"IMC" (space) message & send to 7575

مذاکرات کا ایجنڈا

بظاہریہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ حکومت شدت پسندوں کو مذاکرات کے ذریعے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگرچہ ماضی میں ایسی کوششیں بارآور نہ ہوسکیں‘ اس کے باوجود مذاکرات کا آپشن کھلا رکھنے اور سرکاری سطح پر ایک بار پھر کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ مذاکراتی ٹیم میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو ماضی میںبراہ راست اس طرح کے پیچیدہ مذاکراتی عمل کا حصہ رہاہو یا جو شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا تجربہ رکھتاہو ۔ یہ گنجائش موجود ہے کہ مذاکراتی ٹیم کا دائرہ وسیع کیا جائے اور ایسے افراد بھی شامل کئے جائیں جنہیں دنیا کے دوسرے ممالک یا عالمی اداروں میں کچھ نہ کچھ قبولیت بھی حاصل ہو۔
مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے قبل حکومت یا مذاکراتی ٹیم کے پاس ایک باقاعدہ متفقہ ایجنڈا ہونا چاہیے۔ ایجنڈے کا پہلا نقطہ یہ ہونا چاہیے کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے یا کم ازکم شہریوں اور حفاظتی دستوں پر حملے بند کیے جائیں۔ضروری نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ کوئی اعلان کیا جائے ۔ طالبان خاموشی کے ساتھ اپنے لوگوں کو پیغام دیں کہ جب تک مذاکراتی عمل جاری ہے‘ اس وقت تک حملے بند کیے جا رہے ہیں۔ خلاف ورزی کی صور ت میں طالبان نہ صرف ایسی کارروائیوں سے لاتعلقی کا اعلان کریں بلکہ ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی بھی یقین دہانی کرائیں۔وزیراعظم نواز شریف کو دفاعی اداروں کو بھی ہدایت کرنی چاہیے کہ جب تک مذاکرات کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ وہ کوئی ایسی کارروائی نہ کریں جس سے یہ عمل متاثر ہو۔
مذاکراتی ٹیم کو چاہیے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والی پیش رفت سے تمام اسٹیک ہولڈرز‘ بالخصوص دفاعی اداروں کو نہ صرف باخبر رکھے بلکہ انہیں شریک مشورہ رکھا جائے تاکہ وہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ ہونے سے بچانے کے اقدامات کر سکیں۔یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ طالبان کے ہاتھوں سب سے زیادہ زک دفاعی اداروں نے اٹھائی ہے۔ان کے اعلیٰ ترین افسر اور بہترین جوان شہید ہوئے۔فطری طور پرفورسز میں شدت پسندوں اور ان کی قیادت کے خلاف شدید غم وغصہ پایاجاتاہے۔دفاعی اداروں نے اپنا خون بہا کر قبائلی علاقہ کے چپے چپے کی حفاظت کی ہے لہٰذا انہیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ مذاکراتی عمل سے ان کی پوزیشن کمزور ہوگی اور نہ کوئی ایسا معاہد ہ کیاجائے گا جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں فوجی کامیابیوں سے ہاتھ دھونے پڑیں۔یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ تحریک ِطالبان پاکستان پر غیر ملکی اداروں بالخصوص افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی)کا اثر ہی نہیں بلکہ وہ مکمل طور پر اس کے حصار میں ہے۔اس کی اجازت کے بغیر وہ پر نہیں مار سکتے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کچھ ایسے ٹھوس اقدامات کیے ہیں جو افغان حکومت کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں سے ہاتھ اٹھانے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ایسے مزید اقدامات سے افغان حکومت کو رضامند کیا جاسکتاہے کہ وہ پاکستان کے اندر قیام امن کے لیے پاکستان کا ساتھ دے۔ ٹی ٹی پی میں افغان خفیہ اداروں کا عمل دخل کم کرانے کے لیے بھی اقدامات کیے جانے ضروری ہیں ۔ جب تک ٹی ٹی پی کا این ڈی ایس سے اشتراک رہے گا وہ مذاکرات کے عمل کو محض وقت گزاری اور اپنے آپ کو از سر نو منظم کرنے کے لیے استعمال کرتے رہیں گے اور بعد میں کسی بھی بہانے سے شہریوں اور دفاعی اداروں پر چڑھائی کا موقع نکال لیں گے۔
