بلامبالغہ مشاہد حسین سّید نے درست کہا کہ اس وقت پاکستان اور ایران کے تعلقات تاریخ کی پست ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔چند ہفتے پہلے ایران کے وزیرداخلہ عبدالرضا رحمان فضلی نے دوٹوک الفاظ میں متنبہ کیا کہ اگر پاکستان نے پانچ مغوی ایرانی سرحدی محافظوں کی رہائی کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو وہ پاکستان کے اندرفوجی کارروائی کرسکتاہے۔اب تازہ اطلاع کے مطابق ایرانی محافظ رہاکردیئے گئے ہیں۔ایرانیوں کا الزام ہے کہ گزشتہ دوسال سے پاکستان کی سرزمین سے جیش العدل نامی ایک شدت پسند گروہ ایران کے اندر تخریبی کارروائیاں کرتاہے۔گزشتہ سال اس گروہ نے ایران کے چودہ فوجیوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔جیش العدل کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن کہا جاتاہے کہ اسے کچھ خلیجی ریاستوں سے مالی امداد ملتی ہے جن کے ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔
افغانستان سے طالبان اور عراق سے صدام حسین کی حکومتوںکے خاتمے کے بعد ایرانی حکام کے لب ولہجے میں نمایاں تبدیلی آئی۔سابق صد ر محمداحمدی نژاد بے لچک بیانات کے لیے معروف تھے ۔ اب کچھ ماہ سے ایران کی موجودہ قیادت کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتاجارہا ہے۔ وہ پاکستان کو اس طرح دھمکاتی ہے جیسے افغان صدر حامد کرزئی دھمکاتے ہیںیا کسی زمانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایل کے ایڈوانی سرگرم تعاقب کی دھمکی دیتے تھے۔پاکستان فوبیاایران میں بھی گہری جڑیں رکھتاہے۔اس کی ٹھوس وجوہ بھی ہیں۔ایرانیوں کو ہمیشہ اندیشہ رہتاہے کہ کسی وقت
پاکستان کا مکمل جھکائو عرب ممالک کی جانب ہو سکتا ہے۔ پاکستانیوںکی ایک بہت بڑی تعداد شر ق اوسط میں روزگار یا کاروبار کی غرض سے مقیم ہے ۔علاوہ ازیں خلیجی ریاستوں کے حکمران خاندانوں کے پاکستانی اشرافیہ کے ساتھ گہرے تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ ایرانی حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کو متوازن رکھے۔اسی لیے بعض اوقات وہ بھارت کے ساتھ گرم جوشی میں کمی بیشی بھی کرتی رہتی ہے۔
رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں پاکستان کے حکمران طبقے کے ساتھ ایرانیوں کی اپر کلاس کے گہرے تعلقات تھے۔شاہ پاکستان کے تفصیلی دورے کرتے اور پاکستان کے داخلی معاملات پر گہری نگاہ رکھتے تھے ۔دونوں ممالک کئی اہم علاقائی اور عالمی امور پر ایک صفحے پرہوتے۔انقلاب ایران کے بعد ایرانی قیادت کا رجحان مذہبی رہنمائوں کی جانب زیادہ ہوگیا۔جماعت اسلامی اور فقہ جعفریہ کی جماعتوں کو فوقیت ملنے لگی۔ایران عراق جنگ میں عرب ممالک ایران کے خلاف متحدہوگئے۔اس کشمکش کے پاکستان پر بھی منفی اثرات پڑے۔عربوں کی ایران سے مخاصمت کے باوجود پاکستانی عوام میں ایران ایک مقبول ملک رہا۔ایک جائز ے کے مطابق76فیصد پاکستانی ایران کوپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایرانی حکومت بھی پاکستان میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے پر وقت،
توانائی اور وسائل صرف کرتی ہے۔اس وقت پاکستان میں آٹھ ایرانی کلچرل سنٹرز ہیں ۔ان میں فارسی زبان وادب سکھایا جاتا ہے۔ پاکستانی شہری تنظیموں کے اشتراک سے کلچرل تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ تاہم نوسو کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد ہونے اور صدیوں پرمحیط تاریخی روابط کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان زمینی آمدورفت اورتجارتی روابط کا حجم افسوسناک حد تک کم ہے۔
ہمسایہ ہونے کی بدولت دونوں ممالک کے مابین محبت اور مسابقت کا ماحول چلتا رہتا ہے۔معاشی مفادات کا ٹکرائو بھی ہے اور علاقائی بالادستی کی دوڑ بھی ہے۔عالمی طاقتیں اور خطے کے بعض ممالک بھی ایران اور پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں شانہ بشانہ نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ انہیںمدمقابل بنانے کے آروزمند ہیں۔وہ سازشیں بھی کرتے ہیں اورکچھ اپنی نادانیاں بھی کم نہیں۔
ستر کی دہائی میں بلوچستان میں ہونے والے فوجی آپریشن میں ایران نے پاک فوج کی معاونت کی تھی ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاہ ایران کی شہ پر ہی یہ فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ پاکستانی بلوچستان میں پنپنے والے علیحدگی پسندی کے جذبات سیستان بلوچستان کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔ایرانی بلوچستان میں مرکزی حکومت سے بیزاری کی داستان عشروں کی محرومیوں اور باہمی رنجشو ں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایران کے 31میں سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان ہے۔ بیس لاکھ کے قریب سنی آبادی مزیدانتظامی اختیارات اور داخلی خودمختاری کا مطالبہ کرتی ہے۔تہران اس طرح کے مطالبات کو اہمیت نہیں دیتااور نہ ہی مقامی آباد ی کے نمائندوں کے ساتھ مکالمے کرکے مسائل کا حل تلاش کرتاہے۔وہ اس طرح کے مطالبات کو غیر ملکی طاقتوں کی شہ پر کی جانے والی سازش قراردے کر رد کردیتاہے۔
گزشتہ کچھ برسوں سے اس علاقے میں کئی مسلح گروہ منظم ہوچکے ہیں جو سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔کہاجاتاہے کہ اب تک لگ بھگ چار سو ایرانی سرحدی محافظ اور پولیس کے جوان مارے جاچکے ہیں۔زیر زمین انتہاپسندوں کی تعداد ایک ہزار تک بتائی جاتی ہے۔افغانستان سیستان کے پچھواڑے میں واقع ہے لہٰذا ان گروہوں کو ہتھیاروں کی کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں ایرانی بلوچی سرحدوں کا کم ہی احترام کرتے ہیں۔ وہ اکثر اوربلادھڑک روزگار اور غیر قانونی کاروبار کی غرض سے پاکستان اور افغانستان کا سفر کرتے ہیں۔پاکستانی بلوچستان میں بھی کئی ایک مسلح گروہ سرگرم ہیں۔بہت بڑے علاقے پر حکومت کی سرے سے رٹ ہی نہیں۔ایرانی سرحد پر واقع اضلاع واشک، چاغی، پنجگور، کیچ اور گوادر میں سرکار کا حکم برائے نام ہی چلتاہے۔یہ توقع کرنا عبث ہے کہ پاکستان سرحد پر مکمل کنٹرول کرسکے گا۔
ایران کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ پاکستان کے لوگ اور حکومت اس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔اگرچہ گیس پائپ لائن بچھانے میں حکومت نے زبردست سستی اور نااہلی کا مظاہرہ کیا لیکن یہ باب بند نہیں ہوا۔ امریکہ ایران تعلقات میںبرف پگھلی ہے ممکن ہے ،اس منصوبے کی تکمیل کے لیے درکارمالی وسائل دستیاب ہوجائیں۔ دونوں ملک مل جل کر مسلم دنیا میں شیعہ سنی کے نام پر نفرت بھڑکانے کی سازش کا بھی مقابلہ کرسکتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے اچھا کیا جو ایران کے اشتعال انگیز بیانات کے باوجود تحمل کی پالیسی اختیار کی۔باہمی تعاون اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دیا ۔اب وزیراعظم نواز شریف ایران کا دورہ کرنے والے ہیں تاکہ ایرانی قیادت کے شکوک وشبہات رفع کیے جاسکیں۔علاوہ ازیں دونوں ممالک کو نیٹو کے فوجی انخلاء کے بعد افغانستان میں امن واستحکام کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں پر ابھی سے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔افغانستان میں قیام امن سے ہی پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے ۔ ایران کی مدد کے بغیر کابل میں مستحکم حکومت کا قیام خارج ازبحث ہے۔
اسلام آباد سے جو بھی ہوسکے وہ سیستان میں حالات کو پرامن بنانے میں تہران کی مدد کرے۔اس کا فائدہ پاکستان کوا پنے بلوچ علاقوں میں ہوگا۔ کل کلاں گریٹر بلوچستان کی گردان بھی شروع ہوسکتی ہے۔بلوچستان سیستان کو ایران کا ناسور بننے سے روکنے کے لیے دونوں ملکوں کو اجتماعی کوششیں کرنا ہوںگی۔