پرویز مشرف کی حالت زار دیکھ کر رفیق سندیلوی کا شعر یاد آتا ہے۔ ؎
سبھی کچھ مٹ گیا، پانی کی ہستی رہ گئی
فقط اک مسندِ گریہ ہی باقی رہ گئی
خبر ملی کہ عدالت جاتے ہوئے کمانڈو پرویز مشرف کی صحت بگڑ گئی اور انہیں راولپنڈی کے ایک فوجی ہسپتال کے شعبہ امراض قلب میں منتقل کر دیا گیا۔ چشم تصور میں پرویز مشرف کے متعدد ڈائیلاگ (مکالمے) فلم کی مانند چل پڑے: 'میں تمہیں وہاں سے ہٹ کروں گا کہ تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ کہاں سے ہٹ کیا گیا: ع
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
طرح طرح کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جعلی مریض بن کر ہسپتال میں چھپ گئے۔ وہ فوجی قیادت کو آواز دیتے ہیں۔ بیرونی دوستوں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی سے دبے لفظوں میں شکوہ کناں ہیں کہ موصوف ان کی مدد کرنے کے بجائے کنی کترا گئے۔ کہتے ہیں، مصیبت میں ہوں، غداری کے مقدمے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ عوامی دبائو اس قدر زیادہ ہے کہ پرویز مشرف کے حامیوں میں چودھری شجاعت حسین کے سوا کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ وہ بھی بجائے مشرف کے حق میں ریلی نکالنے، اخبار میں اشتہار دینے اور رائے عامہ کو متحرک کرنے کے حکومت کو فوج سے ڈراتے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے مصداق صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔
ملک میں کم از کم سیاسی سطح پر پرویز مشرف کو سزا دینے کے حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کے دل دکھی ہیں۔ انہوں نے دفاعی اداروں کے ہاتھوں سخت ہزیمت اٹھائی ہے۔ یہ قصہ قیام پاکستان کے بعد شروع ہوا اور چند برس پہلے تک جاری رہا۔ سیاست کاروں کو پہلی بار جوابی وار کرنے کا موقع ملا ہے۔ پیپلز پارٹی والوں کے زخم بھی ہرے ہو گئے ہیں، انہیں راولپنڈی جیل میں ذوالفقار علی بھٹو کی نعش سولی پر لٹکتی نظر آتی ہے۔ جناب آصف علی زرداری کے خیالوں میں ہر وقت تارا مسیح کا چہرہ گھوم رہا ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی لہولہان میت لیاقت باغ کے پچھواڑے میں سڑک پہ پڑی آنکھوں کے سامنے گھومتی ہے۔ نون لیگ والوں کو وہ دن نہیں بھولتے جب ان کے قائد میاں نواز شریف کو ہتھکڑی لگا کر جیل کی کال کھڑی میں ڈال دیاگیا تھا۔ نون لیگ کے رہنما صدیق الفاروق کا کئی ماہ تک کوئی پتہ نہ چلا تھا۔ شوروغل مچا تو مشرف کے اٹارنی جنرل نے عدالت میں اعتراف کیا: سوری، ہم انہیں ڈمپ کرکے بھول گئے۔
پرویز مشرف کو کمزور اور تنہا نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ وہ مغربی طاقتوں کے چہیتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناز برداری کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کس طرح مشرف نے ملکی قوانین کے علی الرغم غیرملکیوںکو پاکستان کی حساس تنصیبات استعمال کرنے کی اجازت دی، حتیٰ کہ اکثر معاملات میں فوج کو بھی بے خبر رکھا۔ ڈرون حملے، بلیک واٹر، قبائلی علاقہ جات میں براہ راست خفیہ آپریشنز کی اجازت اور نہ جانے کیا کیا۔ پاکستان آج جس عذاب میں متبلا ہے، اس کا اگر کوئی شخص ذمہ دار ہے تو وہ صرف پرویز مشرف ہیں۔ وہ ملکی دفاع اور سلامتی کے حوالے سے ضروری ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے۔
دو روز بعد ہمارے برادر اور امریکہ کے حلیف ایک طاقتور عرب ملک کے وزیر خارجہ اپنے بادشاہ کا پیغام لے کر پاکستان آنے والے ہیں۔ امکان ہے کہ اس کے بعد حکومت انہیں کسی ڈیل کے تحت بیرون ملک بھجوا دے گی۔
حکومت کے لیے یو ٹرن لینا، مقدمات سے دستبردار ہونا اور راتوں رات پرویز مشرف کو ملک سے نکال دینا اتنا آسان نہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مسلسل وزیر اعظم نوازشریف کو اکسا رہے ہیں کہ وہ مشرف کے خلاف ثابت قدم رہیں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی میں مشرف مخالف لابی بہت بااثر ہے۔ وہ انہیں نشان عبرت بنانا چاہتی ہے۔ عدالتیں آزاد ہیں اور وہ قانون کی بالادستی چاہتی ہیں۔ وہ زمانہ لد گیا جب عدالت سے ''قومی مفاد‘‘ کے نام پر پسندیدہ فیصلے حاصل کر لیے جاتے تھے، اب فیصلہ قانون کی کتاب کے مطابق ہوتا ہے۔ 1973ء کا دستور بار بار حوادث زمانہ کا شکار ہوا۔ضیاالحق اور پرویز مشرف نے اس کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن وہ شق نمبر چھ نہ نکال سکے؛ حالانکہ یہی شق ان کے گلے میں پھندا کستی ہے۔ ضیاالحق کی روح بہاولپور کی فضائوں ہی میں قفس عنصری سے پرواز کر گئی، سو ان کی جان چھوٹ گئی۔ بدقسمتی سے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاالحق کے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا کفارہ اب تنہا پرویز مشرف کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انہیں ملنے والی سزا دراصل ماضی کی فوجی بغاوتوں کو مسترد کرنے کا بھی اعلان ہے۔
بظاہر پرویز مشرف کا بچ نکلنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ اگر نون لیگ کی حکومت عدالتی عمل کو بالائے طاق رکھ کر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دیتی ہے تو اس کے سیاسی مضمرات کو سنبھالنا ممکن نہ ہو گا، حکومت کی ساکھ کو سخت دھچکا لگے گا، میڈیا اور حزب اختلاف اسے بزدلی کا طعنہ دیں گے، سول سوسائٹی اس کے لتے لے گی، عمران خان‘ جو ابھی تک خاموش تماشائی بننے ہوئے ہیں‘ فوراً حکومت کو غیرملکی دبائو کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا طعنہ دیں گے۔ وہ خود کو ایک بہادر اور غیرت مند لیڈر ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عوام ماضی میں غیرملکی دبائو کے سامنے ڈھیر ہونے کے مظاہرے دیکھ دیکھ کر عاجز آچکے ہیں۔
اس پس منظر میں حکومت کے پاس موجودہ بحران سے باہر نکلنے کے آپشن بہت محدود ہیں۔ واحد معقول راستہ یہ ہے کہ مشرف کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، بغیر کسی دبائو کے مقدمہ چلے، سزا ہونے کی صورت میں حکومت کے پاس انہیں معافی دینے کا دستوری اختیار ہے، غیرملکی مہربانوں اور طاقتور داخلی حلقوں کی رائے کو احترام دینے کا وہی وقت ہو گا۔ اس طرح پرویز مشرف کی جان بھی بچ سکتی ہے اور سیاستدانوں اور عدلیہ کی قانون کی بالادستی اور طالع آزمائوں سے مستقل چھٹکارہ حاصل کرنے کی خواہش بھی پوری ہو سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں یہی ایک بہتر آپشن نظر آتی ہے۔