"IMC" (space) message & send to 7575

للکار اور مفاہمت کا پیغام

گڑھی خدا بخش میں پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے حیرت انگیز جرأت اوربہادری کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف بروئے کار آنے کے عزم کا اظہار کیا۔نئے سال کے آغاز اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر یہ ایک برمحل پیغام تھا۔بلاول کی جرأت مندی کی اس لیے بھی تعریف کی جانی چاہیے کہ پاکستان کے سینئرسیاسی قائدین میں یہ دم خم ہی نہیں کہ وہ براہ راست دہشت گردوں کو چیلنج کرسکیں۔ دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنا اور ملکی سلامتی کو لاحق خطرات سے قوم کو آگاہ کرنا تو رہی دُور کی بات، عُمّالِ حکومت کو اپنی کھال بچانے کی فکر دامن گیر ہے۔ وفاق اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے شتر مرغ کی مانند سر ریت میں چھپا رکھا ہے اور مذاکرات مذاکرات کی رٹ کو جان بچانے کے لیے ڈھال بنا لیا ہے۔
بلاول کی موجودہ تقریر کی تحسین اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بھی پی پی پی کو حکومت کرنے کا موقع ملا اس نے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف موثر اور طویل المیعاد اقدامات کے بجائے راہ فرار اختیار کی۔ بلاول بھٹو کو چاہیے کہ وہ پارٹی کی ماضی کی غلطیوں کا ادراک کریں ،ان کا جائزہ لیں اور کھلے دل سے تسلیم کریں کہ ملک آج تباہی کے جس دہانے پر کھڑا ہے، پیپلزپارٹی کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کا بھی اس میں حصہ ہے۔ افغانستان میں گوریلا جنگجوئوں کی تربیت اور مالی امداد کی فراہمی اور وہاں اپنی پسند کی حکومت کے قیام کی منصوبہ بندی سترکی دہائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی تھی۔گلبدین حکمت یار ہوں یا برہان الدین ربانی ، وہ اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر میجر جنرل (ر) نصیراللہ بابر کے پشاور میں سرکار ی مہمان تھے۔بعد ازاں بھٹو کے شروع کردہ منصوبے پر ضیاء الحق نے شرح صدر کے ساتھ عمل درآمد کیا۔اسی افغان پالیسی نے پاکستان کو خون چاٹنے پر مجبورکیاہے۔
طالبان کا عالم شہود پرآنا ابھی کل ہی کی بات ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیرداخلہ نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں کوئٹہ سے طالبان کی مدد کا سلسلہ شروع ہوا۔خود محترمہ نے دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ طالبان کو تسلیم کریں۔نصیراللہ بابر قندھار کے راستے وسطی ایشیاتک کی تجارتی راہداری کھولنا چاہتے تھے۔ پاکستان میں بھارت دشمنی کی فضا پیدا کرنے میں پیپلزپارٹی نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے 1963ء میں پاک بھارت مذاکرات میں تعمیری کردار ادا کرنے کے بجائے سخت گیر موقف اختیارکیا۔بعدازاں وہ آپریشن جبرالٹر کے معمار بن گئے اور پاکستان کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا، نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا ! 1965ء کی جنگ کے بطن سے المیہ مشرقی پاکستان نے جنم لیا جس کے زخم آج تک ہرے ہیں۔
گزشتہ پانچ برس وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، وہ شدت پسندوں کے خلاف پوری قوت سے بروئے کار آسکتی تھی،محترمہ بے نظیر بھٹو کے خون کا بھی یہی تقاضا تھا کہ دہشت گردوں کو نظریاتی محاذ پر شکست سے دوچار کرنے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کیے جاتے ، لیکن ہر محاذ پر حکمران پیپلز پارٹی نے پسپائی اختیار کی ۔میڈیا طالبان راہنمائوں کے بیانات اس طرح شائع اور نشر کرتارہا جیسے کہ وہ قومی ہیرو ہوں۔ان کی کارروائیوں کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کی جاتی اور وزارت اطلاعات خاموش تماشائی بنی رہی۔دہشت گردوں کے خلاف معرکہ آرائی کو دفاعی اداروں کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا نے ایبٹ آبا د کمیشن کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے محض تین بار ان سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے بار ے میں استفسارکیا۔
بلاول بھٹو نے نجکاری کی بھی ایک بار پھر مخالفت کی لیکن یہ نہیں بتایا کہ سترکے عشرے میں ملکی اقتصادیات کا بیڑا غرق کرنے والی پالیسیاں جاری رکھنے کا انجام کیا ہوگا؟ یہ پیپلز پارٹی ہی کی حکومت تھی جس نے منافع بخش اداروں کو جیالوں کے حوالے کیا۔ جنہیں معمولی کاروبا ر چلانے کا تجربہ نہ تھا انہیں کارپوریشنز کا نگران مقرر کردیا گیا۔حساب کتاب کیا جائے تو اب تک قومی خزانے کو پہنچنے والے کھربوں ڈالر کے خسارے کی ذمہ دارپیپلزپارٹی کی پالیسیاں ہیں۔ ان ناکام پالیسیوں کو جاری کرنے کی وکالت کرنا ملک سے ایک سنگین مذاق ہے۔یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ حکومت نجکاری کے عمل کو شفاف رکھے۔ مزدوروں اور صنعتی کارکنوں کے مفادات اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرے،لیکن خسارے میں چلنے والے اداروں سے جان نہ چھڑانے کا مشورہ دینا پاکستان کو ناکام کرنے کے مترادف ہے۔
اس موقع پرآصف علی زرداری نے متوازن تقریر کی۔مجھے بسا اوقات ایسا لگتاہے کہ زرداری صاحب تمام تر الزامات اور ناکامیوں کے باوصف روایتی سیاست بازی سے بہت اوپر اٹھ چکے ہیں۔جمہوریت کی مضبوطی کے لیے قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ایسا نظر آتاہے کہ جیل کے تجربات اور دنیا کے عظیم سیاسی راہنمائوں کی زندگیوں سے انہوں نے بہت کچھ اخذ کیا ہے۔اسی لیے انہوں نے پرویز مشرف کے آئین شکنی کے مقدمے میں حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ۔ وہ غیر جمہوری قوتوں کی سودا بازی کی طاقت کو وزیراعظم نوازشریف کے اشتراک سے تحلیل کرنا چاہتے ہیں جو قومی سیاست میں مثبت پیش رفت قراردی جاسکتی ہے۔
زرداری صاحب اور بلاول کا انداز سیاست اورطرز تکلم مجھے بھارتیہ جنتا پارٹی کے راہنمائوں اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی کی یاد دلاتاہے۔واجپائی نے عمر بھر مفاہمت اور دوستی کا علم اٹھائے رکھا جبکہ ایڈوانی انتہاپسندہندوئوں کے جذبات کو آواز دیتے رہے ۔ وہی کیفیت پیپلزپارٹی کی بھی ہے۔ زرداری صاحب امن کی فاختہ ہیں اور بلاول للکارتے ہیں ۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ یہ انداز سیاست کامیاب ہوگا یا نہیں لیکن ایسا نظرآتاہے کہ اگلے کچھ برسوں تک مفاہمت اور للکار کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتارہے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں