کرپشن کا خاتمہ محض انتظامی اقدامات سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے سماجی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ تحریک سول سوسائٹی اور میڈیا کی مدد سے اٹھائی جاسکتی ہے۔ ریاستی اور سماجی سطح پر کیے جانے والے اقدامات سے کرپشن کا گراف مزید گر سکتاہے۔ حکومت کو تہیہ کرنا چاہیے کہ اگلے پانچ برس میں یہ گراف مسلسل اور تیزی سے گرے
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نامی عالمی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن کا گراف گرنے کی وجہ سے موجودہ حکومت کی رینکنگ دس درجے بہتر ہوئی ہے۔ دوسری مثبت اطلاع یہ ہے کہ چاروں صوبائی حکومتیں کرپشن کے کسی بڑے سکینڈل میں ملوث نہیں۔ایک ایسے ماحول میں جہاں قوم کو ملک کے مستقبل سے مایوس کرنے کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں،ایسی خوشگوار خبریں سننے کو کان ترس گئے ہیں۔
نون لیگ کی حکومت نے مایوسی اور بے بسی کے ماحول میں بڑی حد تک امید کے چراغ روشن کیے ہیں۔حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ راتوں رات دودھ اورشہد کی نہریں بہا دے،مہنگائی کے طوفان کے آگے بند باندھ دے،شدت پسندی کی یلغار کے سامنے دیوار بن جائے یا ڈرون حملے رکوادے۔ موجودہ حکومت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی بظاہر نیت ٹھیک ہے۔میرے نزدیک ملک میں کرپشن کا گراف گرنے کے نمایاں اسبا ب یہ ہیں:
٭جلاوطنی اورجیل سیاستدانوں کو سوچنے ‘ سمجھنے اورماضی کی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔میاں نوازشریف کوگزشتہ برسوں میںموقع ملا کہ وہ قومی مسائل کے بارے میں زیادہ گہرائی سے سوچیں اور باخبر لوگوں سے مشاورت کریں۔جیل اورجلاوطنی کی تربیت نے انہیں یہ سبق سیکھایا کہ کرپٹ اورنااہل افراد کو قریب نہ پھٹکنے دیں۔و ہ ایسا کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے لیکن جو تھوڑی بہت کوشش کی اس کے مثبت نتائج سامنے آناشروع ہوگئے ہیں۔
٭1999ء میں پرویز مشرف نے شب خون مارا تو نوازشریف سعودی عرب چلے گئے ۔لوٹ کر آئے تو پاکستان بدل چکا تھا۔اس دوران شہری زیادہ باشعود ہوچکے تھے،اچھی اور شفاف حکومت کی فراہمی کے مطالبات زیادہ بڑھ گئے تھے،خاص طور پر نوجوانوں میں تبدیلی کی خواہش اورتڑپ اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔حالیہ الیکشن میں یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت نے تحریک انصاف کی حمایت کی۔نوجوانوں کی اکثریت نے تبدیلی کے نعرے کو پذیرائی بخشی۔نئی نسل کا بدلا ہوا یہ رویہ حکمران اشرافیہ کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھا۔کراچی میں جس طرح متحدہ قوم موومنٹ (ایم کیوایم) کے مقابلے میں تحریک انصاف کو ووٹ پڑے اور عام شہریوں نے ایم کیوایم کی اجارہ داری کو چیلنج کیا،اس نے بھی ریاستی اور سیاسی ڈھانچوں کو یہ پیغام دیا کہ شہریوں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اوروہ'' اسٹیٹس کو‘‘ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
٭چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی امامت میں عدالت عالیہ نے بدعنوانی کی سرکوبی کے لیے سنہری کردار ادا کیا۔عدالت ہی کے دبائو کے باعث کرپشن کے بادشاہوں کاقافیہ حیات تنگ ہوا۔کئی ملزمان بیرون ملک سے پکڑ ے گئے۔اندرون ملک بھی بڑے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا گیا۔عدالت عالیہ کے ججوں نے بدعنوان عناصر کو بے نقاب ہی نہیں کیا بلکہ انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیلاگیا جس کا یہ طبقہ تصور بھی نہیں کرسکتاتھا۔''عدالتی جہاد‘‘نے کرپشن کے خلاف قومی سطح پر فضاتیارکرنے میںاہم کردارادا کیااورقوم کوبیدارکیا۔
٭میڈیا نے بھی کرپشن روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ رئوف کلاسر ا جیسے صحافی بدعنوان عناصر کا مسلسل تعاقب کرتے ہیں اورانہیں بے نقاب کرتے ہوئے اپنی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔الیکٹرانک میڈیا جس طرح بدعنوان عناصر کی بھد اڑاتاہے‘وہ اپنی مثا ل آپ ہے۔ ماضی میں جو لوگ اپنی حویلیوں کے صدر دروازے پر'' ھذا من فضل ربی ‘‘ کندہ کراکے بے فکر ہوجاتے تھے اب میڈیا کے خوف سے منہ چھپاتے ہیں۔
٭ عمران خان اور تحریک انصاف کو بدعنوانی کے خلاف سرگرم محاذبنانے کا کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی۔یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے رہنمائوں کی آمدن اور ٹیکس کے گوشوارے ویب سائٹ پر جاری کیے۔عمران خان نے ٹیکس چوروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔سیاسی مخالفین کی جائیدادوں اور ٹیکس کے حوالے عوام کے سامنے ٹھوس شواہد کے ساتھ پیش کیے۔تحریک انصاف کی اس مہم نے سیاستدانوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کو مجبور کیا کہ وہ ٹیکس دیں۔چند ہفتے قبل تحریک انصاف نے اپنی صوبائی حکومت کو خطرے میں ڈال کر قومی وطن پارٹی کے وزراء کو کرپشن کی بنیاد پر حکومت سے نکالا۔ان اقدامات نے قومی سطح پرکرپشن اوربدعنوان عناصر کے خلاف ماحول بنایا۔
٭ یہ اسباب ہیں جن کے باعث نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کو ادراک ہوا کہ اگر انہوں نے کارکردگی نہ دکھائی توسیاسی منظر نامے میں غیر متعلق ہوجائیں گے ۔نواز شریف نے اپنے قریبی حلقۂ مشاورت میں اعتراف کیا کہ ان کی مقبولیت اسی صورت میں برقراررہ سکتی ہے جب عوام کو نون لیگ کی موجودہ اورماضی کی حکومتوں میں فرق محسوس ہو۔نون لیگ کی خوش قسمتی ہے کہ شہری اس کا تقابل پیپلزپارٹی کی حکومت سے کرتے ہیں‘ جسے اچھی حکومت کی فراہمی کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی دلچسپی۔ یہی حال عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی ) کا ہے۔اے این پی کی قیادت نے کرپشن کی بہتی گنگا میں جی بھر کے اشنان کیا اورخان عبدالغفارخان اورعبدالولی خان محروم کی نیک نامی پر بٹہ لگادیا۔
پاکستان میں کرپشن کا تصور بڑا محدود ہے۔ دنیا میں کرپشن محض مالی بددیانتی کو نہیں کہا جاتا بلکہ قواعد وضوابط کو نظرانداز کرکے جو تقرریاں کی جاتیں ہیں انہیں بھی کرپشن گردانا جاتا ہے۔کالجوں اور جامعات میں میرٹ کو بالاطاق رکھتے ہوئے جو داخلے دیے جاتے ہیں ‘وہ بھی کرپشن کے زمرے میں آتے ہیں۔سیاسی کارکنوں کی خدمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کو جو اعلیٰ جماعتی اور حکومتی منصب عطا کیے جاتے ہیں‘ وہ بھی کرپشن کی ہی ایک شکل ہے۔ہر وہ کام جو ضابطوں اور شفافیت کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں کیاجاتاوہ کرپشن شمارہوتا ہے۔اس عالمی معیار کو پیمانہ مان لیا جائے تو کرپشن ہماری رگ وریشے میں سرایت کرچکی ہے۔یہ سرکار ہی نہیں، شہریوں کے طرززندگی کا بھی حصہ بن چکی ہے۔
کرپشن کا خاتمہ محض انتظامی اقدامات سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے سماجی تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ تحریک سول سوسائٹی اور میڈیا کی مدد سے اٹھائی جاسکتی ہے ۔ ریاستی اور سماجی سطح پر کیے جانے والے اقدامات سے کرپشن کا گراف مزید گر سکتاہے۔ حکومت کو تہیہ کرنا چاہیے کہ اگلے پانچ برس میں یہ گراف مسلسل اور تیزی سے گرے ۔اسی صورت میں عالمی مالیاتی ادارے اورسرمایہ کارپاکستان کی جانب راغب ہوں گے اور شہریوں کو روزگار ملے گا۔