"JDC" (space) message & send to 7575

خوداحتسابی کا عمل

مجھے 1970ء کے الیکشن ایسے لگتے ہیں جیسے کل ہوئے تھے تب میں نے پہلی مرتبہ ووٹ ڈالا تھا۔ ہم نوجوان اکثر وبیشتر ذوالفقار علی بھٹو کے دیوانے تھے۔ میرا خاندان 1946ء سے مسلم لیگی تھا۔ پورے خاندان میں سے صرف میرا ووٹ بھٹو صاحب کو پڑا تھا۔ بھٹو صاحب کے پیچھے اصل طاقت افتادگان خاک کی تھی۔ بڑے عرصے تک گائوں کے چودھری کوشش کرتے رہے کہ ان کے کمّی پیپلزپارٹی کو ووٹ نہ دیں لیکن غریب کا بھٹو کے ساتھ رومانس چلتا رہا اور ان کے تختہ دار پر جانے سے اور مضبوط ہوا ۔ البتہ 11مئی 2013ء کو یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ رومانس اب خاصی حدتک کم ہوگیا ہے۔ تاریخ میں بھٹو صاحب کی حیثیت رہے گی لیکن ان کے نام پر ووٹ وصول کرنا اب خاصا دشوار ہے۔ پاکستانی ووٹر ماضی کا قیدی رہنے کو مزید تیار نہیں ۔ زرداری صاحب نے شکست کا ذمہ دار عالمی اور قومی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی کا خیال ہے کہ ان کی حکومت نے چونکہ گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کی اور ایران سے پائپ لائن کا معاہدہ کیا لہٰذا بین الاقوامی طاقتیں پیپلزپارٹی کے خلاف ہوگئیں۔ ہمارے ہاں ہر ناکامی کو امریکی سازش قرار دینے کی رسم سالوں سے چل رہی ہے۔ ایک زمانے میں نظریۂ سازش سرخوں کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اب دائیں بازو کی جماعتوں نے بھی اسے گلے کا ہار بنالیا ہے۔ لیکن یہ سوچ خطرناک حدتک منفی ہے۔ اس لیے کہ ہرناکامی کو امریکہ کے گلے ڈال کر آپ خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے لیے بہت سی مشکلات خود پیدا کی ہیں۔ امریکہ نے توانائی کے حصول کے لیے ہمیں ڈیم بنانے سے کب منع کیا۔ امریکہ نے کب کہا کہ پاکستان کو کرپٹ ممالک کی صف میں آگے ہونا چاہیے ۔ یہ تصور کہ پاکستان میں ہرچیز امریکہ کے اشارے سے ہوتی ہے خاصی حدتک لغو ہے۔ کیا امریکہ ہماری چین کے ساتھ دوستی کو روک سکا کیا امریکہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے عمل میں رخنہ ڈال سکا۔ پچھلے پانچ سال کو دیکھیں تو ہماری حکومت اکثر وبیشتر امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے کوشاں نظر آئی ۔ کیری لوگربل کے حوالے سے اعتراضات سویلین حکومت نے نہیں اٹھائے تھے بلکہ یہ اعتراضات عسکری قیادت کے تھے اور انہیں عوام میں پزیرائی بھی ملی۔ ان پانچ سالوں میں پاکستانی عوام میں امریکہ مخالف جذبات ابھرے لیکن جمہوری حکومت کی وفاداری بدستور امریکہ بہادر کے ساتھ ہی رہی تو امریکہ کو کیا ضرورت تھی کہ پاکستان میں اپنے دوستوں کی ہزیمت کا بندوبست کرے۔ میرا اسلام آباد میں سفارت کاروں سے رابطہ رہتا ہے۔ کئی مغربی سفارتکاروں کو گزشتہ ایک سال میں‘ میں نے پیپلزپارٹی کی فتح کے لیے پرامید دیکھا ہے۔ وہ عمران خان اور میاں نواز شریف کو عرصے سے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تحریک طالبان کے حوالے سے دونوں کے خیالات امریکہ کے لیے مخمصہ کا سبب ہیں۔ امریکہ میں حسین حقانی کی تقرری، امریکی ایجنسیوں کے لوگوں بشمول ریمنڈ ڈیوس کو فراخ دلی سے پاکستانی ویزہ کا اجراء سب ایسے اقدام تھے جن سے امریکہ خوش تھا۔ وہ تو سلالہ پر حملہ جیسی حماقتیں کرکے امریکہ نے خود اپنے لیے پاکستان میں نفرت پیدا کی۔ اس رائے عامہ کو کوئی بھی سیاسی حکومت نظرانداز نہ کرسکتی تھی ورنہ ہماری حکومت تو ہروقت امریکہ کے صدقے واری جانے کو تیار تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی جیسی سیکولر جماعتوں کی شکست سے مغربی مفادات کو دھچکا لگا ہے تو یہ بات بالکل قرین قیاس نہیں کہ پیپلزپارٹی کی شکست میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ عقل یہ بات بھی تسلیم نہیں کرتی کہ فوج اور سابق حکومت کے درمیان کوئی تنائو تھا۔ پچھلے پانچ سال میں سویلین حکومت کا رویہ فوج کے ساتھ عمومی طورپر مفاہمانہ رہا۔ حکومت ہرکسی سے مفاہمت کی پالیسی پر چلتی رہی۔ جس آرمی چیف کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے خود توسیع دی ہو وہ اس کے خلاف کیوں کر کام کرے گا۔ فوج کو خوش رکھنے کے لیے امریکہ، ہندوستان اور افغانستان کے بارے میں پالیسی جی ایچ کیو کے حوالے کردی گئی۔ حسین حقانی کی قربانی دے دی گئی۔ سوال یہ بھی ہے کہ میاں نوازشریف جوکہ ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کو متمنی ہیں اور الیکشن سے چند روزقبل یہ بیان دے رہے تھے کہ ان کی حکومت کارگل کی مہم جوئی پر کمیشن بٹھائے گی‘ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کو آئین کے مطابق سزا ملنی چاہیے تو میاں صاحب کو الیکشن جتوا کے فوج کوکیا ملنا تھا۔ اور اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ فوج نے اس مرتبہ اپنے آپ کو انتخابی عمل میں مکمل طورپر غیرجانبدار رکھا۔ تو جناب زرداری صاحب اور رضا ربانی کی پیپلزپارٹی کی شکست کی تشریح اور تحلیل منطق سے عاری ہے اور حقائق سے بہت دُور۔ بجائے اس کے کہ وہ جرأت سے اپنی شکست کو تسلیم کرتے اور اپنی غلطیوں کو مانتے‘ بودی دلیلیں پیش کی جانے لگیں۔ مجھے الیکشن سے دوروز بعد اسلام آباد میں ٹیکسی میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے بیٹھتے ہی ڈرائیور سے پوچھا کہ ووٹ کس کو دیا۔ میں نے دوسرا سوال داغ دیا کہ پیپلزپارٹی کو کیوں ووٹ نہیں دیا فوراً بولا کہ سرجی کوئی بہت ہی بے شرم ہوگا جس نے پیپلزپارٹی کو ان حالات میں بھی ووٹ دیا ہو۔ میں نے بات بڑھاتے ہواجملہ کسا کہ تم لوگ تو پیپلزپارٹی کا ووٹ بنک ہو۔ کہنے لگا ہم ایک زمانے میں صرف اسی پارٹی کو ووٹ دیتے تھے لیکن پچھلے پانچ سال میں جو سزا غریبوں کو ملی ہے اس سے وہ رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کی قیادت کا عوام سے رشتہ بہت کمزور ہوچکا ہے۔ جیالوں کی ایک نسل بوڑھی ہوچکی۔ نئی کھیپ کی سیاسی تربیت نہیں ہوئی۔ الیکشن کے دوران پارٹی قیادت دہشت گردی کے خوف سے دبکی رہی۔ خطرہ میاں نواز شریف کو بھی تھا اور عمران خان کو بھی لیکن وہ میدان میں نکلے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ق لیگ کا حکومت میں شامل ہونا اس بات کی دلیل تھی کہ نظریات کا جنازہ نکل چکا ہے اس سانحے نے تو رہے سہے جیالوں کو بھی ڈیپریشن میں مبتلا کردیا۔ پیپلزپارٹی جس کا خمیر پنجاب میں بنا تھا اور جوچاروں صوبوں کی زنجیر تھی اب سندھ میں قید ہوکر رہ گئی ہے۔ میرے لیے یہ خبر زیادہ امید افزا نہیں کہ قائم علی شاہ صاحب کو دوبارہ سندھ کا وزیراعلیٰ بنایا جارہا ہے۔ میں ان سے مل چکا ہوں۔ موصوف انتہائی خوش اخلاق ہیں۔ دھیما مزاج پایا ہے ہروقت مسکراتے رہتے ہیں لیکن اب ان کے اللہ اللہ کرنے کے دن ہیں۔ صوبے کو نوجوان اور فعال قیادت کی ضرورت ہے۔ اس دفعہ سندھ میں پارٹی کی کارکردگی پھر مایوس کن رہی تو 2018ء میں شاید سندھی بھائی بھی انہیں ووٹ نہ دیں۔ ابھی تو عدالتوں میں کئی کیس فیصلہ طلب ہیں۔ آنے والے دنوں میں پارٹی مزید شکست وریخت کا شکار ہوسکتی ہے اسے اور جھٹکے لگ سکتے ہیں۔ کیا یہ بات ہی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں کہ تحریک انصاف کے مجموعی ووٹ پیپلزپارٹی سے زیادہ ہیں۔ تو اگر پارٹی کو بچانا ہے تو اپنی غلطیوں کو پارٹی قیادت کھلے دل سے تسلیم کرے۔ بلاول بھٹو جو کہ پارٹی کے سربراہ بھی ہیں فوری طورپر واپس آئیں اور عوام سے رابطہ شروع کریں۔ پارٹی قیادت امریکہ کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے خود احتسابی کا عمل شروع کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں