وزیراعظم ہائوس اسلام آباد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر قائم لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا طالبان کا بنیادی مطالبہ نہیں بلکہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ اساسی مطالبہ ہے۔اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر کان نہ دھرے تو قبائلی علاقہ جات میںپانچ سو کے قریب خواتین خود کش بمبار تیار ہیں۔موصوف عوام کو خوف زدہ کرنے کی غرض سے کہتے ہیں:خودکش بمبار کا فوجی طاقت سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔وہ امریکہ کو بھی تباہ کرسکتے ہیں۔موصوف گزشتہ چند ہفتوں سے ایک بار پھر سرگرم ہوچکے ہیں۔ شان وشوکت اور تسلسل سے ٹی وی سکرینوں پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ سرعام تشدد پر اکساتے ہیں۔ میڈیا انہیں پرائم ٹائم شوز میں نہ صرف مدعو کرتاہے بلکہ بسااوقات ایسا لگتاہے کہ ان کے خیالات عالیہ سے شہریوں کو مستفیدکرنے کے لیے چینلز میںمسابقت چل رہی ہے۔ مولاناسرعام کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ حکومت حاصل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال پر نہ صرف اصرار کرتے ہیں بلکہ ماضی میں اس کا ناکام مظاہر ہ بھی کر چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب حقوق مانگنے سے نہیںملتے تو لوگ ہتھیار اٹھاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین جیسے جہاندیدہ سیاستدان اور پاکستان کی ایک بہت بڑی شخصیت نے مولانا عبدالعزیز کو متعدد مقدمات سے رہائی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کی پیٹھ ٹھونکی۔جناب اعجاز الحق کی طرح کے سینئر سیاستدان ان کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیے رہتے ہیں۔اعلیٰ سرکاری افسر بھی ''دربار ‘‘ سے فیض پاتے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ موصوف نے لال مسجد کو کیسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا‘شہر کے شرفا ان کے ہاں حاضری ضروری سمجھتے ہیں۔
خدا خیر کرے،اب یہ حضرت دوبارہ لنگوٹ کس کر منظر عام پر آچکے ہیں۔ماضی میں لال مسجد پر جو قیامت گزری وہ غالباً اسے دہرانا چاہتے ہیں۔ان کے سیاسی عزائم اورجو ش وخروش میں کوئی فرق نہیں پڑا۔وہ وہی کہانی دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں درجنوں سادہ لوح نوجوانوں نے ہتھیار اٹھائے اور پیوند خاک ہوگئے۔بے گناہ اور معصوم بچیوں کا خون بہا۔پاکستان آج تک اس حادثے کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ معصوم عورتوں اور بچیوں کی چیخ پکار ابھی تک کانوں میں گونجتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ مولوی عبدالعزیز کو شہ دینے والے بھی دوبارہ متحرک ہوچکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد سے ایک سینئر صحافی نے ذاتی موبائل سے ان کے طالبان سے رابطہ کرائے۔ انہیں قائل کیا گیاکہ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے کا یہی وقت ہے۔ بعد میں انہیں ٹی وی پر لایاگیا۔ ایک اور سینئر صحافی ایک کالعدم تنظیم سے رابطوں میں ہیں اور انہیں مشاورت فراہم کرنے میں بھی پیش پیش ہیں ۔اگرایک اعلیٰ حکومتی عہدے دار نے بیچ بچائو نہ کرایا ہوتا تو اب تک گرفتار ہوچکے ہوتے ۔یہی نہیں بلکہ ایک معاصر کی اطلاع کے مطابق مولانا مسعود اظہر بھی ایک بار پھر متحرک ہوچکے ہیں۔مظفرآباد میں انہوں نے ایک اجتماع سے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ایسا لگتاہے کہ حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے چند لوگوں کو پھر سے کام مل گیا ہے۔
دوسری طرف محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی ادارے کو قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کی فکر نہیں۔ ایسے قوانین موجود
ہیں جو تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف کارروائی کی اجازت دیتے ہیں۔ ان پر عمل درآمد تو درکنار ‘ان کا ذکر ہی گول کردیا جاتا ہے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت تشدد یا نفرت پر اکسانے والے مواد کی اشاعت یا ایسے فرد پر توجہ دینا جرم ہے جسے دہشت گردی کی کارروائی یا کالعدم تنظیم سے وابستگی کی بنیاد پر سزادی جاچکی ہو۔ اس قانون کے مطابق ہر وہ شخص مجرم ہے جو مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی نفرت کو ہوا دیتاہو یا پھر ایسا شخص جو دہشت گردی کے جرم میں سزا یافتہ شخص یا کالعدم تنظیم کو مثبت انداز میں پیش کرے۔ اگر اس قانون پر عمل درآمد ہوتو کوئی بھی ادارہ ایسے خیالات کے پرچار کا تصور بھی نہ کر سکے۔ تین برس قبل پیمرا نے دہشت گردوں کی کارروائیاں نشر کرنے پر جرمانہ کیا تھا جس کے بعد ٹی وی چینلز نے اپنے طور پر ایسے اقدامات کیے کہ شدت پسندوں کی سرگرمیوں کی کوریج محدود ہوگئی۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عام پاکستانی ہی نہیں بلکہ خواص بھی قومی مسائل سے لاتعلق ہو کر گوشہ نشینی اختیار کرچکے ہیں۔لوگ سمجھ چکے ہیں کہ ریاست مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے لہٰذا وہ خاموشی سے اپنا وقت پورا کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ نے بہت سے ایشوز پہ سوموٹو ایکشن لیے جو نہ صرف حکومتوں کو راہ راست پر لانے کا باعث بنے بلکہ ایک طرح کی سماجی تبدیلی کا دروازہ بھی کھلا۔کیا ہی اچھا ہو کہ تشدد کو ہوا دینے والے بیانات یا واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے عدالت عالیہ بروئے کار آئے۔ جب بھی کوئی ممتاز شخصیت لوگوں کو تشدد یا نفرت پر اکسائے‘ عدالتیں خودبخود اس کے خلاف متحرک ہو جائیں۔ سول سوسائٹی کو بھی ایسے افراد کے خلاف سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے جو آئین کو نہیں مانتے اور نفرت پھیلاتے ہیں اور شہریوں کو پرتشدد کارروائیوں کرنے کی جانب راغب کرتے ہیں۔ان افراد کے خلاف عدالتوں کو متحرک ہونا چاہیے۔ حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ ایسے افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔ اس سلسلے میںمقامی پولیس اسٹیشن کو درخواستیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات نظرآتے ہیں لیکن دوررس اثرات پیدا کرسکتے ہیں ۔ اگر شہری اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا شروع کردیں تو ایسے افراد کا آسانی سے ناطقہ بند کیا جاسکتاہے جو لوگوں کے جان ومال سے کھیلتے ہیں ۔
ٹی وی چینلز اور اخبارات سوشل میڈیا سے عوامی رجحانات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ بعدازاں ان کی تحریروں اور گفتگوئوں میں سوشل میڈیا پر زیر بحث آنے والے موضوعات کی جھلک پائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے افراد کے خلاف مہم چلائی جانی چاہیے جو فساد پھیلاتے ہیں۔علاوہ ازیں ٹی وی چینلز کو ای میل اور خطوط بھی لکھے جانے چاہئیں تاکہ انہیں احساس دلایاجاسکے کہ عوام اس طرح کے لاحاصل مباحثوں اور کریکٹرز کو پسند نہیں کرتے۔