"IMC" (space) message & send to 7575

شکریہ پاکستان!

ہر سال پاکستان کے عوام اور حکومت سیاسی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر کشمیریوں سے نہ صرف علامتی اظہار یکجہتی کرتے ہیں بلکہ مسئلہ کے حل تک اپنی حمایت جاری کرنے کے عزم کی تجدید بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک غیر معمول سرگرمی اور انداز ِمحبت ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ پانچ فروری کی ہڑتال دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ کشمیر ایک زندہ مسئلہ ہے اور پاکستان کے طول وعرض میں لوگ اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان بری طرح کمزور ہوا ہے۔معاشی دیوالیہ پن اور امن وامان کی بدترین صورت حا ل نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔مجھے تو کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس قابل نہیں رہا کہ کشمیر کا مقدمہ لڑ سکے یا موثرسفارتی اور سیاسی حمایت فراہم کر سکے اور اس کی وجہ اس کے داخلی مسائل ہیں۔ کئی عشرے بیت جانے کے باوجود افغانستان بدستور ایک ایسا ناسور بنا ہوا ہے جس سے جان چھڑانے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ مہاجرین ہی نہیں بلکہ افغان شدت پسند گروہوں نے بھی پاکستان کو اپنی آماج گاہ بنا رکھا ہے۔ نتیجتاً اسے عالمی طاقت کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتاہے۔افغان جنگ نے پاکستان کوعالمی برادری کے مدمقابل کھڑا کردیا ہے۔افسوس! اس بندگلی سے باہر نکلنے کی ہر کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔
اس کے برعکس بھارت نہ صرف طاقت ور ہوا بلکہ وہ دنیا کی ایک بڑی معاشی قوت بن کر ابھرا ہے ۔اس کا ایسا جادوچلا کہ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دورئہ بھارت کا آغاز ممبئی سے کیا تاکہ وہ بھارتی سرمایہ کاروں کو آمادہ کرسکیں کہ وہ امریکہ میں سرمایہ کاری کریں اور امریکی شہریوں کو روزگار فراہم کرنے میں مدد دیں۔لگ بھگ یہی حال دوسرے بڑے مغربی ممالک کا ہے۔ راقم کچھ عرصہ پہلے برطانوی دفتر خارجہ کے زیراہتما م چلنے والے تھنک ٹینک چاتھم ہاؤس میں موجود تھا جو رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ان کے ایک سکالر سے تبادلہ خیال جاری تھا ۔ کہنے لگے کہ دہلی میں قائم برطانوی ہائی کمیشن نے ہمیں سختی سے ہدایت کی ہے کہ ہم بھارت میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر آنکھیں بند رکھیں اوربالخصوص کشمیر پر کوئی بیان جاری نہ کریں۔انہوں نے بتایا کہ ہماری ترجیح تجارت ہے نہ کہ انسانی حقوق۔ یہی وجہ ہے کہ 2008ء اور 2010ء کے عظیم الشان عوامی مظاہروں اور احتجاج پر مغربی دنیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس کے برعکس عرب بہار پر پوری دنیا اٹھ کھڑی ہوئی۔ انہوں نے عرب حکمرانوں کو پیغام دیا کہ وہ اپنا بوریا بستر گول کریں۔
تحریک مزاحمت جو نوے کی دہائی میں ایک مضبوط قوت تھی‘ اب بتدریج تحلیل ہوچکی ہے۔ عسکریت لگ بھگ دم توڑچکی ہے۔حریت کا نفرنس جو کسی زمانے میں کشمیریوں کی موثر آواز اور شناخت تھی‘ نہ صرف کمزور ہوچکی ہے بلکہ اب اس کے تین دھڑے بن چکے ہیں۔پیرانہ سالی کے باوصف سیّد علی گیلانی کی مقبولیت اور اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے کیونکہ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت کو چیلنج کرتے ہیں اور روایتی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ دہلی کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات یا تبادلہ خیال کے وہ حامی نہیں لہٰذا نوجوان انہیں پسند کرتے ہیں۔میرواعظ عمر فاروق اور شبیر شاہ بھی دوگروپوں میں بٹ چکے ہیں۔ جناب یاسین ملک کی لبریشن فرنٹ اپنے طور پر سرگرم ہے۔ عالمی سطح پر جاری مہم کو ڈاکٹر غلام نبی فائی کی گرفتاری سے زبردست دھچکا لگا۔ کشمیر سنٹر لند ن اور برسلز بھی بند ہوچکے ہیں ۔آزادکشمیر کی حکومت عالمی سطح پر کشمیرکاز کا مقدمہ لڑا کرتی تھی مگر اب مظفرآباد میں ایک''گونگی بہری‘‘حکومت ہے۔ وزیراعظم چودھری عبدالمجید ہوں یا دیگر عمال حکومت‘ انہیں زبان وبیان پر قدرت نہیں بلکہ وہ مسئلہ کی پیچیدگیوں کا ادراک بھی نہیں رکھتے۔وہ اپنا وقت اور توانائی وہاں صرف کرتے ہیں جہاں نقد فائدے کا امکان ہوتاہے۔ 
میر واعظ عمر فاروق اور چندایک دوسرے کشمیر ی رہنمائوں نے بھارت کے ساتھ براہ راست بات چیت کا عمل شروع کیا تھا جو گزشتہ کئی برسوں سے رکا ہوا ہے۔پاک بھارت مذاکرات کاحا ل اس سے بھی زیادہ خستہ ہے۔بھارت میں سیاستدان ہوں یا عام شہری‘ وہ پاکستان کی نیت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔بات چیت تو کرنا چاہتے ہیں کہ لیکن انہیں شک رہتاہے کہ کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ یا '' دھوکہ ‘‘ہو سکتا ہے۔ کارگل اور ممبئی کے واقعات نے بھارت سرکاراور عوام کو یکساں طور برانگیختہ کیا۔
اس پس منظر میں کشمیری نوجوانوں اور عوام میں زبردست مایوسی پائی جاتی ہے۔وہ اپنی جدوجہد سے دست کش نہیں ہونا چاہتے بلکہ اسے کسی منطقی انجام تک پہنچانے کے آرزومند ہیں۔ گزشتہ ہفتے کشمیر میں چند ایک عسکریت پسندوں کے جنازے میں ہزاروں شہریوں نے شرکت کی جو اس امر کا اظہار ہے کہ عام کشمیری اپنی جدوجہد سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بہت سارے تجزئیے اور جائزے بتاتے ہیں کہ انسانی حقو ق کی پامالیوں، سیاسی جدوجہد کے راستہ بند ہونے اور بے نتیجہ مذاکراتی عمل کے سبب عام نوجوانوں میں نہ صرف مایوسی پائی جاتی ہے بلکہ و ہ تیزی سے انتہاپسند عالمی جہادی ایجنڈے کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد کشمیر ی عسکریت پسندی نئی انگڑائی لے سکتی ہے اور کشمیر کی گلیوں محلوں میں معرکہ آرائی کا نیا باب رقم ہوگا۔
پانچ فروری کے موقع پر مظفرآباد میںوزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔انہوں نے حیرت انگیز طور پر کنٹرول لائن پر جاری آمد ورفت اور تجارتی سرگرمیوں کو نہ صرف ''اون‘‘ کیا بلکہ ان کی بھرپور حمایت کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ وزیراعظم نے تاسف کا اظہار کیا کہ قائداعظم کے ویژن کے مطابق پاک بھارت تعلقات امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات کے طرز پر ہونے چاہئیں تھے لیکن کشمیر کے سبب ایسا نہ ہوپایا۔
وزیراعظم نوازشریف کے پاس خطے کی ترقی اور خوشحالی کا ایک جامع اور ٹھوس ویژن ہے ؛ تاہم یہ ویژن اس وقت تک حقیقت کا روپ دھارتانظر نہیں آتا جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بلکہ خود وزیراعظم جس طرح شدت پسندی اور توانائی کی کمی دور کرنے کے مسئلے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں‘ مسئلہ کشمیر کی بھی خود نگرانی کریں۔اس حوالے سے اپنے سیکرٹریٹ میں ایک باقاعدہ اعلیٰ سطحی سیل قائم کریں۔ایسے افراد سے صلاح مشورہ کریں جو روایتی سانچوں اور ڈھانچوں سے اوپر اٹھ کر سوچنے اور دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جو ادارے اس وقت تک کشمیر پر فیصلہ سازی کے ذمہ دار ہیں‘ وہ تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ہیں۔وہ کشمیر پر سوائے '' اسٹیٹس کو ‘‘برقرار رکھنے کے‘ کچھ سوچنے کی موڈ میں نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتے ہیں۔
یاسین ملک صاحب نے ایک مرتبہ دلچسپ بات بتائی کہ دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر جلیل عباس جیلانی نے انہیں کہا کہ سری نگر مظفرآباد بس سروس ان کی نعش پر سے گزر کرچلے گی۔ چند دن بعد سری نگر مظفرآباد بس سروس نہ صرف چلی بلکہ صدر پرویز مشرف نے کہا کہ وہ خود چکوٹھی میں مسافروں کا خیر مقدم کریں گے۔ انہیں بڑی مشکل سے ایسا کرنے سے روکا گیا۔ بسااوقات سیاسی قیادت کو اداروں کے بے لچک نقطہ نظر کو نظرانداز کر کے آگے بڑھنا ہوتاہے۔کشمیر پالیسی کو نئے قالب میں ڈھالنے اور اسے ایک اعتدال پسندانہ شناخت دینے کی ضرورت ہے۔سخت گیر عناصر سے جان چھڑا کر خطے میں مفاہمت کی فضا پیدا کی جانی چاہیے تاکہ ماضی کی تلخیوں اور نفرتوں کو دفن کیا جاسکے۔کشمیر پاک بھارت تعلقات کے لیے ایک پل کا کردار بھی ادا کر سکتاہے بشرطیکہ خلوص اور دیانت دارانہ کاوشیں کی جائیں۔ آخرمیں یہی کہوں گا کہ23برس سے ہر سال پانچ فروری کو ہڑتال کرنے پر شکریہ پاکستان نہ کہنا زیادتی ہو گی۔شکریہ پاکستان!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں