کہتے ہیں کہ کسی بھی شخصیت یا ملک کا امیج حقیقت سے زیادہ طاقت ور ہوتاہے ۔لوگ ظاہری تصویردیکھ کر دائمی تاثر قائم کرلیتے ہیں۔حقائق کا کھوج لگانے اور تہہ تک پہنچے کے لیے کسی کے پاس وقت ہے اور نہ کوئی ا تنی ریاضت کرنے کا روادار ۔امریکہ میں کہتے ہیں کہ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ پر شہری اس طرح یقین کرتے ہیں جیسے راسخ العقیدہ عیسائی بائبل پر۔یہاںپاکستانی سیاست اور حکومت کے بارے میں کتابیں اور مضامین ہی نہیں چھپتے بلکہ ہماری معاشرت اور سماجی رویوں پر بھی سائنٹفک تحقیق کی جاتی ہے۔اکثر چھپی ہوئی تحریریں معاندانہ اور یکطرفہ ہوتی ہیں۔ مغربی بالخصوص امریکی میڈیا پاکستان کی ادھوری اور ناقص تصویر پیش کرتاہے۔
ہر ریاست اور شہر میںیونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس کی بہتات ہے۔انہیں مختلف فائونڈیشنز اور سرکاری اداروں سے مالی معاونت حاصل کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔رائے عامہ ہموار کرنے کا بہترین ٹُول یہی ادارے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت امریکہ میں سات لاکھ کے لگ بھگ پاکستان نژاد شہری آباد ہیں۔نائن الیون کے واقعات کے بعد پاکستانی امریکیوں کا انتظامیہ میں اثر ورسوخ قابل ذکر حد تک کم ہوا ۔اس کے برعکس اسپین اور جنوبی امریکہ سے تعلق رکھنے والے شہری حکومتی پالیسیوں پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔گزشتہ الیکشن میں پاکستانیوں نے صدر بارک اوباما کو پانچ ملین ڈالر کے عطیات دیئے۔اس کے مقابلے میں بھارت کے محض ایک کاروباری شہری لکشمی متل نے بیس ملین ڈالر کا عطیہ دیا۔بھارتیوں کے عطیات کوئی ڈیڑھ سو ملین ڈالر تک تھے۔امریکہ میں سیاسی جماعتوں اور لیڈروں پر اسی کمیونٹی کا اثر ورسوخ ہوتاہے جو یہاں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں سرگرم حصہ لیتی ہے اور الیکشن میں عطیات فراہم کرتی ہے۔
حالیہ برسوں میں امریکہ میں پاکستانیوں کی آبادی تیزی سے بڑھی ۔ بہت بڑی تعداد میں طلبہ اورطالبات تعلیم کے حصول کی غرض سے امریکہ آئے۔خود صدربارک اوباما حکومت کی ترجیح ہے کہ پاکستانی نو جوانوں کو زیادہ سے زیادہ امریکی تعلیمی اداروں سے استفادے کا موقع فراہم کیاجائے۔ہزاروں طلبہ کو فل برائٹ سکالرشپ سمیت درجنوں دوسرے پروگراموں کے ذریعے امریکہ کے تعلیمی اداروں سے منسلک کیا گیا۔چند ہفتے قبل بوسٹن میں کوئی دودرجن کے لگ بھگ سویلین اور فوجی افسروں کا ایک گروپ مختصر دورانیہ کے ایک کورس کے لیے آیا۔یہ طلبہ منظم ہورہے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں طلبہ کی سیاست میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔انہوں نے الیکشن مہم میں حصہ لیا۔اگر یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک جاری رہا تو بتدریج پاکستان کے بارے میں ایک مختلف تصویر ابھرنا شروع ہوجائے گی۔
گزشتہ کئی عشروں سے آباد پاکستانیوں نے بھی امریکی سیاست اور معاشرت کے سدھار اور ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فاروق کاٹھواری کا شمار امریکہ کی بہت بڑی کاروباری شخصیات میں ہوتاہے۔انہوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ان کا بچپن راولپنڈی میں گزرا ۔کالج کی تعلیم سری نگر سے حاصل کی اور امریکہ سے ایم بی اے کیا۔اس وقت ان کی کمپنی میں پانچ ہزار ملازمین ہیں۔یونائٹیڈ انسٹی ٹیوٹ فار پیس کی ایک نشست میں جانے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ کاٹھواری نہ صرف اس انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی ہیں بلکہ عمارت کا ایک بڑا ہال انہوں نے تعمیر کرکے ادارے کوعطیہ کیا۔وہ کئی امریکی اداروں کی مالی سرپرستی کے علاوہ رضاکارانہ راہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔خیرات کرنے اور فلاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں پاکستانی کمیونٹی کا نام بہت احترام سے لیا جاتاہے۔کہتے ہیں وہ ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ خیراتی کاموں کے لیے عطیات اور خدمات فراہم کرتے ہیں۔
گزشتہ ایک عشرے میں امریکی حکومت اور معاشرہ اضطرابی کیفیت سے گزرا ہے۔وہ ہر اس فرد اور ادارے کا سرکچلنے کے لیے سرپٹ دوڑ پڑتے جس سے ان کی ملکی سلامتی کو رتی برابر خطرہ لاحق ہونے کا امکان ہوتا‘مگر اب کچھ قرارآتانظرآتاہے۔صدر اوباما ملک کو جنگوں سے باہر نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔انہوں نے جنگ کا دائرہ سمیٹا ہے ۔امریکہ میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو ان کے دور حکومت سے کوئی شکایت نہیں۔عام پاکستانی صدراوباما سے خوش نظر آتاہے اور ریپبلیکن سے خوف زدہ کیونکہ وہ ایک قدامت پرست جماعت ہے جو سیاسی مسائل کا حل بندق کی گولی سے تلاش کرتی ہے۔
حالیہ دہائی میںپاکستان کے دفاعی اداروں کے ساتھ امریکی اداروں کے تعلقات کار میں بہت سے مدوجزر آئے۔ پاکستان کی قربانیوں اور القاعدہ کے خاتمے میں کردار کی کم ہی تعریف کی گئی۔افغانستان کی جنگ اور بعدازاں اس کے ردعمل میں پاکستان کے اندر ہونے والے نقصانات کا یہاں کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔اس کے برعکس بہت سارے دانشور اور صحافیوں نے دیکھا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ پاکستان سے ناراض ہے تو انہوں نے پاکستان کے حوالے سے من گھڑت کہانیاں شائع کیں۔نتیجتاً اب پاکستان کے دفاعی اداروں کے حوالے سے جو بھی جھوٹی سچی کہانی پیش کی جاتی ہے وہ ہاتھوں ہاتھ بکتی ہے ۔باخبر لوگ اس پر یقین کرتے ہیں اور اسے دہراتے بھی ہیں۔امریکی میڈیا میں پاکستان کی مثبت تصویر کشی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس پر جنگی بنیادو ں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ میں جہاں بھی جانے کا موقع ملا وہاں کی دکانوں اور ریسٹورنٹس پر مفت اردو اخبارات دستیاب ہوتے ہیں۔لوگ شوق سے مطالعہ کرتے ہیں۔گھر لے جاتے ہیں اور دوران سفر بھی دیکھ لیتے ہیں۔بسااوقات ایسا لگا کہ امریکی پاکستانی ہم سے زیادہ وطن کے حالات سے باخبر ہوتے ہیں۔دارالحکومت میں پاکستانیوں نے واشنگٹن ڈسکشن فورم کے عنوان سے ایک ادارہ قائم کررکھاہے ‘جس میں سلگتے ہوئے ملکی اور عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کی محفلیں برپا کی جاتی ہیں۔خاص طور پرپاکستان سے امریکہ جانے والی شخصیات کے ساتھ مکالمہ کیاجاتاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام تر مصروفیات کے باوجود درجنوں لوگ جمع ہوتے ہیں اور دلجمعی سے دیر تک جاری رہنے والے بحث مباحثے میں حصہ لیتے ہیں۔مجال ہے کہ کوئی اکتاتاہو۔ایسی ہی ایک مجلس میں مجھے بھی جانے کا موقع ملا جہاں پاکستانی سیاست، کشمیر ،علاقائی صورت حال کے علاوہ پاکستان میں میڈیا کے حوالے سے جاری بحث مباحثہ گفتگو کا محور رہا۔محفل میں شریک ہر شخص پاکستان کے حالات میں بہتری کا خواہش مند بھی تھا اور موجودہ حکومت سے تارکین وطن کو کچھ امیدیں بھی ہیں۔جتنے بھی لوگ ملے پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر انہوں نے موجودہ حکومت کی کارکردگی کی تعریف کی اور توقع کااظہار کیا کہ وہ ملک کو درست پٹری پر چڑھانے میں کامیاب ہوجائے گی بشرطیکہ بدعنوان مافیا کو قریب نہ پھٹکنے دے۔