چند ہفتے قبل بھارت کے چھتیس لاکھ شہری اس وقت ششدر رہ گئے جب انہیں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی جانب سے ہولی پر مبارک باد کا پیغام موصول ہوا۔یہ پیغام ٹویٹر کے ذریعے دیا گیا ۔ہولی ہندئووں کا مذہبی تہوار ہے جو بڑے جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتاہے۔ لوگوں کو ان کے نام سے مخاطب کرکے مودی کا مبارک باد کا پیغام ملا اکثر کو یقین نہ آیا۔مودی کے اس پیغام کا میڈیا میں بھی خوب چرچاہوا۔
مودی کئی برسوں سے انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے کارناموں کی تشہیر کرتے رہے ہیں لیکن موجودہ الیکشن مہم میں انہوں نے سوشل میڈیا کے استعمال کو نیا عروج دیا۔ان کی دیکھادیکھی دیگرسیاسی جماعتیں بھی اس میدان میں کود پڑی ہیں۔عام آدمی پارٹی اورکانگریس سمیت کئی جماعتوں نے تین سے پانچ فیصد الیکشن بجٹ سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے لیے مختص کیالیکن مودی کو مات دینے کو ئی آسان کام نہیں۔ان کا ذہن نت نئے آئیڈیاز تراشتاہے اور مخالفین محض ان کی نقالی کرتے ہیں۔جدیدٹیکنالوجی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا کوئی مودی سے سیکھے۔
بی جے پی نے ووٹروں کو الیکشن میں سہولت پہچانے کی خاطر ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی ۔ ایس ایم ایس سروس میں لوگوں کو بتایا جاتاہے کہ ان کا ووٹ کہاں پڑنا ہے۔ یہ بھی کہ اس علاقے کے کتنے لوگ پہلے ہی مودی کو ووٹ دینے کے لیے بی جے پی سے اپنا ووٹ نمبر حاصل کرچکے ہیں۔ووٹروں کو اپنے حق میں کرنے کا یہ ایک متاثر کن حربہ ہے۔بی جے پی کے آئی ٹی ماہرین کی ٹیم ہر رو ز ٹیکنالوجی کے استعمال کے خیرہ کن مظاہرے کرتی ہے۔حال ہی میں انہوں نے ''چائے پر چرچا‘‘ کے عنوان سے ایک مہم شروع کی۔تین سو شہروں میں ایک ہزار مقامات پر مفت چائے پلانے کے اسٹال لگائے گئے ۔مودی ایک اسٹال پر پہنچے اور نوجوانوں سے بات چیت شروع کردی۔یہ بات چیت بیک وقت ایک ہزار اسٹالز پر سنی گئی اور ان سے سوالات کیے گئے۔
کچھ جائزے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس دفعہ کے الیکشن میں سوشل میڈیا پر جاری مہم نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے۔لوک سبھا کی 543نشستوں میں سے 160 پر سوشل میڈیا کا گہرا رسوخ بتایاجاتاہے۔بھارت میں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتاہے۔ نوکروڑ سے زائد لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ٹوئٹر کا استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی تین کروڑ سے تجاوز کرچکی ۔خاص طور پر شہری آبادی کے مابین رابطے کے لیے سوشل میڈیا سستا اور تیز رفتار ٹول بن گیاہے۔ 2009 ء میں مودی نے پہلا ٹوئٹر اکاوئنٹ بنایا۔ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد 35لاکھ ہوچکی ہے جو باقی لیڈروں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔
مودی ایک ہی وقت میں کئی کئی مقامات پر جلسوں سے خطاب کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ 53مقامات پر بیک وقت خطاب کیا۔دوسرے لیڈر وں کے برعکس مودی نے آئی ٹی کے استعمال سے بھارت میں الیکشن کازبردست سماں باندھ دیا ۔ گجرات ہی نہیں‘ پورے ملک سے آئی ٹی ماہرین بی جے پی کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔بعض ماہرین کی خدمات مستعار بھی لی گئی ہیں۔ اس میدان میں دوسری جماعتیں ، بی جے پی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتیں ۔دنیا میں سب سے زیادہ لوگ امریکہ میں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور اس کے بعد بھارت میں ۔ بھارت میں بیس کروڑ سے زائد انٹرنیٹ صارفین ہیں۔جن میں اکثر شہروں میں آباد نوجوان مرد اور عورتیں ہیں۔یہ لوگ سماجی اور
سیاسی طور پر زیادہ فعال اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان نوجوانوں تک رسائی کے لیے مودی کے لیے علاوہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی متحرک ہیں۔لوگ امریکی صدر بارک اوباما کے تجربات سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔بعض سیاستدانوں نے اپنی ویب سائیٹس بنارکھی ہیں جہاں وہ اپنی لمحہ بہ لمحہ سرگرمیاں کی خبریں اور تصویریں اپ لوڈ کرتے ہیں۔
عام آدمی پارٹی (عآپ)کے سربراہ اروند کجری وال بھی کمال کی ذہین شخصیت ہیں۔وہ رائے عامہ کے دلو ں میں گھر کرنے کے انوکھے انوکھے گر ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آن لائن حامیوں سے کہا: وہ عام آدمی پارٹی کے لیے ایک ایک ٹویٹ یا فیس بک سٹیٹس کا عطیہ دیں۔چنانچہ لاکھوں شہریوں نے کجری وال کی حمایت میں ٹویٹ کیے اور فیس بک پر انہیں اپنی پرجوش حمایت کا یقین دلایا۔
کجری وال کے پیغام کو عام کرنے میں بھی سوشل نیٹ ورک نے کلیدی کردار ادا کیا۔وہ کوئی لمباچوڑا سیاسی پس منظر رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس بے پناہ مالی یا انسانی وسائل ہیں لیکن اس کے باوجود نوجوانوں نے بدعنوانی کے خلاف ان کے موقف کی بھرپور پذیرائی کی اور معاشرے کے فعال طبقات کو بھی آمادہ کیا کہ وہ کجر ی وال کی عام آدمی پارٹی کی حمایت کریں۔یہ سوشل میڈیا ہی کا کمال ہے کہ راج موہن گاندھی جیسی معتبر شخصیت بھی عام آدمی پارٹی کی صفوں میں شامل ہوچکی ہے۔راج موہن محض گاندھی جی کے پوتے نہیں بلکہ وہ اعلیٰ پائے کی کئی کتابوں کے مصنف اور عالمی سطح کے شہرت یافتہ پروفیسر ہیں۔ان کی عام آدمی پارٹی میں شمولیت سے بھارت کی اشرافیہ میںبہت ہلچل پیداہوئی اور نوجوانوں میں جوش وخروش۔کانگرس کے اندر حکمران طبقے کی بدعنوانیوں کے مخالف عناصر بھی اب کجری وال کو امید کی کرن قراردیتے ہیں۔
دنیائے سیاست میں سوشل نیٹ ورکس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگلے برسوں میں پاکستانی رائے عامہ کو ہموار کرنے میںبھی نیٹ ورکس کا کلیدی کردار ہوگا۔عمران خان کی تحریک انصاف نے گزشتہ الیکشن میں سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ۔رواںبھارتی الیکشن میں بالخصوص مودی نے جس طرح انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اس نے خطے کی سیاست کا رنگ ڈھنگ ہی بدل دیا ہے۔اب اگلے برسوں میں ہونے والے الیکشن میں بہت سارا کام سوشل میڈیا پر ہی ہوتا نظرآتاہے۔جو سیاستدان سوشل میڈیا متحرک نہیں ہوگا وہ بتدریج غیر متعلق ہوتاجائے گا۔