اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ سے ضمنی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔شنید ہے کہ اگلے چند ماہ میں وہ قومی اسمبلی میں فروکش ہوں گے جہاں کبھی ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نانا ذوالفقار علی بھٹو الفاظ کا جادو جگایا کرتے تھے۔اسی ایوان سے بلاول بھٹو کے بزرگوں نے آداب حکمرانی سیکھے جہاں اب بلاول قدم رکھنے کو ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بغیر قومی سیاست بے رنگ وکیف ہوگئی ہے۔اب پیپلزپارٹی اور نون لیگ میں امتیاز کرنا محال ہوچکاہے۔ایک جیسے نعرے اور دعوے، حتیٰ کہ دونوں کی پالیسیاں بھی ایک جیسی غریب کش ۔
بلاول بھٹو کوچۂ سیاست میں نووارد ہیں۔ان کا دل جوان اور عزائم بلند ہیں۔ان کے پاس سیکھنے کو وقت بہت ہے۔انہیں سیاست کی لمبی اننگ کھیلنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔بھارت میں کانگریس کے برسرِاقتدار ہونے کے باوجود راہول گاندھی نے حکومت میں شامل نہ ہوکر ایک اچھی نظیر قائم کی ہے ۔گزشتہ دس برسوں میں انہوں نے اپنا بیشتر وقت کانگریس کو منظم کرنے اور عام لوگوں سے رابطے مستحکم کرنے میں صرف کیا۔بلاول بھٹو بھی پیپلزپارٹی کے تنِ نیم مرد ہ میں نئی روح پھونک سکتے ہیں اگر ان میں سیاسی عزم ہو اور وہ ایک نئے اور قابلِ عمل سیاسی ایجنڈے کے تحت نئی نسل کے ساتھ کلام کریں۔
بلاول بھٹو کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ آج کے پاکستان میں روایتی سیاسی ڈھانچے تیزی سے منہدم ہورہے ہیں۔بڑے شہر سیاست کا مرکز بن چکے ہیں ۔ متوسط طبقہ مضبوط ہو رہاہے اور وہ سیاست میں گہری دلچسپی لیتاہے ۔ میڈیا اور سول سوسائٹی نہ صرف عوامی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ گاہے وہ قومی ترجیحات کا تعین بھی کرتے ہیں۔میڈیا کی آزادی نے روایتی سیاستدانوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدلیں۔عوامی نمائندگی کے دعویٰ داروں کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ چوری کریں اور سینہ زوری بھی۔
عالمگریت کی لہر نے بھی جسدِ سیاست کو اتھل پتھل کا شکار کردیا ہے۔شہری عالمی معیارات پر اپنے حکمرانوں کو جانچتے ہیں۔ کرپشن اور دھوکہ دہی کے خلاف جو عالمی فضا ہے وہ اس کو پاکستان میں بھی متشکل ہوتادیکھنے کے متمنی ہیں۔ کل ہی کی بات ہے کہ ترک حکومت نے تین وزراء کو کابینہ سے کرپشن کے الزام میں فارغ کیا۔خیبر پختون خوا میں عمران خان نے دو وزراء کو محض اس لیے حکومت سے نکال دیا کہ وہ بدعنوانی سے باز نہیں آتے تھے۔
شہریوں کو ووٹ کے ذریعے تبدیلی کا ہتھیار آزمانے کا ہنر آگیا ہے۔خیبرپختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کا جس بے دردی سے صفایا ہواوہ حیران کن تھا۔پنجاب اور کراچی میں تحریکِ انصاف کی اُٹھان نے روایتی سیاسی بازی گروں کو اپنے طور طریقے بدلنے پر مجبور کیا۔خطے میں سماجی تبدیلی کی دوسری تحریکوں نے بھی پاکستانیوں،بالخصوص نوجوانوں ،کو متاثر کیا ہے۔دہلی میں اروند کچری وال کی حکومت قائم ہونے کو ہے۔یہ شخص ایک عام سرکاری ٹیکس افسر تھا۔اس نے تبدیلی اور دیانت دار انتظامیہ کی فراہمی کے وعدے پر بھارت کے دارالحکومت دہلی میں لوگوں کا اعتماد حاصل کرلیا۔اس کا دعویٰ ہے کہ وہ کرپشن کرے گا اور نہ کرنے دے گا۔شہریوں کو بروقت اور کم قیمت پر خدمات فراہم کرنے کا یقین دلایا گیا۔دہلی جو صدیوں سے حکمرانوں کا شہر ہے،جہا ں بھارت کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور صاحب ثروت طبقہ آباد ہے،اس نے شیلاڈکشٹ جیسی کروفر والی سیاستدان کومسترد کردیا اور ایک ایسے شخص کو اپنے اعتماد کا حق دار ٹھہرایا جسے کل تک دہلی کی اشرافیہ اور میڈیا ''مسخرہ‘‘ کہتاتھا۔جس کی سیاسی جدوجہد محض ایک برس پرمحیط ہے۔
بلاول بھٹو کو ایک ایسے ماحول میں کام کرناہے جہاں لوگ روایتی سیاستدانوں بالخصوص آزمائی ہوئی جماعتوں سے اکتا چکے ہیں ۔پیپلزپارٹی کو باربار عوام نے موقع دیا لیکن وہ اچھی حکومت فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔پی پی پی نے کبھی شہریوں کے مسائل کے حل کی جانب توجہ نہیں دی۔اس کی ترجیحات ہی دوسری تھیں۔جن افراد کو وفاق اور صوبوں میں اقتدار اور اختیار سونپا گیا وہ پرلے درجے کے نااہل اور بدعنوان تھے ۔انہوں نے عام لوگوں کی مشکلات میں کمی کرنے کے بجائے ان میں بے محابا اضافہ کیا۔ آصف زرداری فعال اور عوامی توقعات پر پورا اترنے والی ٹیم فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔
بلاول بھٹو کو یہ بھی ادراک کرنا ہوگا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی بدل رہاہے ۔وہ زمانہ لد گیا جب لوگ اس سے سازبار کرکے اقتدار پر قبضہ جما لیا کرتے تھے۔اب اسٹیبلشمنٹ کی اپنی فکر میں نمایاں تبدیلی آچکی ہے۔وہ پائیدار تبدیلی اور مستحکم پاکستان کے لیے سیاسی نظام کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔انہیں اس تلخ حقیقت کا ادراک ہوگیا ہے کہ استحکام پاکستان کا راستہ انتخابات سے گزرتاہے ۔منظم سیاسی جماعتوں کی کوکھ سے ہی فعال اور تازہ دم قیادت جنم لیتی ہے۔اسی لیے اب قاف لیگ کی طرح کی جماعتیں وجو د میں نہیں آرہی ہیں بلکہ جمہوریت جڑپکڑتی اور مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔
بلاشبہ بلاول بھٹو آکسفورڈ کے فارغ التحصیل ہیں۔آکسفورڈ علم و ہنر سکھانے کا لاجواب مرکز ہے۔ پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ اس کی تشکیل اور بعد ازاں خطّے میں اس کے کردار کا اپنا ایک مخصوص پس منظر ہے جو آکسفورڈ کے طباعت خانوںکی کتابوں کے مطالعے اور انگریز اتالیقوں کی مدد سے سمجھا نہیںجاسکتا۔اس کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت ،علامہ محمد اقبال کے کلام اور اس خطے کی سیاسی تحریکوں کے مدوجذر کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستانیوں کی نفسیات کا عمیق مطالعہ اور مشاہدہ رکھتے تھے۔انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کئی اہم دفاعی منصوبو ں کی بنیاد رکھی۔محترمہ بے نظیر بھٹو لبرل خیالات کی مالک ہونے کے باوجود اساسِ پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی روادار نہ تھیں۔بے نظیر نے سیاست کا آغا ز جیل کی کال کوٹھری سے کیا اور وہ بتدریج کندن بن کر نکلیں۔انہوں نے پاکستان کا کونا کونا چھان مارا۔عام کارکنوں کے ساتھ براہ راست رابطے پیداکیے ۔پارٹی کو منظم کیا اور بہادری سے جان دے دی۔بلاول بھٹو کو پاکستانیوں کی نفسیات کا نہ صرف مطالعہ کرنا پڑے گا بلکہ عام لوگوں سے مسلسل تبادلہ خیال کرکے ان کے رجحانات کو سمجھناہوگا۔
آصف علی زرداری نے بھی خوب سیاست کی لیکن ان کا طرزسیاست بھٹو خاندان سے بہت مختلف رہا۔وہ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے کے عادی ہیں۔گزشتہ دنوں بلاول نے مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کی بات کی۔قبل ازاں وہ طالبانائزیشن اور ملائیت کو مسترد کرچکے ہیں۔انہوں نے کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیوایم کے سخت گیر طرزِسیاست کو بھی ہدف تنقید بنایا ۔کراچی کے ایک حالیہ جلسہ میں نون لیگ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔اگر وہ اپنے بیانات پر قائم رہتے ہیں اور حکومت کے ساتھ مک مکا کرنے کی بجائے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہیں، تو وہ پی پی پی کے مایوس کارکنوں کو بھی متحرک اور پارٹی کو نیا آہنگ دے سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو کو تبدیلی کے نعرے کو اون کرنا ہوگا اور خود لوگوں کے سامنے اس کی مثال بننا ہوگا۔انہیں پارٹی کی صفوں سے کھوٹے سکوں کو نکال باہرکر ناہوگا۔وہ شخصیات جن کا دامن داغ دار ہے اور وہ مقدمات میں ملوث ہیں،انہیں اگلی صفوں میں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔پارٹی کی تطہیر کیے بغیر اسے قومی سطح پر قابل قبول نہیںبنایا جاسکتا۔خود آصف علی زرداری کا المیہ یہ ہے کہ ان کا وجود بدعنوانی اور کرپشن کی کہانیوں سے لت پت ہے۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا عالم یہ ہے کہ وہ متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں۔اکثرنیب اور سپریم کورٹ کی راہداریوں میں پائے جاتے ہیں۔
بلاول بھٹو سندھ میں حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیں اور نوجوان مردوں اور عورتوں کو اگلی صفوں میں جگہ دیں۔بالخصوص ایسے نوجوانوں کو موقع دیں جو دیانت دار ہوں اور خدمت کے جذبے سے مالامال۔ پیپلزپارٹی کے بچائو کا یہی ایک راستہ ہے۔