ٹی ٹی پی کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔وہ قبائلی علاقہ میں اپنی مرضی کا نظام حیات نافذ کرنا چاہتی ہے۔ وہ جدید تصورِ جمہوریت اور قومی ریاست یعنی نیشنل سٹیٹ کے تصور سے بھی ناآشنا ہے۔اسی لیے ٹی ٹی پی کے پاس مذاکرات کوکامیاب بنانے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ مذاکرات کے پیچیدہ عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے جس سطح کی صلاحیت یا استعداد درکار ہوتی ہے‘ وہ بھی ٹی ٹی پی کے پاس دستیاب نہیں۔مذاکرات کا عمل شروع ہوتاہے تو وہ ایک عالمی ایجنڈا پیش کردیتے ہیںاور اس کے بعد قبرستان کی سی خاموشی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حامی یا اس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے انہیں سیاسی ایجنڈا مرتب کرنے میں مدد دیں۔ ایسا ایجنڈا جو قابل عمل ہو اور حکومت پاکستان اس پر سودابازی کی پوزیشن میں بھی ہو۔ یہ ایک آخری موقع ہے جس سے استفادہ کرکے خطے میں خون خرابہ روکاجا سکتاہے۔وزیراعظم نواز شریف خلوص کے ساتھ مسئلہ کا حل چاہتے ہیں۔ انہوں نے تمام تر دبائو کے باوجود اپنا وزن مذاکرات کے پلڑے میں ڈال کر ثابت کیا ہے کہ وہ امن اور مذاکرات کے علمبردار ہیں اور جنگ وجدل کو پسند نہیں کرتے۔لہٰذا اس موقع کا فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
ٹی ٹی پی کوئی اکائی نہیں بلکہ مختلف قبائل اور مذہبی خیالات رکھنے والے شدت پسندوں کا اتحاد ہے۔مذاکراتی عمل میں تمام گروہوں کو شریک رکھنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ محض ایک گروہ کے ساتھ مذاکرات سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ دوسرے گروہوں کو مشتعل کرنے کا سبب بن جاتاہے۔ بسا اوقات وہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے تخریبی کارروائیوں میں شدت لاسکتے ہیں۔کوشش کی جائے کہ تمام گروہوں کو اس عمل کا حصہ بنایاجائے تاکہ ایک جامع امن عمل کی داغ بیل ڈالی جاسکے۔
دفاعی اداروں اور مذاکراتی ٹیم کی کوششیں اپنی جگہ لیکن ان عناصر کو نظریاتی اور فکری محاذ پر شکست دیے بغیر دیر پا کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔یہ کام دائیں بازو کے دانشور بڑی سہولت کے ساتھ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے پاکستان کی بقا اور شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کی جنگ لڑنے کے بجائے ہمیشہ دہشت گردوں کا مقدمہ لڑا۔جس کے نتیجے میں شہریوں کی ایک بھاری تعداد نے شدت پسندوں کے تصور اسلام اور سیاسی خیالات کو پذیرائی بخشی ۔افسوس!میڈیا کے ایک بڑے حصہ نے بھی اسی نقطہ نظر کو پذیرائی عطاکی ۔ریاستی اداروں نے بھی ان عناصر کو ڈھال بناکر امریکہ کے خلاف ملک گیر سطح پر فضا بنائی۔ 
وزیراعظم نوازشریف نے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر ہی دیا ہے تو اسے کامیابی سے ہمکنار کرانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر لانے کے لیے وزیراعظم کو خود اپنی ٹیم کو راہنمائی فراہم کرنا ہو گی۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں