ان دنوں پاکستان میںسطحی اور گروہی مفادات کی سیاست کا زبردست ناٹک جاری ہے۔ طالبان راہنماحکیم اللہ مسعود کی موت پر جس نوع کا سرکاری اور عوامی ردعمل سامنے آیا وہ اس امرکی غمازی کرتا ہے کہ سیاسی جغادریوں اور قوم کو بلوغت کی منزل طے کرنے میں کافی وقت درکار ہے۔ ہر کوئی اپنے حامیوں کو خوش کرنے اور دوسروںکے ووٹروں کو ہتھیانے کے لیے بڑھکیں مار رہا ہے۔ عرصہ قبل سیّد منور حسن کراچی یونیورسٹی تشریف لاتے تو نظریاتی مخالفین بھی ان کی گفتگو سے لطف اٹھاتے۔ نکتہ رس اور برجستہ جملے چست کر کے محفل کو زعفران زار بنادیتے۔امیر جماعت اسلامی بننے کے بعد ان میں تبدیلی آ گئی۔ بعض اوقات وہ سخت گیر خیالات کا اظہار کرتے ہیں ۔تازہ ترین ارشاد ہے کہ حکیم اللہ محسود شہید ہیں۔ مسلسل سیاسی ناکامی‘ انتخابی شکست اور حلیفوں سے ناچاقی نے جماعت اسلامی کی قیادت پر دوررس منفی اثرات ڈالے ہیں۔ وہ معمول کی سیاسی جدوجہد اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے دستیاب جدید عوامل کو استعمال کرنے کی بجائے انتہاپسندانہ نظریات کی جانب راغب ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف عمران خان ہیں جو ضرورت سے زیادہ جذباتی اور غیر معمولی طور پر بہادر واقع ہوئے ہیں۔ موصوف اگلے چند ہفتوں میںنیٹو سپلائی لائن بند کرنے کی مہم پر نکلنے والے ہیں۔ حالانکہ یہ کام وفاقی حکومت کا ہے جبکہ اس کی ذمہ داری تحریک انصاف نے از خود اٹھا لی ہے۔ وہ اس وقت ایک صوبے کی حاکم ہے۔ ذرا سوچئے اگر وہ وفاق میں بھی شامل ہوتی تو پھر حالات کیا رخ اختیار کرتے۔ چودھری نثار علی خان کے دھواں دار بیانات کے باوصف وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا: حکومت نیٹو سپلائی بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ چودھری نثار نے بڑی مہارت سے ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کیا جس نے عمران خان کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے ۔ چودھری صاحب وقت آنے پر آسانی سے کہہ دیں گے کہ وزیراعظم یا حکومت نے ان کی رائے قبول نہیں کی۔ سرکاری ترجمان بیان جاری کریں گے کہ چودھری نثار نے جو کچھ کہا ‘وہ جوش خطابت کا شاخسانہ تھااور یوں قصہ تمام ہو جائے گا۔ سیاست اور کاروبار میں مسابقت فطری ہے۔ سیاسی حریفوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کے حامیوں کو اپنے نقطہ نظر پر قائل کریں۔ اسی لیے وہ اکثر نہ چاہتے ہوئے بھی انہی نظریات کا پرچار کرتے ہیں ‘جو اکثر اوقات ان کے دل کی آواز نہیں ہوتے۔ ان کا مقصد صرف حریفوں کے حامیوں کو کنفیوز کرنا ہوتا ہے۔ اس کی بدترین مثال ان دنوں بھارت میں دیکھی جاسکتی ہے‘ جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کانگریس دونوں پاکستان مخالف ووٹ بینک ہتھیانے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان کے خلاف بیان بازی کرتی ہیں۔ حالانکہ اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے تو وہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود لاہور تشریف لائے۔ مینار پاکستان گئے۔ پاکستان کے لیے قائم و دائم رہنے اور خوش حالی کی نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ اب ان کے جانشین کانگریس کو پاکستان سے لچک دار رویے پر کوستے ہیں۔ چنانچہ کانگریس پاکستا ن کے ساتھ مذاکرات معطل کرچکی ہے اور کنٹرول لائن پر کشیدگی عروج پر ہے۔ پاکستان میں یہی کام چودھری نثار علی خان‘ عمران خان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ وہ امریکہ کے خلاف سیاسی درجہ حرارت اس حد تک بڑھا چکے ہیں کہ مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش ہی باقی نہیں۔ انہوں نے عمران خان کے نعرے ہتھیا لیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان تمام تر محاسن کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تہہ درتہہ پہلوئوں کا ادراک نہ کر پائے۔ عمران خان‘ والدہ مرحومہ کی جانب سے قبائلیوں سے نسبت رکھتے ہیں‘ جس کا وہ فخرسے اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے سیر و سیاحت کے لیے کچھ وقت ان علاقوں میں گزارا۔ ان علاقوں کے طرز بودوباش پر ایک دلچسپ کتاب بھی لکھی۔ مگر گزشتہ دس بارہ برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ عمران خان نے ناقابل عمل اعلانات کر کے اپنے لیے ہی نہیں بلکہ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت کے لیے بھی بے پناہ مشکلات پیدا کردی ہیں۔ نیٹو سپلائی سے صوبائی حکومت کا کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ یہ اس کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتی۔ اگر صوبائی حکومت پولیس کا استعمال کر کے یا جلسے جلوسوں کے ذریعے سپلائی روکتی ہے تو صوبے میں سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن پہلے ہی نون لیگ کی قیادت پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ صوبائی حکومت کو برطرف کرکے اتحادی حکومت تشکیل دیں۔ اس صورت میںوفاق کے پاس گورنر راج کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہے گا۔ اس منظر نامہ میں تحریک انصاف میں بھی تقسیم کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ ایک حصہ نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کے ہمراہ شراکت اقتدار پر راضی ہو سکتا ہے۔ اگر یہ منظر نامہ تخلیق ہو جاتا ہے تو عمران خان کی جماعت کا حال بھی اصغر خان کی تحریک استقلال والا ہو جائے گا۔ نیٹو سپلائی بند نہیں کر پائے گی تو جگ ہنسائی بہت ہو گی۔ پیپلزپارٹی وہ واحد جماعت ہے کہ جس نے جذباتی ماحول اورسیاسی گرما گرمی کے باجود اپنے اوسان بحال رکھے۔ یہ اس امرکی دلیل ہے کہ پیپلزپارٹی میں ابھی تک میچورٹی کی سطح باقی جماعتو ں سے بہت بہتر ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جس طرح رائے عامہ کو بھڑکایا گیا اس سے وقتی طور پر حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کو کچھ فائدہ ضرور حاصل ہوا ہوگا لیکن یہ پیش نظر رہے کہ اس طرح کے اقدامات کے طویل المیعاد اثرات ہوتے ہیں۔ شدت پسندوں اور ان کے حامیوں کے تن مردہ میں جان پڑ جاتی ہے اور ان کی دم توڑتی ہوئی سیاسی حمایت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ حکومتیں عام طور پر ایسے مواقعوں پر تدبر کامظاہرہ کرتی ہیں۔ جذبات کو ٹھنڈا کرتی ہیں اور لوگوں کو اعتدال کی راہ دکھاتی ہیں نہ کہ نعرہ زن مظاہرین کے ہمرکاب ہوکر جلوس نکالنا شروع ہوجائیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو ایسے لوگوں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے‘ جو سفارت کاری اور سیاسی نزاکتوںکا ادراک رکھتے ہوں۔ جذبات کے تابع نہ ہوں بلکہ جذبات ان کے تابع ہوں۔ ناپ تول کر بولتے ہوں اور مروجہ سفارتی آداب سے آشنا ہوں۔ ان پرسرکاری مجالس میں ہونے والی گفتگو کو میڈیا میں طشت ازبام کر کے داد وتحسین پانے کی خواہش غلبہ نہ پاتی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وقتی سیاسی مفادکی خاطر قومی مفاد کو قربان کرنے سے گریز کی صلاحیت رکھتے ہوں اور اگر سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعتیں ان اوصاف کو خاطر میں نہیں لائیں گی تو پھر ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