"IMC" (space) message & send to 7575

تنہا ہوتی ہوئی نون لیگ

سیاسی قیادت کے حالیہ بیانات کی بنیاد پر جو ہنگامہ کھڑا ہوا‘ وہ رائے عامہ کو کنفیوز کررہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ بیرون ملک موجود بعض رہنما پاکستان میںمارشل لاء لگوانے کے لیے بے تاب ہیں۔چودھری شجاعت حسین اور طاہر القادری بھی بہ بانگ دہل حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اورپرویزمشرف کی حمایت پر کمر بستہ ہیں ۔
مولانافضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام تازہ تازہ زخم خوردہ ہے۔ نون لیگ نے انہیں بہت زیادہ نہیں نوازا۔وزارتیں دی گئیں لیکن چارج نہیں۔سونے پر سہاگہ یہ کہ نون لیگ نے مولانا سمیع الحق کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری سونپ کر اکوڑہ خٹک کے تن مردہ میں روح پھونک دی۔کل تک بابائے طالبان کہلانے والے سمیع الحق نون لیگ کی بدولت امن کے چیمپئن بن کر حکومت اور میڈیا کے مرکز نگاہ بن گئے۔یہ منظر مولانافضل الرحمن کے دل پر مونگ دل رہاہے۔وہ حزب اختلاف کی جماعتوں سے تال میل بڑھارہے ہیں تاکہ بدوقت ضرورت بروئے کار آسکیں۔پشاور میں باخبر افراد کی اطلاع ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان صوبائی اسمبلی کے فارورڈ بلاک کے پیچھے بھی نون لیگ کا ذہن رسا کارفرماہے۔غالباًاسی پس منظر میں عمران خان موجودہ حکومت کو بادشاہت قراردیتے ہیں۔
پیپلزپارٹی اور سول سوسائٹی کے تیور بھی بدل رہے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری حکومت کو چیلنج کرتے ہیں۔ للکارتے ہیں ۔اسے دہشت گردوں کا حامی قراردیتے ہیں ۔خورشید شاہ بھی بتدریج قائدحزب اختلاف کی شناخت منواتے جارہے ہیں۔پرویزمشرف کا مقدمہ حکومت کے لیے ایک ایسا کمبل بنتاجارہاہے جس سے جان چھڑانا بھی مشکل اور اسے جاری رکھنا بھی سہل نہیں۔عالم یہ ہے کہ بیرسٹر فروغ نسیم کے پائے کے قانون دان کہتے ہیں:فوج میں ہمت ہے تو اپنا چیف بچالے۔پارلیمنٹ میں خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ہر ادارہ اپنا تحفظ کرتاہے پارلیمنٹ کو بھی متحد ہونا ہوگا۔
اداروں کے مابین کشمکش کا سلسلہ جاری تھا کہ حکومت نے خود ہی ایک اور محاذ کھول دیا۔ تحفظ پاکستان کے عنوان سے قومی اسمبلی سے جوقانون پاس کرایاگیا اسے کالے قانون کے سواکوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت جس کے لیڈروں نے جیلوں کی ہوا کھائی ‘آمریت کا ڈٹ کرمقابلہ کیا‘طویل عرصہ تک حزب اختلاف میں رہی‘ نے تحفظ پاکستان کے نام سے ایک ایسا قانون منظور کرایا جو شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی روح کے منافی ہے‘اس قانون میں سکیورٹی فورسز کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ شک کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو گولی مارسکتی ہیں۔گرفتار ہونے والے شخص کو اپنی بے گناہی خود ثابت کرنا ہوگی اور وہ بھی سپریم کورٹ میں ۔
یہی نہیں سول سوسائٹی کا گلا گھونٹے کے لیے بھی سخت ترین قوانین بنائے جانے والے ہیں۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق غیر سرکاری اداروں بالخصوص انسانی حقوق، شہری آزادیوں، اچھی حکومت کی فراہمی، جمہوریت اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو ہدف بنایا جانے والا ہے۔ایسے سخت قوانین بننے والے ہیں جو پاکستان میں حکومت پر نکتہ چینی کرنے والے اداروں کو خاموش کرادیں گے۔یہ تنظیمیں سرکار کو جوابدہ اور شفاف بنانے کی علمبردار ہیں۔اس لیے اسٹبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔اس کے برعکس مدارس کو ملنے والی بیرونی امداد پر کوئی پابندی نہیں ۔ان کی رجسٹریشن،حسابات کی سالانہ جانچ پڑتال کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہورہی۔نہ ہی یہ دیکھا جارہاہے کہ جو نصاب تعلیم ان مدارس میں رائج ہے کیا وہ پاکستان کے مفادات بالخصوص جدید تعلیمی تقاضوں سے مطابقت رکھتاہے کہ نہیں؟ان بے جا اقدامات کی بدولت میڈیا اور سول سوسائٹی کے راہنمائوں کو خدشہ ہے کہ اگر حکومت کا ہاتھ نہ روکا گیا تو وہ بتدریج ملک کو پولیس اسٹیٹ میں بدل دے گی۔ 
دوسری جانب یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تنظیمی طاقت بالخصوص اسٹریٹ پاور لگ بھگ ختم ہوچکی ہے۔پیپلزپارٹی‘ جس کے کارکن بہادری اور فخر کے ساتھ اپنی جماعت اور قیادت کے لیے کوڑے کھایاکرتے تھے‘ اب کہیں نظر نہیں آتے۔اعلیٰ پارٹی قیادت نے جماعت میں مال بٹورنے کی ایسی خطرناک دوڑ شروع کی کہ کارکنوں کا ایثار اور جذبہ اس دوڑ میں غرق ہوگیا۔ نون لیگ کے پاس اسٹریٹ پاور کبھی تھی ہی نہیں۔1999ء میں نون لیگ کی حکومت کا تختہ الٹاگیا تو پارٹی راہنمائوں نے کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں کیا۔سرکردہ پارٹی لیڈر وں نے پرویزمشر ف کونجات دہندہ قراردے کران کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔بعدازاں محترمہ کلثوم نواز نے نوازشریف کی رہائی کے لیے تحریک شروع کی تو چند کارکن گھروں سے باہر نکلے لیکن اکثر نے مڑ کر بھی پارٹی کی طرف نہ دیکھا۔اب نون لیگ برسراقتدار ہے۔جن کارکنوں اور لیڈروں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دیں‘ ان کا اقتدار کی راہ داریوں سے گزر نہیں۔پارٹی کے سرکردہ راہنمائوں کو بھی وزیراعظم سے ملاقات تو درکنار ‘ہاتھ ملانے کا موقع تک نہیں ملتا۔ا ن حالات میں کون ہے جو پارٹی کے لیے قربانیاں دے گا۔
تحریک انصاف نے نوجوانوں کو متحرک کیا تھا اور اب بھی نوجوانوں کی امیدوں کا مرکز عمران خان ہیں لیکن معلوم نہیں کہ جمہوریت کو پٹری سے اتاراگیا تو یہ نوجوان اور ان کے قائد سڑکوں پرہوں گے یا طاقت کے نئے مرکز کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے لیے قربانی دینے اور کوڑے کھانے والوں کا قحط پڑ چکاہے۔ایسے سرفروشوں سے سیاست کا دامن خالی ہوچکا۔اب سیاست ڈرائنگ رومز اور ٹی وی شوز کے اردگرد گھومتی ہے۔ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک تعلیمی اداروں سے اٹھی۔مزدور تنظیمیں اس کی پشت پر تھیں۔ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک میں نوجوان پیش پیش تھے۔سیاسی جماعتوں کے طلبہ کے ونگ اور مزدور لیڈروں نے ایف ایس ایف اورپولیس کے تشدد کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ضیا الحق کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں بھی بائیں بازور کے صحافیوں، دانشوروں اور سیاستدانوں نے قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی۔
سوچتاہوں ،خاکم بدہن قوم پر ایسی کوئی آزمائش دوبارہ آئی تو کون ہے جو تحریر اسکوائر سجائے گا۔چودھری شجاعت حسین،الطاف حسین اور کئی اور سیاستدان اس دن کے انتظار میں ہیںجب اداروں کے درمیان تصادم ہواور ان کی چاندی ہوجائے۔جمہوریت کے تسلسل اور ملک میں سیاسی استحکام کی خاطرنون لیگ کی حکومت کو اپنے اقدامات اور سیاسی حکمت عملی پر ازسر نو غور کرنا ہوگا۔ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا جو اسے سیاسی تنہائی سے دوچار کردیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں