کوالالمپور میں دورانِ سفر‘ ٹیکسی ڈرائیور سے اُس کے سیاسی نظریات کے بارے میں استفسار کیا تو اُس کا جواب تھا: وزیراعظم نجیب رزاق میرے پسندید ہ سیاست دان ہیںلیکن مہاتیر محمد توہمارے قائداعظم ہیں۔حیرت سے پوچھا کہ وہ قائد اعظم کو کیسے جانتاہے؟ کہنے لگا کہ سکول ہی میں ہمیں عام حالات بالخصوص مسلم دنیا سے روشناس کیاجاتاہے۔میں قائداعظم کے بارے میں کئی مضامین پڑھ چکاہوں۔ ملائشیا کے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔وہ سچے اور بے باک راہنما تھے۔کاش کچھ اور برس جی پاتے تو پاکستان کی تقدیر بدل جاتی۔
عبدالغفار نامی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے تبادلہ خیال بڑا متاثر کن تھا۔پاکستان کا نام سنتے ہی اس کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔دیر تک گفتگو کرتا رہا۔ کہنے لگاکہ اس کی زندگی کا وہ دن یادگار لمحات میں سے ایک ہے جب پاکستان جوہری قوت بنا ۔ہم نے گھر میں مٹھائی تقسیم کی ۔ اب پاکستان کے حالات کے بارے میں سنتا ہوں تو اکثر آزردہ ہوجاتاہوں۔موصوف عبدالغفار یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف کے بارے میں جانکاری کے لیے بے تاب تھے۔ عرض کیا کہ بے شمار مشکلات کے باوجود تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں سماجی اور انتظامی سطح پر سدھار لانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ آئیڈیل نظام حکومت تو قائم نہ ہوسکا لیکن پھر بھی بہتری کی جانب سفر کا آغاز ہوچکا ہے۔نئے نئے تجربات کیے جارہے ہیں۔کہنے لگے کہ عمران خان نے پولیو مہم چلانے اور پاکستانی بچوں کو دائمی طور پر معذور ہونے سے بچانے کی خاطر جس عزم کا اظہار کیا اس سے وہ بہت متاثر ہوا ہے۔
ملائشیا کے لوگ ابھی تک مہاتیر محمد کی شخصیت کے سحر سے باہر نہیں نکلے۔ مہاتیر محمد سیلف میڈشخصیت ہیں۔ سکول کے استاد کے فرزند۔پیشہ کے اعتبار سے معالج۔اس کے باوجود خیرہ کن کامیابیاں حاصل کیں۔انہوں نے سیاسی زندگی کا آغاز 1964ء میںیونائیٹڈ ملیز نیشنل آرگنائزیشن میں شامل ہوکرکیا۔غیر معمولی تحرک اور سیاسی عزم نے انہیں حریفوں پر برتری عطا کی۔ قسمت کے بھی دھنی تھے۔1976 ء میں ڈپٹی وزیر اعظم اور 1981 ء میں وزیر اعظم بن گئے۔ پانچ مرتبہ مسلسل الیکشن جیت کر وزیر اعظم کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔ سترکی دہائی میں بطور وزیر تعلیم انہوں نے پرائمری اور ثانوی تعلیم کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں کیں ۔ ان تبدیلیوں کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ طلباء کے زاویہ نگاہ میں وسعت اور گہرائی پیدا کی جائے۔خاص طورپر ان کے اندر تنقیدی تجزیہ کا جوہر بیدارکیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر بلند مقام کے حصول کے لیے ملائشیا کو ریاضی اور سائنس پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ تعلیم کے معیار کو عالمی سطح پر لانا ہوگا۔ 1992ء میں انہوں نے اعلان کیا کہ ہماری توانائیوں کا رخ اب ملائشیا کو اس خطہ میں معیاری تعلیم کا گڑھ بنانے کی جانب ہوگا۔ہزاروں طلبہ کو مغربی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجاگیا ۔ان طلبہ نے واپسی پر ملک کی باگ ڈور سنبھالی ۔ہر شعبے میں شعوری طورپر مسابقت کا ماحول پیدا کیاگیا ۔غالباًپاکستان نے طلبہ کو بیرون ممالک سکالر شپ دینے کا آئیڈیا ملائشیا سے ہی اخذکیاہے۔
مہاتیر محمد مدبر سیاستدان اور منتظم بھی تھے ۔انہوں نے 1969ء میں The Malay dilemmaکے عنوان سے ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی جس میں ملائشیا کے باشندوں کی پسماندگی اور غربت کے اسباب پر بحث کی گئی ۔کتاب میں تجویز کیا گیا کہ ان کی ترقی کے لیے کوٹہ سسٹم متعارف کرایا جائے۔یہ تجویز حکمران پارٹی کو بہت ناگوار گزری۔ انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ بعد میں نہ صرف ان کی رائے مان لی گئی بلکہ انہیں عزت واحترام سے پارٹی میں واپس لایا گیا۔
انہوں نے ملائشی مسلمانوں کو متحرک کرنے کے لیے سماجی اور مذہبی اقدار کے تحفظ کا نعرہ بھی دیا۔ان کے ویژن کا اہم نقطہ یہ تھا کہ ''ملائشیا مکمل اخلاقی اقدار پر یقین رکھنے والا معاشرہ ہوگا‘‘۔
ان کے نزدیک ملائشیا کی ترقی کا راز اخلاقی اصولوں اور اعلیٰ معیارات پر کاربند رہنے میں ہے۔ترقی کے لیے مغربی کلچر کی جگالی لازمی نہیں۔ یہ نقطۂ نظر ترکی کے کمال اتاترک کے خیالات کی نفی تھا جنہوں نے ترقی کے لیے دیگر باتوں کے علاوہ ننگے سر اور سکرٹ کومعیار بنا لیا تھا اور مذہب کو دیس نکالا سنایا۔ ملائشیا میں اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے زبردست کام کیا۔جیسے کہ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ تیس برس قبل اسلامی بینکنگ شروع کی ۔ان کے تجربات سے آج دنیا کے دوسرے ممالک بھی استفادہ کررہے ہیں۔ اپنی مسلم شناخت چھپانے کے بجائے اسے باعث فخر قراردیاگیا۔
عورتوں کو بھی تیز رفتار اقتصادی ترقی میں شراکت دار بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔تعلیمی اداروں میں ایسا ماحول اور مواقع پیدا کیے گئے کہ زیادہ سے زیادہ عورتیں تعلیم حاصل کرسکیں اور ہنر سیکھیں۔ سرکاری ملازمتوںاور نجی صنعتی اداروں میں عورتوں کو روزگار فراہم کیاگیا۔انہیں ایسی ترغیبات دی گئیں کہ وہ ملکی معیشت کا فعال حصہ بننے میں خوشی محسوس کریں۔ایسی قانون سازی کی گئی کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ صنف نازک کا استحصال نہ کرسکے ۔انہیں مناسب اجرت ملے اور وہ اپنی ازدواجی اور خاندانی ذمہ داریاں بھی ادا کرسکیں۔مثبت پالیسیوں اور سرکاری
سرپرستی کی بدولت آج پچاس فیصد کے لگ بھگ عورتیں مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیتی ہیں۔ ملائشیا کے لوگوں کو انگریزوں کی طرح کئی کئی برسوں کی منصوبہ بندی کرنے کی عادت ہے۔ وہ اگلے دس برسوں میں ساٹھ فیصد عورتوں کو روزگار فراہم کرنے کا منصوبہ بناچکے ہیں۔
مہاتیر محمد کا سب سے بڑا کارنامہ ملائشیا کی اقتصادی کایاپلٹنا تھا۔انہوں نے بہت ہی بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کیے۔جس سے معیشت کا پہیہ حرکت میں آگیا۔شمال سے جنوب تک ایکسپریس وے بنائی۔انفرا سٹر کچر جیسے ٹون ٹاورز کی تعمیر پرخصوصی توجہ دی۔ ان کے نزدیک ایسی عمارتیں اور شاہراہیں عوام کے اندر ملک پر اعتماد پیدا کرتی ہیں ۔ٹون ٹاورز ایک عجوبہ ہیں۔دنیا بھر کے سیاح اسے اشتیاق سے دیکھتے ہیں۔ان ٹاورز کو دیکھ کر ملائشیا کی ترقی اور خوشحالی کی دھاک دل ودماغ پر بیٹھ جاتی ہے۔
پاکستان ملائشیا کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتاہے۔خاص کر معیشت اور سرمایہ کاری کے میدان میں اُس کے تجربات سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔وزیراعظم نواز شریف کی ٹیم کو ترقی کے ملائیشین ماڈل کا مطالعہ کرناچاہیے۔وہ ترکی کے ساتھ ساتھ ملائشیا کی حکومت اور سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان کی طرف متوجہ کریں۔علاوہ ازیں پارلیمنٹ، سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں کے مابین تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی ضرورت ہے۔ابھی تک دونوں ممالک کے مابین سیاسی اور سماجی رشتے بہت کمزور ہیں۔انہیں مضبوط بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ (ختم)