"IMC" (space) message & send to 7575

بلاول بھٹو کی سیاست کا نیا رخ

کل تک سیاسی پنڈت جس بلاول بھٹو زرداری کو معمولی اہمیت بھی نہیں دیتے تھے اب وہ قوم کے سیاسی افق پر خوب رنگ جما رہاہے۔سندھ میلے کی اختتامی تقریب سے پُرجوش خطاب کرتے ہوئے انہوں نے شدت پسندوں اور ان کے حامیوں کے خوب لتے لیے۔ شہدا کے ساتھ اپنا تعلق جتایا۔ایک ہی سانس میں ملالہ یوسف زئی کے ساتھ ہونے والے افسوس ناک سلوک کا ذکر کیا اور وطن کی بہو بیٹیوں کے تحفظ کی قسم بھی کھائی۔ بلاول کے لب ولہجے میں ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی گھن گرج ہے۔وہ بھٹو کی طرح سیاسی مخالفین کو نشانہ عبرت بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح حریفوں کا مذاق اڑاتے اور کارکنوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔بلاول میدان سیاست میں نووارد ہیں۔جیل گئے نہ کوڑے کھائے۔نوعمری میں والد ،آصف علی زرداری کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے دیکھا لیکن ذاتی طور پر مصائب کی بھٹی سے گزرے نہ تپتی دوپہروں میں الیکشن مہم چلائی۔اس کے باوجودان کی حالیہ تقاریر سے قیاس کیا جاسکتاہے کہ آکسفورڈ کی آغوش میں انہوں نے معروضی انداز میں سوچنے کا سلیقہ سیکھا۔ سیاسی لائحہ عمل کو ازسرِنو مرتب کرنے کی اہمیت جان گئے ہیں۔خاص طور پر آج کل جس سیاسی فکر اور خیالات کا اظہار بلاول بھٹو کررہے ہیں اُس سے اشارہ ملتا ہے کہ پیپلزپارٹی میں مستقبل کے حوالے سے بہت غورو فکر ہواہے۔ اب پیپلزپارٹی مختلف حکمت عملی کے تحت سیاست میں قدم جمانے کی کوشش کرنے جارہی ہے۔بلاول بھٹو پاکستان کے اس طبقہ کو اپیل کررہے ہیں جو روایتی طور پر بائیں بازو کا رجحان رکھتاہے یا پھر لبرل خیالات کا علمبردار ہے۔سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد روایتی لیفٹ اور لبرل اشتراکیت سے ایسے تائب ہوئے کہ انہوں نے غیر سرکاری اداروں کی چھتر چھایا میں پناہ ڈھونڈی۔پاکستان پر دائیں بازو کی فکر کا غلبہ ہوتاگیا لیکن اب یہ رجحان بھی زوال پذیر ہے۔
دفاعی اداروں سمیت سماج کا ایک موثر اور بڑا طبقہ مذہبی شدت پسندی کے خلاف یکسو ہے۔ عسکریت کو ملک کی بقا کے لیے ناسور تصور کرتاہے ۔اس کے خلاف معرکہ آرائی کے لیے آمادہ ہے لیکن کوئی بھی شخصیت اس کی آواز بننے کو تیار نہیں۔یہ لوگ نون لیگ اور تحریک انصاف کے کردار سے مایوس ہیں۔وہ ان دونوں جماعتوں کی کنفیوزڈ اور دوغلی پالیسیوں کی بدولت ملکی کشتی کو ڈوبتاہوادیکھ رہے ہیں۔ان دونوں جماعتوں پر ایسے عناصر کا غلبہ ہے جو پاکستان کو درپیش مسائل کی گہرائی کا ادراک نہیں رکھتے۔وہ لیپاپوتی سے کام لیتے ہیں بلکہ بسااوقات گمان گزرتاہے کہ وہ مسائل سے نبردآزماہونے سے خائف ہیں او رمحض وقت گزاری کے لیے بہانے تراشتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے اندر ایک حلقے کو احساس ہوچکا ہے کہ انہیں وہ جگہ واپس لینا ہوگی جو ان کی نالائقیوں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے خالی پڑی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کا خیبر پختون خوا اور کراچی میں سیاسی جنازہ اٹھنے سے بائیں بازو اور لبرل سیاست کرنے والوں کی آواز مزید کمزور ہوئی۔متحدہ قومی موومنٹ جو کراچی اور حیدرآباد کی لبرل جماعت ہے، ان دنوں سخت دبائو کا شکار ہے۔شہر کی پشتون آباد ی میں طالبان کے لیے پائی جانے والی حمایت اور ان کی عسکری طاقت نے ایم کیوایم کو مشکلات کا شکارکررکھا ہے۔ایک جائزہ کے مطابق شہر کے بڑے حصہ پر طالبان کے حامیوں کا غلبہ ہے۔
دوسری جانب ایم کیوایم برطانیہ میں عمران فاروق کیس کے باعث سخت مشکلات کا شکارہے۔کراچی میں جاری رینجرز آپریشن نے بھی اس کے کس بل نکال دیئے ہیں۔خدشہ ہے کہ برطانیہ میں جاری تحقیقات الطاف حسین کے خلاف کوئی ناگوار رخ اختیار کرسکتی ہے۔ اگر برطانوی پولیس اورعدالتیں ان کے خلاف فیصلہ کرتی ہیں تو الطاف حسین ایم کیوایم کو قیادت فراہم کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔اس تناظر میں کراچی اور حیدرآباد میں بھی سیاسی خلاء پیداہونے کا امکان ہے جو پیپلزپارٹی کے غیر متحرک ہونے سے دائیں بازو کی سیاسی جماعت بالخصوص تحریک انصاف پُر کرسکتی ہے۔
یہ محض پیپلزپارٹی ہی نہیں جسے قومی سطح پر شدت پسندی کے خلاف جنم لینے والی فضا کا احساس ہوا ہے بلکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی بتدریج طالبان سے فاصلہ پیداکرنا شروع کردیا ہے ۔وہ پولیومہم چلارہے ہیں اور اب طالبان کی شریعت کو مسترد کرنے کے عزم کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو لبرل اور انسان دوست شخصیت قراردیا ہے۔ پشاور میں ہونے والے پے درپے بم دھماکوں نے بھی ان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے بھی شدت پسندی کے خلاف اب ایک واضح موقف اختیار کرلیا ہے۔ ان کے سیاسی حریف مولانا سمیع الحق اور عمران خان کو طالبان نے جب سے سیاسی'' معتبری ‘‘عطاکی‘ مولانافضل الرحمن نہ صرف شاکی ہیں بلکہ اب وہ جمہوریت اور آئین کی پاسداری کے بڑے علمبردار بن کر سامنے آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے آپ کو انتہاپسندوں کے ہاتھوں زخم کھانے والا‘ منوانے پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ چند برس قبل وہ جلسوں میں کہا کرتے تھے : انتخاب کا راستہ روکا گیا تو انقلاب آئے گا۔یہ ان کی متحدہ مجلس عمل ہی تھی جس نے خیبر پختون خوا میں فوج کو طالبان کے خلاف آپریشن سے روکا۔بعد میں کہا کہ الیکشن کے لیے سازگار فضا تیارکرنے کے لیے آپریشن موخر کرنا ضروری ہے۔
جماعت اسلامی جو کسی زمانے میں مذہبی جماعتوں میں نسبتاً روشن خیال اور اعتدال پسند جماعت تصور کی جاتی تھی‘ اب سیّد منور حسن کی قیادت میں طالبان کی نظریاتی حلیف بن چکی ہے ۔تاہم جماعت کے اندر ایسے عناصر کی کمی نہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ ان کی جماعت کو ملک بچانے کی خاطر موثر کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ شدت پسندوں کے اقدامات کو سند جواز فراہم کرنا چاہیے۔ جماعت ان دنوں امیر کے انتخابی عمل سے گزررہی ہے۔اس کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کو اعتدال پسند سیاسی راہنماتصور کیا جاتاہے۔ اگروہ امیر منتخب ہوئے تو امکان ہے کہ جماعت کو واپس قومی دھارے میں لانے کے اقدامات کریں گے۔ اس طرح انتہاپسند دائیں بازو کی سیاست کسی حد تک کمزور ہوسکتی ہے۔
پاکستان کو ایسے سیاسی راہنما کی ضرورت ہے جو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف چٹان کی طرح ڈٹ جائے۔ ایسے نقطہ نظر اور سیاسی فکر کا مقابلہ کرے جو بے گناہ پاکستانیوں اور حفاظتی دستوں کے جوانوں کے قتل عام پر آنسو بہانے کے بجائے دہشت گردوں سے مذاکرات کا راگ الاپتی ہے۔ اس فکر کے حامل لوگ حکومت کو فیصلہ کن اقدام کرنے سے روکتے اور رائے عامہ کو گمراہ کرتے ہیں۔ نتیجتاً ریاست کمزور ہو رہی ہے اور شدت پسند طاقت ور۔بلاول بھٹو کے تیور یہ بتاتے ہیں کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے اور اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ اگر بلاول بھٹو ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈالنے کا سبب بن سکتاہے بلکہ ملک کو بھی بے حساب فائدہ ہوگا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں