"JDC" (space) message & send to 7575

باتیں کچھ چین کی

آپ چین کے کسی سفارت کار کو کہیں کہ مبارک ہو آپ کا ملک بہت جلد سپرپاور بننے والا ہے تو وہ شرما سا جائے گا۔ چین کے لوگوں میں ڈینگیں مارنے کی عادت نہیں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ چین نے سرکاری طورپر کبھی کہا ہو کہ ہم سپرپاور بن کر کیا ایجنڈا لائیں گے۔ یہ دھیمے مزاج والے لوگ ہیں جو آگے کا سوچتے ہیں۔ ایک دفعہ ہنری کسنجر نے کسی چینی لیڈر سے پوچھا تھا کہ تائیوان کا مسئلہ آپ کے خیال میں کب تک حل ہونا چاہیے؟ جواب ملا کہ سوسال میں یہ مسئلہ حل ہوجائے تو بھی ہمارے لیے قابل قبول ہے۔ چینی حقیقت پسند لوگ ہیں۔ اپنے قومی مفادا ت کے بارے میں بہت واضح نکتہ نظر رکھتے ہیں ۔ ابھی پچھلے ماہ ہی ہندوستان اور چین کے درمیان لداخ بارڈر پر کشیدگی کی فضا تھی تاہم وزیراعظم لی کی چیانگ، جوکہ ابھی حال ہی میں منتخب ہوئے ہیں ، نے سب سے پہلا سرکاری دورہ ہندوستان کا کیا۔ اس لیے کہ تجارتی لحاظ سے ہندوستان چین کے لیے بہت اہمیت کاحامل ہے۔ دوطرفہ تجارت ستر (70)بلین ڈالر کو چھونے لگی ہے۔ ہدف یہ ہے کہ آئندہ دوسال میں اسے سو بلین ڈالرتک ترقی دی جائے۔ دونوں ملکوں کا اروناچل پردیش اور لداخ میں بارڈر پر تنازع ضرور ہے لیکن جس طرح سے دوطرفہ تجارت کو فروغ ملا ہے اگر یہ رفتار جاری رہی تو سرحد کا مسئلہ بھی بات چیت سے حل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ چینی خارجہ پالیسی کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ آج کا چین دوسرے ممالک کے نظام حکومت یا اندرونی حالات میں بالکل دخل اندازی نہیں کرتا مثلاًمغربی ممالک دوسری قوموں کو جمہوریت کے فوائد ضرور گنواتے رہتے ہیں اور انسانی حقوق پر لیکچر بھی دیتے رہتے ہیں۔ چین والے کبھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ دوسرے ممالک ان کے سیاسی یا اقتصادی نظام کو اپنائیں لہٰذا کسی ملک میں جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ‘ چینی اپنے مفادات کی روشنی میں تعلقات چلاتے ہیں۔ چنانچہ کوئی ملک مسلمانوں کا ہویا یہودیوں کا‘ چینیوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ صدر ڈینگ زیائو پنگ (Deng Xiaoping)ستر کی دہائی میں آئے۔ یہ مائوزے تنگ کے بعد کا زمانہ ہے۔ انہوں نے چین کی اقتصادی پالیسی بالکل بدل دی اور چین کی معاشی ترقی اور عظمت کی بنیاد رکھی۔ ان پر تنقید بھی ہوئی کہ وہ سوشلزم کوچھوڑ کر آزاد معیشت کو اپنا رہے ہیں۔ صدر ڈینگ کا جواب تھا کہ دیکھنا یہ چاہیے کہ بلی چوہوں کا شکار اچھی طرح کررہی ہے یا نہیں۔ بلی کے سیاہ یا سفید ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چین کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں خالصتاً قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ نئی آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کو برا بھلا نہیں کہتی۔ صدر ڈینگ نے مائو کے ثقافتی انقلاب کے دنوں میں بہت تکلیفیں اٹھائیں مگر اقتدار میں آکر کبھی مائوزے تنگ کو برا بھلا نہیں کہا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سردجنگ کے زمانے میں چینی حکومت امریکہ کو منہ بھر بھر کر گالیاں نکالتی تھی آج چینی امریکی معیشت کی جلد بحالی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ دنیا بہت بدل گئی ہے اور چین نے بدلتے زمانے کے ساتھ خود کو بدلا ہے۔ میں نے اپنی سفارتی سروس کے دوران کئی چینی سفارت خانوں کو قریب سے دیکھا۔ 1970ء کی دہائی میں چینی سفارت خانے فوجی بیرک کی طرح لگتے تھے۔ تمام سفارت کار بند گلے والا کوٹ پہنتے تھے۔ انہیں فیملی ساتھ لانے کی اجازت نہ تھی۔ سب چینی سفارت کار ایک ہی کمپائونڈ میں رہتے تھے انگریزی شاذونادر ہی بولتے تھے۔ آج کا چینی سفارت کار ٹائی بھی لگاتا ہے اور انگریزی کے علاوہ دوسری کئی زبانیں بھی جانتا ہے۔ میں نے مشرق وسطیٰ میں چینی سفارت کاروں کو فرفر عربی بولتے سنا ہے۔ پاکستان میں اکثر چینی سفارت کار روانی سے اردو بولتے ہیں۔ ہردارالحکومت میں پاکستانی اور چینی سفارت کاروں کا قریبی تعلق ہوتا تھا۔ اکثر ایک دوسرے سے مشورہ ہوتا تھا۔ چینی سفارت خانے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے کئی مرتبہ پاکستانی سفارتکاروں کا علیحدہ ڈنر کرتے تھے۔ 2003ء میں جب میرا تبادلہ یونان سے پاکستان ہوا تو چینی سفیر نے بہت بڑا الوداعی ڈنر کیا اور ایسی ہی صورت حال 2007ء میں مسقط میں ہوئی۔ چینی سفیر نے شاندار الوداعی دعوت کا اہتمام کیا۔ کھانے کے کورس تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت کرتا جائوں کہ پاکستان میں مروج چینی کھانے Main landچائنا کے کھانوں سے مختلف ہیں۔ چین نے پچھلے دوعشروں میں فقیدالمثال معاشی ترقی کی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ 1978ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی چین سے زیادہ تھی اور آج چین میں فی کس آمدنی پاکستان سے پانچ گنا ہے۔ پاکستان کی بجلی کی مجموعی ضرورت بیس ہزار میگاواٹ ہے۔ چین نے پچھلے نوسالوں میں ہر سال اتنی بجلی کا اضافہ کیا ہے اور سینکڑوں ڈیم بنائے ہیں۔ کیا غضب ڈسپلن ہے کہ جب حکومت کہتی ہے کہ بچہ ایک ہی اچھا تو کسی کو دوسرا پیدا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اب سنا ہے کہ کچھ علاقوں میں دوسرے بچے کی اجازت مل گئی ہے۔ مجھے صرف ایک دفعہ چین جانے کا موقع ملا ہے اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے۔ 1997ء میں میری پوسٹنگ بطور سفیر برما میں تھی۔ وہاں کی حکومت نے تمام سفراء کے لیے شان سٹیٹ Shan stateکا سرکاری دورہ مرتب کیا۔ برما کا یہ صوبہ شمال مشرق میں واقع ہے اور اس کا بارڈر چین اور تھائی لینڈ سے متصل ہے۔ یہ علاقہ منشیات کی پیداوار اور بین الاقوامی سمگلنگ کے لیے بدنام تھا۔ سفیروں کو وہاں لے جاکر برمی حکومت یہ دکھانا چاہ رہی تھی کہ ڈرگ کی تجارت اور پیداوار کو ختم کرنے میں وہ سنجیدہ ہے۔ چنانچہ ہم رنگون سے بذریعہ ہوائی جہاز شان سٹیٹ گئے۔ جانے سے دوچار روز قبل چند سفیروں نے چینی ساتھی سے کہا کہ اگر چین کے اندر کچھ دیر کے لیے چلے جائیں تو دورے کا مزہ دوبالا ہوجائے گا۔ فرمائش کرنے والوں میں میں بھی شامل تھا۔ چنانچہ ہم چین کے صوبہ Yunnanمیں گئے ۔ وہاں شاندار لنچ کا اہتمام صوبائی حکومت نے کیا ہوا تھا۔ برما اور چین کی اقتصادی حالت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ چین کی اقتصادی ترقی میں بیرون ملک چینیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا سے لے کرامریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ چین میں کثیر سرمایہ کاری ان لوگوں کی وجہ سے آئی ہے۔ عظیم دیوار چین صدیوں میں بنی اور تواتر سے بنتی رہی ۔ اس دوران درجنوں حکومتیں آئیں لیکن قومی اہمیت کا یہ منصوبہ جاری رہا۔ ماضی قریب کی بات ہے امریکہ سے جب افغانستان کی صورت حال سنبھل نہیں رہی تھی تو امریکہ کے کسی لیڈر نے چینی لیڈروں کو کہا کہ آپ بھی افغانستان میں آکر اپنامثبت رول ادا کریں۔ جواب ملا کہ امریکہ اور مغربی اقوام پہلے اپنی پیداکردہ مشکلات کو افغانستان میں سلجھائیں ہم اپنے رول کا تعین بعد میں کریں گے۔ اقتصادی ترقی کے علاوہ چین فوجی قوت کے طورپر تیزی سے ابھر رہا ہے۔ گوکہ چینی اپنی فوجی قوت کی بھی تشہیر کرنا پسند نہیں کرتے لیکن کہاوت ہے کہ ہاتھی کو چھپانا خاصا مشکل ہوتا ہے‘ چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ ہندوستان، جاپان اور آسٹریلیا کی مدد کررہا ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ ہماری دنیا کی اکلوتی سپرپاور بے حد مقروض بھی ہے اور قرض دینے والوں میں سب سے نمایاں چین ہے۔ اسی لیے تو چینی امریکی معیشت کی صحت یابی کی دعاکررہے ہیں۔ قرضہ واپس بھی تو لینا ہے۔ امریکہ کی بہت بڑی منڈی کو مال بھی تو برآمد کرنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں