"IMC" (space) message & send to 7575

مذاکرات سے فرار کا آغاز

سرکاری اورطالبان کمیٹیوںکے مابین مذاکراتی عمل ایک خطرناک رخ اختیارکرگیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ پورے ملک میں نفاذِ شریعت کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے ۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے مذاکرات میں قرآن و سنت کو شامل کیے جانے تک مذاکراتی عمل کے بائیکاٹ اور اس سے علیحدگی کا اعلان کرکے مذاکراتی عمل کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مولانا عبدالعزیز نے پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ فرماتے ہیں: حکومت آئین پاکستان کے تحت مذاکرات کرنا چاہتی ہے اور طالبان آئین کو مانتے ہی نہیں، تو پھر مذکرات کیسے؟ 
ذرا گہرائی میں جاکر دیکھیں تویہ بیانات مذاکرات سے فرار کا محض ایک بہانہ محسوس ہوتے ہیں۔ جب سے مذاکراتی عمل شروع ہوا ہے طالبان کی صفوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں کیونکہ وہ کوئی سیاسی تحریک نہیں۔ وہ شہریوں کے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں اور نہ ہی قبائلی علاقہ جات میں انتخابات یا ذمہ دار حکومت کے قیام کامطالبہ کرتے ہیں بلکہ وہ چند ایسے گروہ ہیں‘ جنہوں نے طاقت کے زور پر ریاستی پالیسی تبدیل کرانے کا پُرخطر راستہ اختیار کیا اوراب مذاکراتی عمل میں شریک ہونے سے ان کی داخلی کمزوریاں کھل کرسامنے آگئیں۔
میرے خیال میں طالبان ترجمان اور مولانا عبدالعزیز ایسی فضا پیدا کررہے ہیں کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میںملبہ حکومت پرپڑے ۔ وہ نفاذشریعت کو مذاکرات کا بنیادی نکتہ بناکر حکومت سے ٹکرائو پیدا کرنے کے خواہش مند نظرآتے ہیں تاکہ وہ جھنجھلاہٹ میں مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کردے۔اس صورت میں طالبان اپنے حامیوں کو یہ باورکراسکیں گے کہ طالبان نے شریعت کے نفاذ کی خاطر مذاکراتی عمل کو ٹھوکر ماردی۔ اسی طرح ان کے حامی اور مددگار انہیں خراج تحسین پیش کریں گے کہ انہوں نے مفاہمت کے بجائے ''عزیمت‘‘کی راہ اختیار کی۔ 
حقیقت یہ ہے کہ طالبان قیادت اور جنگجوئوں کی صفوں میں مذاکراتی عمل کا حصہ بننے پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ مذاکرات شروع کرنے سے پہلے وسیع پیمانے پر بحث مباحثہ نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی ہرگروہ کو اعتماد میں لینا ممکن تھا۔علاوہ ازیں وہ اسبا ب ابھی تک اپنی جگہ قائم ہیںجن کے ردعمل میں تحریک طالبان پاکستان معرض وجود میں آئی تھی۔ پاکستان اور امریکہ کا اتحاد اپنی جگہ قائم ہے ، افغانستان میں صدر حامد کرزئی کی منتخب حکومت نہ صرف دوسری مدت اقتدار پوری کرنے والی ہے بلکہ اگلے چند ماہ میں افغانستان میں تیسری مرتبہ انتخابات بھی ہونے کو ہیں۔ امریکہ انخلا کے باوجود پوری طرح افغانستان چھوڑ کر نہیں جارہا بلکہ اس کے دس ہزار کے لگ بھگ فوجی وہاں مقیم رہیں گے۔ظاہر ہے کہ طالبان نے جن مقاصد کے حصول کے لیے ہزاروں بے گناہ پاکستانی اور افغان شہریوں کا خون بہایا تھا وہ پور ے نہیں ہوئے۔ 
طالبان کے اندرونی حلقوں میں بے چینی کا پیدا ہونا فطری ہے۔ نجی مجالس میںیہ سوال پوچھاجاتاہے کہ آخر اتنی قربانی اور خون ریزی سے حاصل کیا ہوا؟درمیانے درجے کے کمانڈر یہ سوال کثرت سے پوچھتے ہیں کہ مذاکرات کے نتیجے میں ہمارا ایجنڈا کیسے پورا ہوگا؟انہیں خدشہ ہے کہ جنگ بندی سے ریاست کی رٹ مضبوط ہوگی نہ کہ ان کی۔امن سے ریاست مستحکم ہوتی ہے اور عام لوگ معمول کی زندگی بسر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ حکومت اور طالبان میں جنگ بندی ہوتی ہے تو طالبان کے مختلف دھڑوں کو خدشہ ہے کہ قبائلی علاقوں میںمعمول کی زندگی بحال ہوجائے گی۔ایک بار شہری روزمرہ کی معاشی ،تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں میں مگن ہو گئے تو طالبان کی تنظیمی طاقت زائل ہوجائے گی ، نئے سیاسی اور سماجی ڈھانچے معرض وجود میں آجائیں گے اور جنگ بندی کے بعد ریاست تیزی سے متبادل کے طور پر سامنے آئے گی اور وہ اپنی انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کے طویل تجربے اور بے پناہ مالی وسائل کے استعمال سے ان کے حامیوں کے قلب وذہن میں نقب لگانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
ایک باخبر شخص نے بتایاکہ ''شہدا ‘‘ کے خاندان بھی طالبان کمانڈروں کے گلے پڑ رہے ہیں کہ وہ امن کی تلا ش میں ہیں جبکہ 
ان کے پیارے اس راہ میں جہانِ فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ استفسار کیا جاتاہے کہ حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد ریاستی اداروں ،ڈرون حملوں اور باہمی تصادموں میں جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں کی کفالت کون کرے گا؟طالبان کے حامی اس لیے بھی سخت اضطراب کا شکار ہیں کہ جنگ بندی کے مابعد ان علاقوں میں نہ صرف پرانی دشمنیاں جاگ اٹھیں گی بلکہ حالیہ برسوں میں جو قتل وغارت گری ہوئی اس کے زخم بھی ہرے ہوجائیں گے ۔ طالبان کے حامیوں کے خلاف بدلے کی فضا پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ ان کے ہاتھوں جو ان گنت شہری گھائل ہوچکے ہیں ان کے لواحقین انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اوربدلہ لینے کے لیے موزوں وقت کی تاک میں ہیں۔
ان علاقوں میں موجود غیر ملکی عرب، افریقی، یورپی، تاجک اور ازبک بھی مذاکرات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کی بقا کا راز جنگ وجدل میں مضمرہے۔مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ان غیر قانونی باشندوں کو پاکستان کی سرحدوں سے باہر جائے پناہ تلاش کرنا ہوگی ۔دوسری صورت جیل یاترا یا فورسز کے ساتھ معرکہ آرائی ہے۔غیرملکیوں کی حقیقی تعداد کے اعدادوشمار دستیاب نہیں ، سلامتی سے متعلقہ ادارے ان کی تعداد ہزار وں میں بتاتے ہیں۔ان میں سے بیشترجنگجو ہیں جو صرف بارود کی زبان میں کلام کرتے ہیں اور اسی پیرائے میں جواب آں غزل سننے کے عادی ہیں۔انہوں نے 
افغانستان میں متحارب امریکی فوجوں کو کم ہی ہدف بنایا، زیادہ تر پاکستان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ان کے پہلو بہ پہلو پنجابی طالبان بھی مذاکرات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ شدت پسند گروہوں کو مذاکرات کی کامیابی میں اپنی تباہی دکھائی دیتی ہے۔
جیلوں یا ریاستی اداروں کی حراست میں طالبان بھی اپنے مستقبل کے بارے میںمتفکر ہیں ۔محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار کے لگ بھگ قیدیوں کے علاوہ ایک خاصی بڑی تعداد سرکاری اداروں کی حراست میں ہے ۔ان افراد کے خاندانوں کا بھی طالبان قیادت پر دبائو ہے کہ وہ ان کی رہائی کو ترجیح دیں لیکن طالبان جانتے ہیں حکومت شدت پسندوں کو رہاکرنے کا خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی عدالتیں اس کی اجازت دیں گی۔ علاوہ ازیں جیسا کہ عرض کیا ہے کہ طالبان کی قیادت کے اندر مذاکرات پر کوئی یکسوئی نہیں۔
داخلی مسائل اور چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کی خاطر طالبان ایک ایسا مطالبہ سامنے لائے ہیں جس پر عمل درآمد کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں۔وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ملکوں کے نظام اور آئین محض کسی ایک گروہ کی خوشنودی کی خاطر نہیں بدلے جاتے ۔ دستور میں تبدیلی کے مجاز اس کے عوام ہیں جو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے آئین میں ترامیم کرتے رہے ہیں۔ ملک کی بڑی مذہبی جماعتوں کے قائدین متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہے اور اس میں مزید کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ کچھ غیر ملکی طاقتیں اور ادارے بھی پاکستان میں امن نہیں چاہتے ۔ وہ مختلف گروہوں اور شخصیات کے ساتھ تعلقات کو استعمال کرکے اس عمل کو سبوتاژکرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں