"IMC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر فائی کی رہائی

2013ء کے آخر میں ملنے والی خوشگوار خبروں میں سے ایک ڈاکٹر غلام نبی فائی کی امریکی جیل سے رہائی بھی ہے۔ اٹھارہ ماہ قبل ایف بی آئی نے انہیں امریکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کاز کے لیے کانگریس اور رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومت پاکستان سے مالی عطیات وصول کرنے کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا۔ امریکی قوانین کے مطابق لابنگ کی خدمات فراہم کرنے والے افراد اور اداروں کے لیے لازمی ہے کہ وہ باقاعدہ اپنے ادارے کو رجسٹرڈ کرائیں۔ ڈاکٹر فائی کا موقف تھا کہ وہ کشمیر پر لابی نہیں بلکہ آگہی فراہم کرتے ہیں تاکہ امریکی شہری اور اسٹیک ہولڈر کشمیریوں کے دکھ درد اور مسائل سے آگاہ ہو سکیں‘ لہٰذا ان کے لیے پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے والے اداروں کی طرح رجسٹرڈ ہونا لازمی نہیں۔ 
ڈاکٹر فائی 1990ء سے مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں حکومت پاکستان سے ملنے والی امداد بھی کوئی راز نہیں۔ پاکستانی حمایت کے باوجود ڈاکٹر فائی نے خود کو آزاد اور جماعتی دھڑے بندیوں سے بالاتر رکھنے کی کوشش کی۔ نوے کی دہائی میں جب ہر کوئی دہلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کے اعلانات کرتا وہ مذاکرات اور عالمی ثالثی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل پر اصرار کرتے رہے۔ امریکی حمایت کو پاک بھارت تعلقات کی بہتری اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ناگزیر تصور کرتے اور اس کا کھل کر اظہار بھی کرتے۔
ان کا شمار ان چند افراد میں ہوتا ہے جو امن عمل کی باریکیوں اور نزاکتوں سے آشنا ہیں۔ انہیں بخوبی ادراک تھا کہ مذاکراتی عمل رواں ہو تو مخالفین کے لیے فضا سازگار بنائی جاتی ہے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ امن اور تنازعات کے حل کی جانب پیش رفت کر سکیں۔ اسی لیے ڈاکٹر فائی نے بھارتی حکام کے ساتھ رابطوں سے بھی احتراز نہ کیا۔ سابق بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے انہیں بھارت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا‘ اس کے باوجود وہ بدمزہ نہ ہوئے اور مسلسل بھارتی سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے رابطے میں رہے۔ گزشتہ بائیس برس میں ڈاکٹر فائی نے امریکہ میں شبانہ روز محنت کے ذریعے کشمیر کے مسئلہ کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بھارت کے اندر بھی انسانی حقوق کے علمبرداروں کو متاثر کیا۔ تپن بوس‘ گوتم نولکھا‘ وید بھسین اور کلدیپ نائر جیسی معتبر شخصیات ڈاکٹر فائی کی تنظیم کشمیری امریکن کونسل کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنسوں میں شریک ہوتی رہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ اور ناروے سے سینئر سیاست کار‘ اعلیٰ پائے کے دانشور اور فعال طبقات کے نمائندے واشنگٹن میں ہونے والی کشمیر کانفرنسوں میں شوق سے جاتے اور پرامن طور مسئلہ کشمیر کے لیے تجاویز دیتے۔
وہ اعتدال پسند اور وسیع القلب شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے ہر مکتب فکر کے لوگوں سے گہرے تعلقات ہیں۔ کشمیر کے اندر درجنوں جماعتیں اور شخصیات ہیں جو کم ہی ایک دوسرے کو قبول کرتی ہیں لیکن ڈاکٹر فائی کا گھر اور دفتر سب کا مشترکہ مسکن تھا۔ میر واعظ عمر فاروق ہوں یا عبدالغنی لون، یاسین ملک ہوں یا امان اللہ خان ہر ایک نے ڈاکٹر فائی کی میزبانی کا لطف اٹھایا اور خوب اٹھایا۔ وہ کشمیر سے واشنگٹن آنے والی شخصیات کی موجودگی سے بھرپور فائدہ ٹھاتے۔ امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرتے۔ ارکان کانگریس اور سینیٹ سے بات چیت کا موقع نکالتے۔ علمی اداروں میں تبادلہ خیال کی محفلیں سجاتے۔ اس طرح کشمیر پر لابنگ ہوتی اور مہمانوں کی خاطر مدارت بھی چلتی رہتی۔ پاکستان کے اندر بھی ان کے تعلقات تمام سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کانفرنسوں میں پیپلزپارٹی‘ نون لیگ اور قاف لیگ سے لے کر جماعت اسلامی تک کے عہدے دار ان شریک ہوتے رہے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی گرفتاری کے پس منظر میں پاک امریکہ کشمکش بھی کارفرما تھی۔ اس زمانے میں پاکستان میں تعینات سی آئی اے کے دو اسٹیشن چیفس کے نام اخبارات میں چھپے؛ چنانچہ دونوں کو قبل از وقت اسلام آباد چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ باخبر افراد کا خیال ہے کہ ڈاکٹر فائی کی گرفتاری انتقامی کارروائی کا نتیجہ تھی 
تاکہ پاکستان کا مکو ٹھپا جا سکے۔ جیل انسان کو کندن بنا دیتی ہے اور سیاستدان کے لیے وہ بہترین تربیت گاہ قرار دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر فائی کی گرفتاری سے واشنگٹن میں کشمیر پر ہونے والی سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا۔ کانفرنسوں اور لابنگ کا سلسلہ ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔ ان کی رہائی سے یہ سلسلہ دوبارہ رواں ہونے کی توقع ہے۔ وہ جیل میں رہ کر بھی کشمیر کے معاملات سے بے خبر نہ رہے۔ دوستوں اور باخبر لوگوں کے ساتھ خطوط کے ذریعے تبادلہ خیال کرتے رہے۔ گہرے مطالعے اور تنہائی میںغوروفکر کے موقع نے ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی ہے۔ امید ہے کہ اب وہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے جن کی وجہ سے انہیں خود مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں ان کی رہائی سے کشمیر کے اندر اور باہر اعتدال اور عملیت پسند عناصر کو تقویت ملے گی جو امن عمل کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور تشدد کی آگ بھڑکانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
یہ حقیقت تسلیم کرنے میں قباحت نہیںکہ امریکی دلچسپی کشمیر کے مسئلہ کو حل کی طرف لے جانے میں مدد دے سکتی ہے۔ آئرلینڈ کا مسئلہ بھی اس وقت حل ہوا جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن ‘جو خود آئرش نژاد ہیں‘ نے گہری ذاتی دلچسپی کا اظہار کیا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے برسراقتدار آنے سے قبل ٹائم میگزین کے ساتھ انٹرویو میں یہ عندیہ دیا تھاکہ وہ کشمیر جیسے پیچیدہ مسئلہ کے حل کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کریں گے لیکن بعدازاں بھارتی دبائو کے باعث وہ ایسا نہ کر سکے۔ کرتے بھی کیوں؟ اس دوران پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اس قدر تلخ اور کشیدہ رہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ 
ڈاکٹر فائی کی قبل از وقت رہائی سے امریکہ نے مثبت پیغام دیا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر کچھ دلچسپی لے سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرے‘ جیسا کہ ایک گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ اسلام آباد کے پالیسی سازوں میں کشمیر پر زبردست کنفیوژن پایا جاتا ہے‘ بلکہ اندرون خانے قدامت پسندوں اور اعتدال پسندوں کے مابین زبردست کشمکش جاری ہے۔ بھارت کے موجودہ جارحانہ رویے کے باعث سخت گیر عناصر کا پالیسی سازی کے میدان میں پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں کشمیر کے معاملات کو غیرروایتی طور پر حل کے حوالے سے جو پیش رفت ہوئی تھی اس پر مزید بات چیت کا عمل روک دیا گیا ہے۔ اب ازسر نو روایتی قومی موقف دہرایا جا رہا ہے۔
اس کے برعکس وزیر اعظم نواز شریف بھارت سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے نہ صرف بے چین ہیں بلکہ وہ پاک بھارت سرحدوں کو ہی غیر متعلقہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ ویزے کی نرمی کی نہیں بلکہ خاتمے کی بات کرتے ہیں۔ اتنی جرأت تو سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنے دور حکومت میں نہیں کی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم من موہن سنگھ کا مسئلہ یہ ہے کہ باتیں بڑی اچھی کرتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنا ہی نہیں چاہتے یا خود ان کی حکومتوں کے اندر یکسوئی کا فقدان ہے‘ اسی وجہ سے تعلقات میں بہتری کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں