"IMC" (space) message & send to 7575

ناطقہ سربہ گریبان ہے اسے کیا کہیے

ڈرون حملوں کی حقیقت جاننا‘ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوچکاہے۔18جون 2004ء کو جنوبی وزیرستان میںحکومت مخالف جنگجو نیک محمد پہلے ڈرون حملے میں مارا گیا ۔حکمران جنرل (ر)پرویز مشرف نے بیان جاری کیا کہ ان کے حکم پر یہ حملہ کیا گیا ۔بعد ازاں آزاد ذرائع نے انکشاف کیا کہ یہ حملہ امریکی ڈرون سے کیا گیاتھا ۔ڈرون حملوں کی حقیقت کے حوالے سے پہلا جھوٹ جنرل (ر) پرویز مشرف نے بولا اور قوم آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ ڈرون حملوں کو پاکستان میں کبھی بھی قبول نہیں کیا گیا۔ ان حملوں کے مخالفین کا مقدمہ یہ تھا کہ ان میں بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں اور اس طرح شدت پسندی کو ہوا ملتی ہے۔ چنانچہ ملک کے اندر او رباہر ڈرون حملے بند کرانے کی مہم چلائی گئی۔وزیراعظم نواز شریف نے دورہ امریکہ کے دوران ڈرون حملے بند کرانے کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اس موضوع کو زیر بحث لایا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے انسانی حقوق کے عالمی ادارے نے امریکی حکومت کی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ایمنسٹی نے ڈرون حملوں کو غیر قانونی ہی قرار نہیں دیا بلکہ کہا کہ بعض حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ امریکی کانگریس میں جنوبی وزیرستان کی ایک بچی نے ڈرون حملے کے نتیجے میں اپنے خاندان پربیتنے والی قیامت کا ذکر کیا۔عالمی میڈیا نے اس بچی کی کہانی پوری دنیا کو سنائی۔ پتھر دل بھی پگھل گئے۔ سننے والے روپڑے۔عمران خان کے بچوں کی والدہ جمائمہ خان نے بھی ڈرون حملوں کے حوالے سے دستاویزی فلم بنائی ۔ جمائما کا تعلق برطانیہ کے ایک ایسے خاندان سے ہے‘ جو برطانیہ ہی نہیں بلکہ یورپ میں بھی وسیع سیاسی اور سماجی اثرورسوخ رکھتاہے ۔ اس لیے ان کی بنائی ہوئی فلم کو فطری طور پر خوب پذیرائی بھی ملی۔ ڈرون حملے بند کرانے کی ان کوششوں کو اس وقت زبردست دھچکا لگا جب گزشتہ روز سینیٹ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سرکاری سطح پر پیش کیے گئے اعدادوشما رنے ایک مختلف کہانی سنائی۔ وزارت دفاع کے مطابق ڈرون حملوں میں اب تک صرف 67 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جو کہ کل ہلاکتوں کا محض تین فیصد ہیں۔سب سے بڑا اور حیران کن انکشاف یہ ہوا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران امریکی ڈرون حملوں میں ایک بھی عام شہری ہلاک نہیں ہوا۔ گزشتہ چھ برس کے دوران 317 ڈرون حملے کیے گئے۔جن میں 2160 شدت پسند مارے گئے۔وزارت دفاع کی رپورٹ پڑھنے کے بعد بے اختیار یہ مصرعہ یاد آیا :ع ناطقہ سربہ گریبان ہے اسے کیا کہیے۔ ظاہر ہے‘ وزارت دفاع کے اعدادوشما ر کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔خود وزیراعظم نوازشریف کے پاس وزیردفاع کا چارج ہے لہٰذا یہ امید کی جاتی ہے کہ یہ وزارت زیادہ ذمہ دار ی اور سنجیدگی سے ہر معاملے پر اپنا نقطہ نظر یا معلومات پیش کرے گی۔ان اعدادوشمار نے ڈرون حملوں کے حوالے سے قومی سطح پر پائے جانے والے کئی ایک مفروضوں کو باطل ثابت کردیا ۔ بڑی شکایت یہ تھی کہ ان حملوں میں بے گناہ شہری زیادہ مارے جاتے ہیں ‘ جنگجو کم۔اب خود حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے ایک بھی عام شہری نہیں مارا گیا۔جو مارے گئے ان کی ہلاکتوں کے سیاق سباق کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ان میںبہت سارے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے گھروں میں شدت پسندوں کو پناہ دے رکھی تھی یا ان کی معاونت کرتے تھے۔ اس کے برعکس شدت پسندوں نے پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ امسال 26 مارچ کو پاکستانی خفیہ اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ عسکریت پسندوں نے نائن الیون کے حملوں کے بعد 49,000 سے زائد شہریوں کو قتل کیا ہے ۔جن میںچھ ہزار کے لگ بھگ فوجی افسر اور جوان بھی شہید ہوئے۔قبائلی علاقوں میںڈرون حملوں میں مارے جانے والے 67 بے گناہ افراد کے لیے پورا ملک سوگوار ہے۔دنیا بھر میں احتجاج کیا جاتاہے ۔دانشور وں اور کالم نگاروں نے دیوار گریہ سے سر ٹکراٹکرا کر حشر برپا کررکھا ہے۔ بے گناہ پاکستانیوں کی ہلاکتوں کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں۔علامہ جاوید احمد غامد ی کے سوا شدت پسندوں کی کارروائیوں کے خلاف کوئی زبان نہیں کھولتا۔ قومی سلامتی کے معاملات سے لاتعلقی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ فوجی جوانوں اور پولیس کے افسروں کی شہادت کے واقعات کو معمول کا حادثہ سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتاہے ۔ معاشرے کے فعال طبقات گریہ وزاری تو دور کی بات اظہار‘ افسوس کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔شہدا کے ورثاسے اظہار تعزیت کے لیے جاتے ہیں نہ ان کی قبروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔دوسری جانب قوم کو اس وقت سخت خفت اٹھانا پڑتی ہے جب کوئی امریکی ذمہ دار کہتاہے کہ یہ حملے پاکستان کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ مغربی اخبار یا میگزین میں خبر چھپتی ہے کہ سابق پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی کانگریس کے ایک رکن سے کہا:آپ حملے جاری رکھیں‘ ہم احتجاج کرتے رہیں گے۔یہ ناقابل برداشت دوغلا پن ہے۔ مقدمہ یہ ہونا چاہیے کہ ڈرون حملے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی پامالی کا باعث بنتے ہیں ‘جو پاکستان کو گوارا نہیں۔پاکستان اپنی جغرافیائی حدود کے اندر شدت پسندوں کے خلاف خود کارروائی کرے گا۔یہ بذات خود ایک مضبوط مقدمہ ہے جسے عالمی سطح پر پذیرائی مل سکتی ہے۔ حکومت کی دوغلی پالیسیوں اور موقع پرستی کی سیاست نے ملک کے اندر اورباہر اعتماد کا فقدان جنم دیا ۔خود پاکستانی شہری کنفیوزہیں کہ حکومت کا حقیقی موقف کیا ہے؟وہ ڈرون کی مخالف ہے یا حقیقت میں ڈرون حملوں کو شدت پسندگروہوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کارگر ہتھیار تصور کرتی ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے خود حکومت کے اندر یکسوئی نہیں پائی جاتی۔وہ نہ صرف کنفیوز ہے بلکہ داخلی تقسیم کا شکار بھی ہے۔جو ادارے قبائلی علاقہ جات میں براہ راست کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں ان میں سے کئی ایک کی رائے ہے کہ ڈرون حملوں کو مکمل طور پر بند کرانا فائدہ مند نہیں۔یہ شدت پسندوں کو خوفزدہ رکھتے ہیں۔ ان کی نقل وحمل محدود کردیتے ہیں۔چند برس قبل پشاور کے کور کمانڈر نے میڈیا کے ساتھ گفتگو میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ حکومت پاکستان کی بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرے۔قوم کو اعتماد میں لے اور بتائے کہ پرویز مشرف نے ڈرون پر زبانی یا تحریری معاہدہ یا مفاہمت کی تھی ۔موجودہ حکومت اس معاہدے یا مفاہمت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔دوسری صورت میں قوم کو یہ بتانے میں ہرگز کو ئی مضائقہ نہیں کہ ڈرون شدت پسندوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہیں جو حسب ضرور ت استعمال کیے جاتے ہیں۔ابہام کی موجودہ کیفیت کا برقرار رہنا ناصرف پاک امریکہ تعلقات کے لیے اچھا نہیںبلکہ خود پاکستان کے اپنے عزت وقار کے منافی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں