وزیراعظم نواز شریف نے بے پناہ مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کیا اور پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دی۔ یہ کوئی سہل فیصلہ نہ تھا کیونکہ پرویز مشرف محض ایک شخص کا نام نہیں بلکہ وہ ایک نظام کی علامت ہیں۔ آٹھ برس تک اس ملک کے بلاشرکت غیر ے حکمران ہی نہیں بلکہ سیاہ وسفید کے مالک رہے ہیں۔ امریکہ بہادر ان کی پشت پر تھا اور عرب شیوخ ان کی زلفوں کے اسیر۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج بش ان کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ برطانوی وزیراعظم ہوں یا جرمنی کے چانسلر، اسلام آباد کے دورے کرتے اورمشرف کی دانشمندی کے گن گاتے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں اور آزادکشمیر میں قیامت خیز زلزلہ آیا تومشرف ہی کی بدولت ممکن ہوا کہ عالمی برادری نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔
اس زمانے میں وزیراعظم شوکت عزیز نے بھی خوب رنگ جمایا۔ جائدادوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا، ارب پتیوں کی ایک نئی کھیپ وجود میں آئی اور ملک میں خوشحالی کی لہر دوڑی۔ خوشحالی کی کوکھ سے ملک گیر بے چینی کے بلبلے بھی اٹھے، مشرف امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ اتحاد میں توازن قائم نہ رکھ سکے۔ بغیر مشاورت کے پاکستان کے ہوائی مستقر امریکیوں کے حوالے کیے، وہاں سے ڈرون اڑتے اور قبائلی علاقہ جات پر حملہ آور ہوتے۔ موصوف فخر سے کہتے کہ انہوں نے ڈالروں کے عوض پاکستانی شہری امریکہ کے حوالے کیے۔ بارہا ایسا لگا کہ انہیں پاکستانیوں کی پیچیدہ نفسیات کا ادراک نہیں ۔ وہ اس سیاسی اور تہذہبی کشمکش سے بھی آشنا نہ تھے جو تحریک پاکستان کے پس منظر میںکارفرما تھی، اس لیے کبھی اتاترک کو اپنا ہیرو قراردیتے توکبھی گفتگو میں فرنگی دانشوروںکے اقوال کا حوالہ پیش کرتے۔ سرسیّد احمد خان ، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا محمد علی جوہر، نواب بہادر یار جنگ تو دورکی بات وہ غالب اوراقبال کی دہلیز سے بھی نہ گزرے تھے۔ پرویز مشرف پاکستانیوں کے اجتماعی ضمیر پر ایک بے جوڑ پیوند تھے۔
میڈیا آزاد ہوا تو بے مہار ہوگیا۔ پاکستانی میڈیا کا دائرہ محض پاکستان کے شہروں اوردیہی علاقوں تک محدود نہیں تھا بلکہ ستر لاکھ کے لگ بھگ بیرون ملک آباد پاکستانی بھی حالات کے پل پل سے باخبر رہتے۔ علاوہ ازیں وہ محض باخبر ہی نہیں رہنا چاہتے تھے بلکہ پاکستان کی سیاست اور معاشرتی زندگی کو متاثر بھی کرتے، ظاہر ہے جو کمیونٹی پندرہ ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ ملک کو فراہم کرے گی اس کے معاشرے پرگہرے اثرات فطری ہیں۔
اطلاعات کے آزادانہ تبادلے اور بحث ومباحثہ کی فضا بننے کی دیر تھی کہ پرویز مشرف کی طلسماتی شخصیت اپنی کشش کھونے لگی۔ میڈیا کی آزادی نے پاکستانیوں کا مزاج ہی نہیں، سیاسی کلچر کی ہیئت ہی بدل ڈالی۔ ٹی وی ٹاک شوز روایتی حریف سیاستدانوں کے درمیان تبادلہ خیال کا رسمی اورغیر رسمی فورم بن کر ابھرے۔ مسلسل گفتگو اور بحث ومباحثہ نے ملکی مسائل کی گرہیں کھول کررکھ دیں۔ ان ٹاک شوز میں سیاستدانوں کے درمیان ذاتی روابط بھی استوار ہوئے جو رفتہ رفتہ بااعتماد رشتوں میں ڈھل گئے، ان کے درمیان جو حجاب تھے وہ اٹھ گئے۔ قومی امور پر اتفاق رائے کی راہیں نکلیں اور ماضی کی دشمنیاں تحلیل ہوتی گئیں۔ علاوہ ازیں میڈیا پر ایسے بے شمار مباحث ہوئے جن میں سیاستدانوں اور ماہرین کو ایک دوسرے کے ساتھ سنجیدہ اور براہ راست مکالمہ کرنا پڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پرویز مشرف کی نہ صرف عوامی کشش اور افادیت ختم کردی بلکہ انہیں ماضی کا مزار بنادیا۔ لوگ ان کے دامن پر محترمہ کے خون کے دھبے تلاش کرنے لگے ۔ محترمہ کی شہادت نے ملک کی سیاست کی جہت ہی بدل دی۔ وہ دن اور آج کا دن، اس ملک میں آمریت کے حامی رسوا ہورہے ہیں، ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ سیاسی جماعتوں نے نوشتہ دیوار پڑھاکہ اگر وہ سیاسی نظام کو مستحکم بنانے کے لیے باہم اشتراک نہیں کریں گے تو ان کا حشر بھی بے نظیر بھٹو سے مختلف نہ ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ میں محترمہ کی شہادت ایک ایسا سنگ میل ہے جس نے ملکی سیاست کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس قربانی نے غیر جمہوری قوتوںکاراستہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔ وہ عناصر جو طاقت کے ذریعے اس ملک پر مسلسل قبضہ جاری رکھنااورلوگوں کو محکوم بنانا چاہتے تھے ان کے عزائم ناکام ہوئے۔ پیپلزپارٹی اور خود آصف علی زرداری نے غیر معمولی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا، وہ اگر موجودہ مصری حکمرانوں کی طرح چاہتے تو سینکڑوں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیتے، پھانسی گھاٹ کے دروازے واکردیتے، لیکن انہوں نے انتقام نہ لیا۔ یہ پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کی کمزوری نہیں بلکہ بہادری کی علامت ہے۔
اب وزیراعظم نواز شریف عرصہ امتحان میں ہیں۔ پرویز مشرف عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں، وہ معافی اوردرگرز کے طلب گار ہیں۔ اب تک ان پر جوگزری وہ بھی کچھ کم نہیں، وہ تین ماہ ہسپتال میں چھپے رہے، آئی سی یو میں پناہ لی اور والدہ کی عیادت کے بہانے فرارکی راہ ڈھونڈی۔ نالائق وکیلوں نے قانون کا مقابلہ جذبات سے کرنے کی کوشش کی، سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب ذوالقفارعلی بھٹو جیسا شعلہ بیان مقرر عدالتوں میں گھنٹوں طویل جذباتی تقریریں کرکے کچھ حاصل نہ کرسکا تو پرویز مشرف کے وکلاء ججوں یا عدالت کے خلاف مورچہ لگا کرکیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟
قانون کی بالادستی قائم کرنے سے کس کو انکار ہوگا ، لیکن تاریخ انسانی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں معاشرے اور ملک کی عمومی بھلائی کی خاطر عفو ودرگزر سے کام لیا گیا۔ ملک اور قومیں محض سزائوں اور تعزیروں سے نہیں، معاف کردینے سے نمو پاتی ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے اپنے بدترین حریفوںکو معاف کردیا، ان لوگوں کو بھی جو اپنی محفلوں میں کتوں اور بلیوں کی شرکت کو تو گوارا کرتے تھے لیکن کالے جنوبی افریقی شہریوں کونہیں۔
قیامت تک مشعل راہ رہنے والے نبی آخر الزماںﷺ نے فتح مکہ کے بعد مخالفین کو معاف کردیا حتیٰ کہ ابوسفیان کے گھرکودارالامن قراردیا۔ انہوںنے قانون کی بالادستی قائم کرنے کا طریقہ درگزر اور معافی میں تلاش کیا۔ وزیراعظم نواز شریف کو بھی کوئی ایسی راہ نکالنی چاہیے کہ بحرانوں کا شکار پاکستان مزید دلدل میں پھنسنے سے بچ سکے۔ جانتاہوں کہ ایک ایسے ماحول میں جہاں قانون کی بالادستی قائم کرنے کا جادوسر چڑھ کر بول رہا ہو وہاں عفو ودرگزر کی بات کرنا بے معنی ہے، آگ بھڑکانے اور جلتی پر تیل پھینکنے والوںکا ایک ہجوم ہے؛ تاہم جن لوگوں کو پاکستان کا استحکام عزیز ہے وہ کبھی بھی وزیراعظم کو تاریخ سے جنگ لڑنے کا مشورہ نہیں دے سکتے۔