"JDC" (space) message & send to 7575

افغان مذاکرات اور سفارتی مسائل

افغان مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی گنجلک مسائل کا شکار ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کا پہلا دور شروع ہونا تھا جوکرزئی حکومت کے اعتراضات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوگیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ طالبان کو دوحہ میں دفتر کھولنے میں بہت وقت لگا۔ طالبان مصر تھے کہ امریکہ پہلے چنداہم قیدی رہا کرے اور افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا اعلان کرے جبکہ امریکہ کی پیشگی شرائط کے مطابق طالبان سے القاعدہ سے تمام روابط منقطع کرنے کے لیے کہا گیا اور یہ بھی شرط رکھی گئی کہ طالبان افغان آئین کو تسلیم کرلیں۔ حال ہی میں دونوں اطراف نے اپنی پوزیشن ذرا نرم کرلی۔ دونوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ پیشگی شرائط کی بجائے انہی اہداف کو مذاکرات کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ لہٰذا قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا دفتر کھول دیا گیا۔ اب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دھمکی دی ہے کہ اگر مذاکرات شروع نہ کیے گئے تو یہ دفتر بند کردیا جائے گا۔ میرے خیال میں تو ایسا بیان قطر حکومت کی طرف سے آنا چاہیے تھا۔ جان کیری نے یہ بیان دے کر اس تاثر کو عام کردیا کہ طالبان دفتر کا قیام اور اختتام امریکی خواہشات کے تابع ہے۔ اگرچہ اصل میں حقیقت یہی ہے لیکن سفارتی آداب کے تحت یہ تاثر دینا زیادہ بہتر ہوتا کہ طالبان کا دفتر میزبان حکومت یعنی قطر کے تابع ہے‘ امریکہ کے نہیں۔ طالبان ایک عرصے سے سیاسی طورپر پوری دنیا سے منقطع ہیں۔ طالبان نے دفتر کھلتے ہی ایک پریس کانفرنس کرڈالی جس میں من جملہ دوسری باتوں کے یہ کہا گیا کہ مستقبل میں افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ کرزئی حکومت کو یوں محسوس ہوا کہ طالبان پورے افغانستان کی طرف سے عالمی برادری کو یقین دہانیاں کرانے لگ گئے ہیں۔ کابل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں کہ دوحہ میں طالبان کا دفتر عارضی افغان حکومت کا روپ نہ دھار لے۔ دراصل کرزئی حکومت شدید عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہے۔ یہ مشکوک انتخابات کے ذریعہ تخت نشین ہوئی تھی۔ آئندہ اپریل میں اس کی مدت ختم ہورہی ہے اور آئین کے مطابق صدر حامد کرزئی انتخاب لڑنے کے مجاز نہیں ہیں۔ پھر بھی وہ اس بات پر مصر ہیں کہ کابل حکومت کے علاوہ افغانستان کے مستقبل کی بات کوئی اور نہیں کرسکتا۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ کرزئی حکومت یہ بھی کہتی آئی ہے کہ طالبان کا دوحہ والا دفتر جلد کابل منتقل ہوجائے گا۔ دراصل کرزئی حکومت اس دفتر کی بین الاقوامی حیثیت سے خائف ہے اور اسے اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔ سب سے پہلا اعتراض دفتر کے نام کے بارے میں اٹھایا گیا۔ اس عمارت کے باہر ’’امارتِ اسلامی افغانستان کا سیاسی دفتر‘‘ کی تختی لگائی گئی۔ کابل حکومت کو اس بات پر شدید اعتراض ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ طالبان پورے افغانستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔ چنانچہ اعتراض کے بعد قطر کی حکومت نے طالبان سے کہا کہ وہ یہ تختی باہر سے اتار کر عمارت کے اندر لگالیں۔ اسی طرح سے طالبان نے اس عمارت پر اپنا پرچم لہرا دیا جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ اس بات پر یہ اعتراض کیا گیا کہ بیرون ملک پرچم لہرانے کا استحقاق صرف سفارت خانہ کا ہوتا ہے۔ اس بات میں مجھے وزن نظر نہیں آیا اس لیے کہ طالبان نے اپنے دفتر پر افغانستان کا پرچم تو نہیں لہرایا‘ موجودہ پرچم 2001ء والے جھنڈے سے مختلف ہے لیکن طالبان نے چونکہ 2001ء والا پرچم دوحہ میں عمارت کے اوپر لگادیا تھا تو کرزئی صاحب کو خطرہ محسوس ہوا کہ افغانستان اپنے ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اب حکومت قطر نے طالبان سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنا پرچم چھت پر لگانے کی بجائے عمارت کے صحن میں لگالیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ طالبان نے ان علامتی مسائل پر زیادہ ضد والا رویہ اختیار نہیں کیا۔ طالبان سیاسی لچک دکھا کر دنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ معقول لوگ ہیں۔ لیکن یہ بات چیت ابھی بہت سے اور مشکل مراحل سے گزرے گی۔ مذاکرات طویل ہوں گے۔ افغانستان میں امن کا حصول اتنا آسان نہیں۔ پاکستانی حکومت نے دوحہ میں طالبان کے دفتر کا خیرمقدم کیا ہے۔ ہر وہ قدم جو افغانستان کو امن کی طرف لے جائے گا پاکستان کے لیے اچھا ہوگا۔ دہشت گردی نے دونوں برادر ملکوں کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ بعض حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ افغانستان کے لیے اتنی مشکلیں جھیلنے کے بعد پاکستان کا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا حق بنتا ہے‘ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں اس لیے کہ پاکستان افغانستان کے اندر ہونے والی لڑائی میں فریق نہیں اور اگر پاکستان کو بالفرض مذاکرات کی میز پر جگہ دے دی جائے تو ایران بھی یہی مطالبہ کرسکتا ہے اور ہندوستان بھی اور شائد کابل حکومت اس مطالبے پر ایران اور ہندوستان کی حمایت بھی کرے۔ پاکستان کا رول بہرحال اہم رہا ہے۔ ایک اہم طالبان لیڈر ملا عبدالغنی برادر پاکستان کی قید میں ہے۔ ملا برادر کے بارے میں سب کو علم ہے کہ وہ ملا عمر کا بااعتماد ساتھی ہے۔ اسی لیے پاکستان پر ملا برادر کو رہا کرنے کے لیے دبائو بڑھ گیا ہے۔ مجھے صدر اوباما کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ مذاکرات کا عمل طویل ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ویت نام میں امن مذاکرات پیرس میں ہوئے تھے اور تقریباً پانچ سال چلے تھے۔ کافی عرصہ تو اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ مذاکرات کی میز کس شکل کی ہونی چاہیے‘ بالآخر فیصلہ گول میز کے حق میں ہوا مگر ساتھ ہی یہ طے ہوا کہ امریکی حکومت اور ویت کا نگ کے نمائندے چوکور اور چھوٹے میزوں پر گول میز کے اردگرد بیٹھیں گے۔ اب مسئلہ یہ بھی ہے کہ طالبان کابل حکومت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ خدا کرے کہ اپریل میں افغانستان میں ہونے والے انتخابات آزادانہ اور شفاف ہوں اور تمام گروپ نتائج کو تسلیم کریں تاکہ امن مذاکرات آگے بڑھ سکیں۔ عام طورپر مذاکرات شروع ہونے سے پہلے جنگ بندی ہوتی ہے۔ پیرس مذاکرات کے ساتھ ہی امریکہ نے شمالی ویت نام پر بمباری بہت کم کردی تھی۔ لیکن افغانستان میں جنگ جاری ہے۔ سب سے پہلے قیدیوں کے تبادلے کی بات ہوگی اور شائد آخر میں پشتون تاجک دھڑوں میں اہم فوجی اور وزارتی عہدوں کی تقسیم کی بات ہوگی۔ شمالی اتحاد چاہتا ہے کہ امریکہ اپنی کچھ فوج افغانستان میں رکھے کیونکہ افغان نیشنل آرمی ابھی پوری طرح ذمہ داری سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں۔ طالبان امریکی وجود کے خلاف ہیں۔ 2014ء کے آخر تک جنگ بھی چلے گی اور مذاکرات بھی ، مذاکرات میں بھی وہی فریق طاقت ور ہوگا جس کا پلڑا میدان جنگ میں بھاری ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں