"IMC" (space) message & send to 7575

حکومت کہاں ہے؟

عجیب اتفاق ہے کہ پرائم ٹائم میں لگ بھگ تمام اہم ٹیلی وژن چینلز پرمولانا سمیع الحق ،پروفیسر ابراہیم یا تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہداللہ شاہد حکومت اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات پر تبصرہ آرائی کرتے نظر آتے ہیں۔سرکاری کمیٹی ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم کی کیفیت کا شکار ہے۔ طالبان کے ترجمان اور حامی جو بھی دعوی کرتے ہیں سرکاری کمیٹی اس کی تصدیق کرتی ہے نہ تردید۔میڈیا پر طالبان کے نقطہ نظر کی یلغار ہے۔ میڈیا سے پرے رہ کر خاموشی سے مذاکرات کرنے کا منصوبہ ہے تو پھر سرکاری اور طالبان کمیٹیوں کو اس فیصلہ کی یکساں پابندی کرنی چاہیے ۔ 
طالبان اور حکومت کے درمیان جاری مذاکرات محض دوفریقوں کے مابین معمول کا مکالمہ نہیں بلکہ متحارب نظریاتی گروہوںکے درمیان جاری نفسیاتی جنگ ہے۔جنگ کا پانسہ اسی کے حق میںپلٹے گا جو رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں کامیاب ہوگا ۔ فی الحال ایسا نظر آتا ہے کہ سرکار کو نفسیاتی جنگ کے اس پہلو کا ادراک نہیں۔ کمیٹی میں اکثریت سرکاری افسروں کی ہے جن کی زندگی پردہ کے پیچھے رہ کر ڈوریں ہلانے میں گزری ہے اور وہ عوامی مزاج اور رجحانات کے شناسا نہیں۔وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان میڈیا اور عوام کے لیے دستیاب نہیں۔کہتے ہیں ڈی جی آئی ایس آئی نے وزیراعظم نواز شریف سے شکوہ کیا کہ انہیں بعض اوقات ہنگامی نوعیت کے معاملات پر مشاورت کے لیے وزیرداخلہ سے بات کرنا ہوتی ہے اور ان تک رسائی ممکن نہیں ہوتی ۔
حالیہ چند ماہ میں طالبان کو کئی محاذوں پر زبردست پسپائی ہوئی لیکن انہوں نے بڑی مہارت سے اپنی ناکامیوں کو میڈیا میںکامیابی بناکر پیش کیا ۔مثال کے طور پرطالبان کا مطالبہ تھا کہ آئین پاکستان کے دائرے میں بات چیت نہیں ہوسکتی ۔علاوہ ازیں ان کا اصرارتھا کہ جب تک قبائلی علاقہ جات سے فوجی انخلاء نہیں ہوتا، حکومت شریعت کا نفاذاور طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کرتی ،وہ مذاکرات کی میز نہیں بچھائیں گے۔بتدریج وہ ان مطالبات سے دستبردار ہوتے گئے۔ حکومت نے سرکاری کمیٹی کی صور ت میں ایک ڈھانچہ بنایا تو طالبان کو بھی جوابی ڈھانچہ کھڑا کرنا پڑا۔مطالبات اور شرائط کا تبادلہ ہوا۔حکومت کا موقف اور مشکلات بھی سامنے آئیںکہ اسے آئین پاکستان سے باہر مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ نہیں۔میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے دبائو کے باعث حکومت کو دوٹوک انداز میں کہنا پڑا کہ مذاکرات صرف شورش زدہ علاقوں تک محدود ہوںگے اور جلدجنگ بند ی کا اعلان ہو ناچاہیے تاکہ خون خرابہ رک سکے۔ 
مذاکرات تیزی سے بڑھ رہے تھے کہ دہشت گردی کے واقعات سے مذاکرات کی قلعی چاک ہوگئی اور قومی سطح پر یک دم اتفاق رائے پیدا ہوا کہ جو عناصر مذاکرات کے دوران بھی تخریبی کارروائیوں سے باز نہیں آتے ان سے مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔طالبان کے روایتی حامیوں کوبھی ان واقعات کی مذمت کرنا پڑی۔عمران خان پر اس قدر دبائو پڑا کہ ان کی پارٹی کے رہنما فوج کے ساتھ کھڑے نظر آئے ۔وہ پارٹی میں تنہا ہوتے جارہے تھے کہ انہوں نے اپنے موقف میںلچک پیدا کی اور کہا : جو طالبان حملوں سے باز نہیں آتے ان کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے۔فوج نے ائیرفورس کی مدد سے طالبان کے ٹھکانوں پر کامیاب حملے کیے ۔ان کے اہم کمانڈر ہلاک کردیئے گئے ۔ بالخصوص غیر ملکی شدت پسندوں کی پناہ گاہیں تباہ کی گئیں۔رائے عامہ کا بدلاہوا موڈ ، فوج کی بے لچک پالیسی اور اور ملک کے اندر اپنی حمایت کو زوال پذیردیکھتے ہوئے طالبان نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ مذاکرات کی بچھی ہوئی بساط سے فائدہ اٹھائیں اور اپنا وجود تحلیل ہونے سے بچائیں۔
طالبان کے مطالبات میںجوہر ی تبدیلی آچکی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مذاکرات کھلے ذہن اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہونے چاہئیں۔مذاکرات ایسی جگہ ہوں جہاں فوج نہ ہو ۔ان کے غیر عسکری قیدی بالخصوص عورتیں اور بچے رہاکیے جائیں۔اب آئین پاکستان کو تسلیم نہ کرنے کی بات ، شریعت کے نفاذ یا قبائلی علاقوں سے فوجی انخلا ء پر اصرار نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جو عمومی طور پر زیر بحث نہیں آتی۔ یہ کامیابی حکومت اورفوج کے ایک صفحے پرآنے ، سیاسی قیادت بالخصوص وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پورے پراسیس کی براہ راست رہنمائی اورنگرانی کے باعث ممکن ہوئی۔یہ حقیقت بھی تسلیم کرنے میں قطعاًہرج نہیں کہ اس عرصہ میں امریکہ بہاد ر نے بھی کمال مہربانی سے کوئی ڈرون حملہ نہیں کیا۔ اس دوران اگر ایک بھی ڈرون حملہ ہوجاتا تو مذاکرات کے پراسیس کا بوریا بستر گول ہوجاناتھا۔
دنیا بھر میں جہاں بھی پیس پراسیس چلا اور منطقی انجام کو پہنچا ،وہ سیاسی شخصیات یا سول سوسائٹی کے نمائندوں کے طفیل ممکن ہوا۔دفاعی اداروں بالخصوص فوج کی تربیت سیاسی چالیں چلنے یا حریفوں سے مذاکرات کرنے کی نہیں بلکہ دشمن پرکاری ضرب لگانے اور اس کا قلع قمع کرنے کی ہوتی ہے۔نائن الیون کے بعد سے قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں جو شورش چل رہی ہے اس کا توڑ کرنے کی ذمہ داری دفاعی اداروں ہی کے سپرد تھی لیکن کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔ اب قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میںقرار کی جو کیفیت پیداہورہی ہے اس کابڑا سبب یہ ہے کہ سویلین حکومت نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے ہیں ۔یہ ابدی حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ مذاکرات کی میز پر اسی وقت سودے بازی کی پوزیشن مستحکم ہوتی ہے جب عسکری قوت اس کی پشت پر ہو۔اس لیے اب ہر معاملے میں فوج کو گھسیٹنے اور خود ذمہ داری نہ لینے کی روش ترک کرنا ہوگی۔
اس وقت سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ طالبان کے ترجمان اور حامی اپنا نقطہ نظر کھلے عام بیان کرتے ہیں۔ کھلے عام پریس کانفرنسیں کرتے ہیں ۔اس کے برعکس حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔عوام اور صحافی خفیہ کاری کی اس پالیسی پر حیران ہیں کہ وہ حقائق کہاں سے اور کیسے معلوم کریں؟اس پراسیس کوشفاف بنانے کی خاطر حکومت کو اطلاعات کی فراہمی کاکوئی معقول نظام بنانا چاہیے۔طالبان کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ کیمرے کی چکاچوند میں مذاکرات نہیں ہوسکتے لیکن کم ازکم پراسیس کو شفاف بنانے اور عوام کو باخبر کرنے کا اہتمام تو کیا جاسکتاہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں