"IMC" (space) message & send to 7575

امریکہ کیا سوچتاہے؟

گزشتہ دوہفتوں سے امریکہ کے باخبرلوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال کا ماحصل یہ ہے کہ پاکستان کا نام عزت واحترام سے لینے والا کوئی شخص یا ادارہ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ ہر شخص اور ادارے کے پاس پاکستان کے حوالے سے شکایات اور تحفظات کی ایک داستان ہے۔ واشنگٹن میں لوگوں سے مکالمہ کرتے ہوئے بسااوقات خیال آتاہے کہ کیا اس شہر میں کوئی ہمارا غمگسار بھی ہے ؟ کیاکوئی ہماری کہانی بھی سننا چاہتاہے ؟ ہر مجلس میںالزامات اور بیزاری کی پرانی طوطا کہانی دہرائی جاتی ہے۔
پاکستان پرکئی کتابوںکے مصنف اسٹیفن کوہن نے ایک مجلس میں یہ کہہ کر حیران کردیا کہ اگر سویلین حکومت نے روایتی پالیسیوں میں جوہری تبدیلی کرنے کی کوئی کوشش کی تو اس کی چھٹی کرادی جائے گی۔ اسٹیفن کوہن عام دانشور نہیں بلکہ جنوبی ایشیائی امورکے ممتاز ماہر ہیں۔ اس خطے کو پاکستانیوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ پاکستان آرمی پران کی کتاب کو دنیا بھر میں شہرت ملی۔ واشنگٹن میں لوگ پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ صدر بارک اوباما چونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما ہیں، اس لیے ان کی موجودگی میں پاکستان کی موجودہ حکومت کے لیے نرم گوشہ واضح طور پر دکھائی دیتاہے۔ وہ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے نزدیک اصل اہمیت افغانستان سے امریکی افواج کا بحفاظت انخلاء ہے۔ باخبرافرادکا کہنا ہے کہ اگر سویلین حکومت ان کی مدد کرسکے توبہتر ورنہ وہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز سے مددمانگیںگے۔
واشنگٹن میں نون لیگ کی حکومت اور تحریک طالبان کے مابین جاری مذاکراتی عمل پر زبردست تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سرکاری ہی نہیں غیر سرکاری اداروں میں بھی یہ تصور پایاجاتاہے کہ تحریک طالبان حکومت کو''ماموں‘‘ بنا رہی ہے ، وہ وقت حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کا سوانگ رچا رہی ہے اور جلد ہی اپنی صفیں ازسر نو منظم کرکے دوبارہ حملہ آور ہوجائے گی۔ یہاں ہرکوئی پورے یقین سے کہتاہے کہ تحریک طالبان اور افغانستان کے طالبان میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ٹی ٹی پی پر ملاعمرکا اثر ہے اور دونوں ایک دوسرے کے مددگاراورمعاون ہیں ، اس لیے پاکستان کوکسی غلط فہمی میںنہیں رہنا چاہیے کہ وہ ٹی ٹی پی سے کوئی علیحدہ معاملہ کرلے گا۔ یہ پیکج ڈیل کی طرح ہوگا۔ مذاکرات کامیاب ہوں گے توتمام گروپ ہتھیار ڈالیں گے،کوئی گروپ اکیلا خطرات مول لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پالیسی ساز حلقوں میں اس امر پرکسی حد تک اطمینا ن کا اظہارکیا جاتاہے کہ افواج پاکستان قبائلی علاقہ جات میں فوجی آپریشن کے لیے تیار ہے۔
اس اندیشے کا بھی برملا اظہارکیا جاتاہے کہ ٹی ٹی پی یا القاعد ہ بھارت میں کوئی بڑا حملہ کراسکتی ہیں۔اس حملے کی جڑیں پاکستان کے اندر تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ اس نوع کے حملے کا امکان اس وقت زیادہ ہوگا جب بھارت میں نریندر مودی وزارت عظمیٰ کی گدی پر فروکش ہوچکے ہوں گے۔ بھارت میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی کی شخصیت اٹل بہاری واجپائی سے بہت مختلف ہے۔ واجپائی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے کو برداشت کرگئے تھے لیکن مودی کی طاقت کا راز ہی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں ہے۔ ایسی کسی صورت میں پاکستان کو لینے کے دینے پڑجائیں گے ، پورا خطہ تباہی کا شکا رہوسکتاہے۔
عرض کیاکہ پاکستان کے اندر ہر روز دھماکے ہوتے ہیں ، وہ انہیں نہیں روک پاتا، بھارت میں ہونے والے کسی حادثے کو کیسے روکے گا۔ اس پر امریکی کہتے ہیں کہ اکثر اس طرح کے واقعات کا تعلق پاکستان سے جاملتاہے۔کوئی ان سے پوچھے کہ القاعدہ یا ٹی ٹی پی کی خواہش ہوگی کہ کسی طرح پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کو ہوا دیں،حکومت کی ایسے واقعات میں کوئی دلچسپی یا مفاد نظرنہیں آتا۔ امریکی اس طرح کے دلائل سے متاثر ہوتے نظر نہیں آتے۔ وہ پاکستان کے کردار کوشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
مجھے کوئی ایسی مجلس یاد نہیں آتی جس میں ہماری بعض اہم شخصیات کی پاکستان میں جاری سرگرمیوں پراعتراض نہ کیا گیاہو۔ان میں سے چند ایک کو ایسی شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتاہے جو بہت خطرنا ک ہے اور خطے میں بہت بڑے تصادم کا موجب بن سکتی ہے۔بدقسمتی سے واشنگٹن میں ایسے پاکستانیوں کی تعداد بہت کم ہے جواعلیٰ سرکاری حلقوں تک رسائی رکھتے ہوں ۔ جو رسائی رکھتے ہیں وہ حقائق سے بے خبر ہیں۔ صدر بل کلنٹن کے زمانے میں ایسے پاکستانی بزنس مین اورڈاکٹرز عام مل جاتے تھے جن کی امریکی صدر کے ساتھ ذاتی دوستی تھی ۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکی نظام میں مسلمانوں کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوا۔ امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ رونما ہوتا تو اس کے ابتدائی چند گھنٹے یا چند دن لاکھوں امریکی مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کے لیے بہت صبر آزما ہوتے۔ جب یہ واضح ہو جاتا کہ اس واقعے کا ذمہ دار کوئی غیر مسلم ہے تو پھر جا کر ان کی جان میں جان آتی۔ بعض ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ کسی تعلیمی ادارے میں کسی شخص نے فائرنگ کر کے طلبا کو ہلاک کر دیا یا پھر کوئی چھوٹا طیارہ کسی عمارت سے جا ٹکرایا۔ ایسے واقعات سے مسلمانوں کا دور دور کا بھی تعلق نہ ہوتا لیکن یہ بھی ان کے لیے وبال جان بنے رہے۔ اگر کوئی واقعہ ایسا ہوتا جس کا تعلق مسلمانوں سے نکل آتا تو پھر سب کی شامت آ جاتی۔ ہر ایک کو یہی فکر لگی رہتی کہ کہیں اس سے تفتیش نہ شروع ہو جائے۔ نائن الیون کے فوراً بعد تو ایسے کئی واقعات ہوئے جن میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو ان مشکلات سے گزرنا پڑا۔ تفتیش کے تکلیف دہ عمل سے اگرچہ وہ صحیح سلامت گزر گئے لیکن یہ واقعات ان کے ذہنوں پر نفسیاتی اثرات چھوڑ گئے جنہیں مٹانا آسان نہ تھا۔ جن لوگوں نے کبھی پتہ بھی نہ توڑا تھا جب وہ کئی کئی دن تفتیش کی خاطر لے جائے گئے تو اس کا کرب وہی محسوس کر سکتے ہیں جن کے ساتھ یہ سب بیتی۔ اگر چہ موجودہ حکومت بالخصوص صدر بارک اوباما نے کوشش کی کہ دہشت گردی اور مذہب اسلام کے درمیان موجود امتیازکو اجاگرکیا جائے لیکن اس کے باوجود ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دہشت گردی اوراسلام کو کنفیوز کرتے ہیں ، مسلمانوں کو دہشت گردی کے ہر واقعہ کا ذمہ دار قراردے کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں۔
ایک امریکی دوست نے بتایا کہ ہمارا نظام حکومت تہہ درتہہ پیچیدہ ہے جسے سمجھنے کے لیے بہت کشٹ اٹھانا پڑتاہے۔ امریکہ ایک ایسے بحری جہازکی مانند ہے جس پر ہزاروں متضاد خیالات کے حامل لوگ بیک وقت سفر کرتے ہیں۔ ہر ایک کے مفادات دوسروں سے نہ صرف مختلف ہیں بلکہ ٹکراتے بھی ہیں، ہرایک من مانی کرنا چاہتاہے، انتظامیہ میں ہر وقت کشمکش رہتی ہے،کوئی بھی فیصلہ آسانی کے ساتھ نہیں ہوتا، ہر لابی اپنا نقطہ نظر منوانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لاتی ہے۔
ان حالات میں پاکستان کو امریکہ میں اپنی لابی ازسر نوع کھڑی کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی۔ یہاں کے پیچیدہ نظام کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا تاکہ داخلی تضادات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ پاکستان کو اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے خود حقیقی معنوں میں بدلنا ہوگا۔ دنیا میں کوئی ایسا مصنوعی طریقہ نہیں جو بغیرکسی وجہ کے پاکستان کا امیج بحال کردے۔ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دنیا کے سامنے آنا ہوگا جو اپنے عہدکا پاس کرتا ہے اور عالمی معاہد وںکی خلاف ورزی نہیںکرتا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں