"IMC" (space) message & send to 7575

خورشید شاہ کا اعتراف

پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں ان کی جماعت حکومت کو غیرمستحکم کرنے بلکہ ختم کرنے میں ملک کی نادیدہ قوتوں کی آلہ کار بنی تھی ۔ انہوں نے حیرت انگیز بے باکی سے انکشاف کیا کہ ماضی میںمخالف جماعتوں سے رابطے کرکے انہیں حکومت کے خلاف سرگرمیوں پر اکسایا جاتا تھا۔ خورشید شاہ کا یہ بیان کوئی انوکھی کہانی نہیں سناتا ، قومی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے مطلب برآری کی گئی۔ شکر ہے کہ اب سیاستدانوں نے اس تلخ حقیقت کا نہ صرف ادراک کرلیا بلکہ وہ برملا اپنے کیے پر ندامت کا اظہار بھی کرتے ہیں ‘ ممکنہ حد تک غلطیوں کے ازالے کی کوشش بھی کرتے ہیں‘ تاہم ان تلخ تجربات نے سیاسی جماعتوں کو آمادہ کیا کہ وہ سیاسی اختلافات کے باوجود کھیل بگاڑنے اور حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے کسی منصوبے کا حصہ نہ بنیں۔
نوے کی دہائی میں حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے کا عمل جنرل (ر) پرویز مشرف کے مارشل لاء کے نفاذ پر انجام پذیر ہوا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے مشرف کے لیے ایوان صدر کی زمین تنگ کر دی اور وہ لندن کی سرد شاموں کو گرمانے برطانیہ جا بسے۔ اسلام آباد میں آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے پانچ برس تک حکومت کرنے کی خواہش تو پوری کرلی لیکن وہ مسلسل بحرانوں کا شکار رہی۔ اسے سکون سے حکومت کرنے کے لیے چند ماہ بھی نہ مل سکے۔ عدالتوں اور سلامتی سے متعلق اداروں کے ساتھ کشیدگی آخری دن تک جاری رہی۔ ان حالات میں پی پی پی کی پہلی ترجیح پانچ سال پورے کرنا تھی نہ کہ ریاستی اداروں پر سویلین بالادستی قائم کرنا۔ بے نظیر کی بے وقت رخصتی سے خود پیپلزپارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بری طرح کمزور ہوا۔ اکثر رہنما ئوں کوروپیہ جمع کرنے کی حرص نے کسی دوسرے کام کی مہلت ہی نہ دی ۔ چنانچہ پی پی پی کی حکومت نظام سدھارنے کے لیے کوئی بڑافیصلہ نہ کرسکی۔ پارٹی کو ہردم یہ احساس رہا کہ یہ ساجھے کی ہنڈیا ہے، وہ شریک اقتدار ہے‘ برسراقتدار نہیں ، اس لیے کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے گریزاں رہی۔
نون لیگ نے انتخابی مہم کے دوران بڑے دلیرانہ فیصلے کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ وہ خطے میں تعلقات اور دوستی کا نیا باب شروع کرنے کی متمنی تھی۔اس سلسلے میں وزیراعظم نواز شریف بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی کو نہ صرف کم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے رہے بلکہ وہ ان تعلقات کو گرم جوشی میں بدلنے کے خواہش مند ہیں، لیکن ان خواہشات اور عزائم کے باوجود وہ کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کر پا رہے ۔کہا جاتا ہے کہ پالیسی سازی کوئی اور کرتا ہے اور حکومت کی منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر چند ہفتے قبل حکومت بھارت کے ساتھ تجارتی پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ کرچکی تھی ، محض رسمی اعلان باقی تھا کہ یہ فیصلہ ملتوی کردیا گیا کیونکہ پالیسی سازوں کی اس میں مرضی شامل نہ تھی۔پرویز الٰہی جیسا سیاستدان بھارت کے ساتھ تجارت کا زبردست حامی رہاہے بلکہ جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے بھارتی اور پاکستانی پنجاب کے مابین دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے ،لیکن اب انہوں نے بھی بھارت کو پسندیدہ ملک قراردینے کو پاکستانی کسانوں کے مفادات سے کھیلنے کے مترادف قراردیا ہے ‘ گویااچانک یوٹرن لے لیا گیا ۔
بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کی حکومت قائم ہونے کے امکانات روشن ہوچکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پارٹی کے رہنما نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف کچھ بیانات دیے جن کے جواب میں پاکستان نے اگرچہ کوئی جوابی بیان تو جاری نہیں کیا لیکن وزیراعظم نواز شریف نے ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ میں امریکی صدر بارک اوباما سے درخواست کی کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کریں۔ وزیراعظم اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر بھی کر رہے ہیں حالانکہ پرویز مشرف ان قراردادوں کو قصہ پارینہ قراردے کر آگے بڑھنے کا اعلان کرچکے تھے۔ ایسا نظر آتاہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے فوری امکانات دھندلاتے جارہے ہیں ۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے میں بھی سکہ بند صحافی اور حربی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ حکومت اس معاملے میں پچھلی نشست پر خاموشی سے بیٹھ جائے اور تمام معاملات دفاعی اداروں کے سپرد کردے ۔ وہ میدان جنگ میںطالبان کے کس بل نکالنے کے بعد حکومت کو مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لیے مدعو کریں گے۔ اس نوع کے مشورے دینے والے یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ سیاسی عمل کی حرکیات کا ادراک سیاستدان ہی کرسکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں جن قوتوں نے ایک دوسرے پر سنگینیںتانی ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے ،کسی تیسری قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو مذاکراتی عمل کو منطقی انجام کی طرف لے کر جائے۔
وزیراعظم نواز شریف نے تمام اہم معاملات میں دفاعی اداروں کو مشاورت ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی کے عمل میں بھی شریک رکھا ہوا ہے تاکہ پیچیدہ مسائل پر مشترکہ اونرشپ ہو۔ 23 مارچ کو ایوان صدر میں کئی برس بعد یوم پاکستان کی تقریب ہوئی تو وزیراعظم کے اصرار پر تینوں افواج کے سربراہوںکو سلامی کے چبوترے پرکھڑا کیا گیا حالانکہ پروٹول کی کتاب ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ حکومت اور مسلح افواج کی قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں۔
ماضی کے برعکس دفاعی ادارے گزشتہ پانچ چھ برسوں سے بتدریج پس منظر میں گئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ دفاعی ادارے سیاستدانوں سے رابطوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ جن مسائل کی طرف خورشید شاہ نے اشارہ کیا‘ وہ اب رفت گزشت ہو چکے ہیں۔ دفاعی اداروں میں یہ احساس پایاجاتا ہے کہ ملک کو منجھدار سے نکالنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی۔ خفیہ ایجنسیوں میں قائم سیاسی سیل غیر موثر ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ امور ایسے ہیں جہاں حکومت کو نسبتاً زیادہ محتاط طریقے سے چلنا ہوگا، خاص طور پرحکومت کو پاک بھارت تعلقات،کشمیر اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملات میں بتدریج آگے بڑھنا ہوگا ۔ علاوہ ازیں ان امور پر دفاعی اداروں کو فیصلوں میں شریک رکھا جانا چاہیے تاکہ غلط فہمیوں کے خدشات کم سے کم ہوسکیں۔ دوسری جانب خوش قسمتی سے حزب اختلاف کی جماعتیں موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے موڈ میں نہیں بلکہ وہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ منتخب حکومت اپنی رٹ قائم کرسکے ، اہم فیصلے کرے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بناسکے۔اس سازگار فضا سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
حکومت کے پیش نظر یہ تلخ حقیقت رہنی چاہیے کہ سویلین بالادستی کا خواب معاصر دنیا میں صرف انہیں ممالک میں شرمندہ تعبیر ہوسکا جہاں ریاست امن قائم کرنے، مہنگائی کے جن کو قابو کرنے اور روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ پاکستان اس سمت سفر کا آغاز کرچکاہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ حکومت کو مسلسل اپنی کارکردگی کاجائزہ لینا ہوگا اور اسے بہتر بنانے کے اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کم ہو اور شہریوں کا ریاست پر کھویا ہوا اعتماد بحال ہو۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں