"JDC" (space) message & send to 7575

مصلحتوں کا ٹکرائو

سوزان رائس گزشتہ چار سال سے اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر ہیں۔ آکسفورڈ اور سٹین فورڈ (Stan ford) یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم پائی۔ اقوام متحدہ میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ چند ماہ پہلے تک وزیر خارجہ بننے کے لیے مضبوط امیدوار تھیں۔ صدر اوباما کی طرح سیاہ فام ہیں اور ان کے قریب بھی۔ لیکن ان کی جگہ جان کیری کو وزیرخارجہ بنایا گیا۔ وجہ یہ بنی کہ سوزان رائس کے پاس ٹرانس کینیڈا کمپنی کے کافی شیئرز یعنی حصص تھے۔ اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کسی بھی کمپنی کے حصص رکھنے میں کیا برائی ہے۔ بات یہ ہے کہ ٹرانس کینیڈا ایک آئل کمپنی ہے جو کینیڈا میں کام کرتی ہے۔ یہی کمپنی ایک بڑی تیل پائپ لائن کی بھی مالک ہے جس کے ذریعہ تیل کینیڈا سے امریکہ جاتا ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے کئی امریکی شہری اس پائپ لائن کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ عدالتوں میں ٹرانس کینیڈا کے خلاف کیس چل رہے ہیں۔ سوزان رائس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ وہ وزیرخارجہ بن کر ٹرانس کینیڈا کے امریکہ میں مفادات کی حمایت کرسکتی ہیں۔ یعنی ان کے بزنس کے مفادات ان کی بطور وزیر خارجہ کارکردگی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سوزان کی سرکاری اور کاروباری مصلحتیں باہم متصادم ہوسکتی تھیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں مصلحتوں کے ٹکرائو یعنی Conflict of interest کو روکنے کے قوانین موجود ہیں۔ یہ قوانین حکومتی عہدوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں اور نجی شعبے پر بھی۔ ریسرچ کے شعبے پر بھی ان قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ میں اپنی بات کی وضاحت کے لیے مصلحتوں کے ٹکرائو کی تعریف مثال کے ساتھ دوبارہ پیش کرنا چاہوں گا۔ اگر کسی شخص کے ثانوی مفادات اس کی بنیادی حیثیت پر منفی طور پر اثر انداز ہوں۔ مثال کے طور پر ایک صاحب فارمیسی یعنی دوائوں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ اسمبلی کے ممبر منتخب ہو کر وہ وزیر صحت بن جاتے ہیں۔ ان کی وزارت کے تحت درجنوں سرکاری ہسپتال ہیں جنہیں ادویہ بیچنے والے روزانہ لاکھوں کا مال سپلائی کرتے ہیں۔ کسی بھی مہذب ملک میں ایسے شخص کو وزیر صحت نہیں بنایا جائے گا۔افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ہمارے اسلامی ملک میں مصلحتوں کے ٹکرائو کے بارے میں واضح قوانین نہیں ہیں حالانکہ خلافت راشدہ کے آغاز ہی میں اس بات کا ادراک کرلیا گیا تھا کہ مصلحتوں کا ٹکرائو عادلانہ نظام حکومت کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو صحابہؓ نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے دور خلافت میں کپڑے کا کاروبار بند کردیں۔ ورنہ لوگ آپ کو خوش کرنے کے لیے صرف آپ سے ہی کپڑا خریدیں گے اور دوسرے تاجروں کا کام ٹھپ ہوجائے گا۔ چنانچہ خلفیۂ اول نے اس نصیحت پر عمل کیا۔ معاصر کالم نگار جاوید چودھری نے حال ہی میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے: بطور خلیفہ سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے صوبائی گورنروں کو یہ احکام صادر فرمائے! (1ترکی گھوڑے پر سفر نہ کریں۔ 2)باریک یا قیمتی کپڑا نہ پہنیں۔ 3) اپنی رہائش گاہوں کے باہر دربان نہ بٹھائیں تاکہ رعایا کو حاکم سے ملنے میں دقت نہ ہو۔ 4) اپنے صوبے کے تمام علاقوں کا دورہ کرے عوام کے حالات سے باخبر رہیں۔ترکی گھوڑا اصیل عربی گھوڑے کے مقابل میں بہت بڑے قد کاٹھ کا ہوتا ہے۔ عربی گھوڑے مختصر حجم کے ہوتے ہیں اور بہت کم چارے پر گزارا کر لیتے ہیں۔ لیکن ترکی گھوڑے پر بیٹھے حاکم کا جاہ و جلال بہت ہوتا تھا۔ لیکن حضرت عمرؓ یہ نہیں چاہتے تھے کہ گورنر مہنگی سواری رکھیں۔ اگر آج سیدنا عمرؓ ہمارے درمیان موجود ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ گورنروں کو سوزوکی یا FIAT کار میں بیٹھنے کی ہدایت فرماتے اور مرسیڈیز کو استعمال کرنے کی سختی سے ممانعت فرماتے کہ یہ دور حاضر کا ترکی گھوڑا ہے۔ حضرت عمر بن العاصؓ وہ جلیل القدر صحابی ہیں جو فاتح مصر ہونے کا شرف بھی رکھتے ہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ کا عہد خلافت تھا۔ فتح مصر کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ کو مصر کا گورنر بنا دیا گیا اور پھر خلیفہ وقت کو اطلاعات ملنی شروع ہوئیں کہ مصر کے گورنر قیمتی کپڑے پہنتے ہیں اور پرتعیش طرز زندگی ہے؛ چنانچہ خلیفہ راشد نے گورنر مصر کو قاہرہ سے فوراً مدینہ منورہ آنے کا حکم دیا۔ جب آپ مدینہ تشریف لا کر خلیفہ کے پاس حاضر ہوئے تو واقعی قیمتی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ وہ ان کے احکام کے مطابق سادہ لباس کیوں نہیں پہنتے۔ جواب ملا کہ یا خلیفہ! میں فارغ وقت میں تجارت بھی کرتا ہوں۔ حضرت عمرؓ مزید حیران ہوئے کہ اتنے بڑے صوبے کے گورنر کے پاس تجارت کرنے کے لیے بھی وقت ہے۔ چنانچہ حکم صادر ہوا کہ ذاتی تجارت فوراً بند کردی جائے اور تمام وقت رعایا کی فلاح پر صرف کیا جائے۔ آج کا پاکستان گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ کیا ان مسائل کے باوجود بھی ہمارے حکمران اپنے بزنس کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے جواب اثبات میں ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے سیاسی خانوادوں کو دیکھ لیجیے سب کے پاکستان کے اندر اور باہر بزنس ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ سیاسی خاندان اقتدار کو اپنے بزنس کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بینکوں کے قرضے معاف کرائے جاتے ہیں اور کرسی کی طاقت‘ ٹیکسوں سے بچنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ آج سیدنا عمرؓ حکمران ہوتے اور پاکستان مصر کی طرح اسلامی سلطنت کا حصہ ہوتا تو کیا وہ ہمارے جیسے حکمرانوں کو برداشت کرتے‘ جواب سوفیصد نفی میں ہے۔ آپ کو علم ہوگا کہ امریکی صدر اوباما کا اصل پیشہ وکالت ہے۔ وائٹ ہائوس جانے سے پہلے انہوں نے اپنی لافرم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اگر کسی طرح بھی یہ ثابت ہوجائے کہ وہ اپنی پرانی لا فرم کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مدد کررہے ہیں تو امریکہ میں طوفان کھڑا ہوجائے گا۔ اس لیے کہ امریکہ میں مصلحتوں کے ٹکرائو کے واضح قوانین ہیں جو صدر کو ذاتی مفادات کے فروغ کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی طرح سے جرمنی میں اگر کوئی بزنس مین پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوجائے تو اسے حلف لینے سے پہلے بزنس سے علیحدگی اختیار کرنا پڑتی ہے۔انگریز نے ہندوستان میں مصلحتوں کے ٹکرائو کو کم کرنے کے لیے چند بنیادی اصول وضع کیے تھے مثلاً کسی بااختیار شخص کو اس کے آبائی ضلع میں نہیں لگایا جاتا تھا۔ اگر کسی جج کے پاس کسی رشتہ دار یا دوست کا کیس آجاتا تھا تو وہ بنچ پر بیٹھنے سے معذرت کرلیتا تھا۔ ہمارے ہاں سرکاری عہدے جاہ و جلال، ایکڑوں والے گھر اور بے شمار لمبی لمبی گاڑیوں کے استعمال کی علامت ہیں۔ ہمارے حکمران اندرون ملک دوروں کی بجائے بیرون ملک جانا زیادہ پسند فرماتے ہیں۔ ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے زمیندار زرعی آمدن پر ٹیکس نہیں لگنے دیتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ملکوں ملکوں کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔ ہمارے کسی حکمران نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ آج سے میری کاروباری مصروفیات بند‘ اور نہ ہی ہمارے ملک میں مصلحتوں کے ٹکرائو کے واضح قوانین ہیں۔ ایک بھائی ادارے کا سربراہ ہے تو دوسرا بھائی اسی ادارے کو کروڑوں کا مال سپلائی کررہا ہے۔ تو اگر ہم سیدنا عمر فاروقؓ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتے تو امریکہ اور جرمنی سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ جہاں مصلحتوں کے ٹکرائو کا قانون حکمرانوں سے لیکر ریسرچ کے اداروں پر بھی لاگو ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں