"IMC" (space) message & send to 7575

چیف جسٹس کے آخری ایام

اگلے چند دنوں میں جناب افتخار محمد چودھری چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب سے سبکدوش ہوجائیں گے لیکن وہ طویل عرصے تک ایک ایسی شخصیت کے طور پر یاد رکھے جائیںگے جنہوں نے محض عدالتی نظام ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست اور سماج کی جہت بدل ڈالی ۔ آج کے پاکستان کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔۔۔ افتخار محمد چودھری کے چیف جسٹس بننے سے پہلے کا پاکستان جوسراسیمہ اور طالع آزمائوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا، دوسرا جسٹس چودھری کی ریٹائرمنٹ کے وقت کا پاکستان جو تمام ترمشکلات کے باوصف پورے قد سے کھڑا ہے۔۔۔آزاد ‘بے خوف اور جمہوری سفر پر رواں دواں ۔
انسان خطا کا پتلا ہے اور بسا اوقات وہ اپنی حدود سے تجاوز بھی کرجاتاہے لیکن جسٹس چودھری کے اقدامات کا بحیثیت مجموعی ملک کو بہت فائدہ ہوا۔میرے نزدیک جسٹس چودھری کے دور کے نمایاں پہلویہ رہے ہیں :
٭وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے پچاس کی دہائی میں قائم ہونے والا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ اتحاد کامیابی سے توڑا۔ اسٹیبلشمنٹ کو دوٹوک پیغام دیا کہ بہت ہوچکا ، عدالت کسی کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی نہیں ۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں غیر جمہوری فیصلوں کو عدلیہ کی تائید حاصل ہوتی تھی ۔اکثر حکمران اپنے غیر دستوری اور ناجائز اقدامات کو ''نظریہ ضرورت ‘‘کے عنوان سے عدلیہ سے جائز کرالیتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ سے دوری اور مفاد عامہ کے محافظ بن کر عدلیہ نے عوام کے دلوں میں امید کے دیئے روشن کیے۔انہیں امید دلائی کہ غیر جمہوری قوتوں کو چیلنج کیا جاسکتاہے۔غیر دستوری کاموں کی مزاحمت کر کے بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔
٭عدالت عالیہ نے جمہوری نظام کی مضبوطی اور غیر جمہوری اداروں کو نکیل ڈالنے میں بھی قابلِ تحسین کردار ادا کیا۔سپریم کورٹ کی بدن بولی سے یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں اب کسی طالع آزما کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔پرویز مشرف کی آمریت کو چیلنج کر کے انہوں نے ثابت کیا کہ پُرامن سیاسی اور دستوری جہدوجہد ثمر بار ہوسکتی ہے ۔ 
٭افتخار محمد چودھری کاکوئی بدل نہیں۔وہ رجحان ساز بھی ہیں اور روایت ساز بھی۔بے خوف اس قدر کہ دووزرائے اعظم کوان کی عدالت میں حاضر ہوناپڑا۔یوسف رضا گیلانی کو عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی بنا پر وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے۔راجہ پرویز اشرف کو بھی بطور وزیراعظم عدالت میں حاضر ہوکر اپنا موقف پیش کرنا پڑا۔ چیف جسٹس حکومت کو آڑے ہاتھوں تو لیتے ہی تھے، انہوں نے طاقتور اداروں کو بھی نہیں بخشا۔ائر مارشل اصغر خان کیس کا فیصلہ کیا،مہران بینک سیکنڈل کا پول کھولا،اسٹیل مل اور رینٹل پاور کیس جیسے مقدمات میں بڑے طاقت ور عہدیداروںکو رگڑا لگایا،کرپشن کے خلاف ڈٹ کر ''جہاد ‘‘کیااوربااثرو بدعنوان مجرموں کو سزائیں دیں ۔
٭مظلوم اور بے کسوں کا سہارا بنے۔پاکستان کی تاریخ میں اتنے سووموٹو نوٹس کسی اور جج نے نہیں لیے ۔مقصد بالادست طبقات کے دلوں میں آئین اور قانون کا خوف بٹھانے کے سواکچھ نہ تھا۔خودمیں نے اپنی آنکھوں سے سپریم کورٹ میں سندھ‘پنجاب اور بلوچستان کے بڑے بڑے افسروں کو دن بھر سیڑھیوں پر کھڑے دیکھا۔خوف ان کے چہروں پر چھایا ہوتاتھا ۔ان کا رعب اور دبدبہ جسٹس افتخار چودھری کی عدالت میں ہرن ہوجاتا۔دنیا بھر میں جج بعض اوقات علامتی نوعیت کے مقدمات کے فیصلے دھوم دھام سے سناتے ہیں ،بااثر اور طاقتور شخصیات کو سزائیں سنائی جاتی ہیں تاکہ شہریوں پر قانون کی دھاک بیٹھ سکے اور رائے عامہ کو یقین ہوکہ قانون کی نظر میں کوئی ادنیٰ اور اعلیٰ نہیں۔غالباًاسی پس منظر میں گزشتہ چند برسوں میں عدالت جان بوجھ کر بعض مقدمات کے دوران ایسے تبصرے کرتی رہی جو زبان زدعام ہوجاتے ہیں۔ان تبصروں پر تنقید بھی ہوتی اور یہ بھی کہاجاتا کہ عدالتیں فیصلوں کے ذریعے بولتی ہیں۔
٭جسٹس چودھری گمشدہ افراد کے خاندانوںکے لیے نجات دہندہ ثابت ہوئے۔ اس ماں اورباپ سے زیادہ مظلوم اور بے بس کوئی نہیں جس کے لخت جگر کو رات کی تاریکی میں اٹھا یاگیا اور پھر اس کا کوئی اتا پتا معلوم نہ ہوسکا۔اس وقت ملک میں دوطرح کے افراد لاپتا ہیں۔ایک وہ جو القاعدہ‘ طالبان یا پھر اسی طرح کی شدت پسند تنظیموں کے ہتھے چڑھ گئے اور اپنے ہی ملک اور قوم کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوگئے۔ایسے افراد میں بڑے نامی گرامی افراد کے بچے بھی شامل ہیں جو اپنا گھر بار چھوڑ کر قبائلی علاقوں میں جابسے یا پھر افغانستان چلے گئے۔ان تنظیموں نے پاکستان کے شہروں کے اندر بھی ایسے معاونین بنائے جو انہیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مددفراہم کرتے ہیں۔ایسے افراد کو سرکاری ادارے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور انہیں عدالتوں میں پیش کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔ اس طرزعمل کا جواز یہ پیش کیا جاتاہے کہ یہ افراد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں لیکن ٹھوس شواہد موجود نہیں جن کی بنیاد پر انہیں عدالتوں سے سزا دلوائی جاسکے۔
لاپتا افراد کی دوسری قسم بلوچ علیحدگی پسندوں پر مشتمل ہے۔ ایسے افراد کی صحیح تعداد کا اندازہ کرنا دشوار ہے۔کہاجاتاہے کہ بلوچ گم شدہ افراد کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔چند دن قبل کوئٹہ سے پچیس خاندانوں نے‘ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ‘780 کلومیٹر طویل پیدل مارچ کیا۔غالباًپاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے طویل لانگ مارچ ہوگا لیکن حکومت کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی۔کراچی میں بھی سوائے میڈیا اور سول سوسائٹی کے سرکار نے ان کی مزاج پرسی تک نہ کی ‘اظہار یکجہتی تو دور کی بات ہے۔یہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہی تھے جنہوں نے حکومت کو جھنجھوڑا کہ لاپتا افراد کے مقدمات پر توجہ دے۔جسٹس چودھری نے حکومت سے پوچھا کہ کیا آپ کوئٹہ سے کراچی تک لانگ مارچ کرنے والوں سے اظہار ہمدردی بھی نہیں کرسکتے؟عدالت عظمیٰ کی برہمی کے بعد وزیردفاع خواجہ آصف کراچی پریس کلب میں لاپتا افراد کے لواحقین کے احتجاجی کیمپ میں متاثرین سے ملے۔انہوں نے وعدہ کیا کہ گمشدہ افراد کی بازیابی ہفتوں میں ہوگی۔
لاپتا افراد کے لواحقین اور ان کے حامیوں کا بڑا جائز مطالبہ ہے کہ اگر ان میں سے کوئی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث پایاجاتاہے تو اسے قرارواقعی سزادی جائے، بصورت دیگر ان افراد کو رہا کردیا جائے۔یہ سپریم کورٹ ہی ہے جس کی انتھک کوششوں کے باعث کئی درجن افرا درہاہوسکے ہیں۔یہ بے سہارا خاندان جو انصاف خریدنا تو درکنار اس کا مطالبہ کرنے سے بھی گھبراتے ہیں‘توقع کرتے ہیںکہ نون لیگ کی حکومت ان کے پیاروں کو واپس گھر لوٹنے میں عدلیہ کی مدد کرے گی۔
سپریم کورٹ میں افتخار محمد چودھری اپنی مسند پر براجمان ہوں یا نہ ہوں،وہ ایسی درخشاں روایات قائم کرکے جارہے ہیں جو تادیر سپریم کورٹ کو قوم کے لیے امید کا مینارہ بنا ئے رکھیں گی۔جس جرأت اور بے خوفی سے عدالت ماضی میں بروئے کار آتی رہی ‘ امید ہے کہ یہی شان آئندہ برسوں میں بھی جج صاحبان کا طرہ امتیاز ہوگی۔آئیے جسٹس افتخار محمد چودھری کو تپاک سے رخصت کریں کہ وہ اسی کے سزاوار ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں