیں۔ جب کہ حکمران واشنگٹن جاکر امریکہ سے ثالثی کی درخواست کرتے ہیں ۔ اوباما ممبئی حملوں کے ملزمان کو سزا دینے کے حوالے سے محض اس لیے متفکر نہیں کہ اس میں بھارتی شہری مارے گئے بلکہ چھ امریکی شہریوں کی جانیں بھی گئی تھیں۔ بعدازاں امریکی شہری ڈیوڈ ہنڈلے پکڑا گیا جس نے ہوش ربا انکشافات کیے۔ ممبئی حملوں پر ایف بی آئی نے جو ڈوزیئر جاری کیا تھا مجھے وہ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس میں حملوں کی تفصیلات جزیات کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ایک طرف ممبئی حملوں کے ملزموں کو سز ادینے کے حوالے سے عالمی دبائو ہے تو دوسری طرف پاکستان میں طویل عرصے سے کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں