"JDC" (space) message & send to 7575

مالتھس اور پاکستان

پاکستان کی موجودہ آبادی تقریباً 190ملین یعنی 19کروڑ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکے ہیں اور اگلے چند سالوں میں ہم برازیل کو کراس کرکے پانچویں نمبر پر آجائیں گے۔ پچھلے دس سال میں پاکستان کی آبادی تقریباً 34فیصد بڑھی اور اس لحاظ سے ہم دنیا میں اول نمبر پررہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2050ء میں پاکستان کی آبادی 276 ملین ہوگی اور پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے دنیا میں تیسرا یا چوتھا نمبر ہوگا۔ تھومس رابرٹ مالتھس انگلستان کا مشہور ماہر اقتصادیات تھا جس نے اٹھارویں صدی کے آخر میں اپنا مشہور نظریۂ آبادی پیش کیا۔ لب لباب اس نظریہ کا یہ تھا کہ آبادی میں اضافہ مادی وسائل میں اضافے سے تیز تر ہوتا ہے۔ نتیجتاً غذا کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ فطرت اس عدم توازن کی صورت حال کو ختم کرنے کے لیے بیماری یا قحط کی صورت قدرتی آفات بھیجتی ہے اور آبادی میں قدرتی طور پر کمی ہوجاتی ہے۔ مالتھس کے چند ہم عصر فلاسفروں کا خیال تھا کہ دنیا کو مثالی معاشرہ بنایا جاسکتا ہے جبکہ مالتھس کا خیال تھا کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ مثالی معاشرے کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ مالتھس پادری بھی تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کی قضا و قدر پر مکمل یقین رکھتا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1971ء میں متحدہ پاکستان کی کل آبادی تیرہ کروڑ تھی۔ اس میں سے 69ملین لوگ مشرقی پاکستان میں آباد تھے اور 61 ملین مغربی پاکستان میں۔ آج ہم بنگلہ دیش کو آبادی میں کہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ آج ہماری آبادی انیس (19) کروڑ ہے جبکہ بنگلہ دیش کی تقریباً 16 کروڑ۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے مجھے ایک برطانوی سفارت کار نے کہا کہ 1970ء میں پاکستان اور برطانیہ کی آبادی تقریباً برابر تھی جبکہ آج پاکستان کی آبادی برطانیہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان بڑا ملک ہونے کے باوجود کمزور ہے اور برطانیہ چھوٹا ملک ہوتے ہوئے بھی طاقت ور ہے ؛پس ثابت یہ ہوا کہ کسی ملک کی طاقت اس کی آبادی سے نہیں ناپی جاتی بلکہ آبادی میں بے پناہ اضافہ غربت میں اضافے کا سبب بنتاہے ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی غربت کے خط یا سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ موضوع بہت سنجیدہ ہو چلا ہے لہٰذا اس مضمون پر ضمیر جعفری کا شعر پیش خدمت ہے ؎ شوق سے لخت جگر ،نور نظر پیدا کرو ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو میرے ایک دوست لاہور کی پوش آبادی ڈیفنس میں عرصے سے مقیم ہیں۔ ساری عمر معاشیات کے پروفیسر رہے لہٰذا معاشرے میں اقتصادی تفاوت کو بھی استاد کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے گھر کے پاس ہی گائوں ہے جس کا نام چررڑ ہے۔ پچھلے سال میں لاہور میں ان کے گھر گیا تو کہنے لگے کہ تمہیں وطن عزیزکی معاشرتی تقسیم دکھاتے ہیں اور ساتھ ہی پوچھا کہ چررڑ گائوں چلو گے ؟میں نے ہامی بھر لی اور چند منٹوں میں ہم اس گائوں پہنچ گئے جو پُر آسائش بنگلوں میں گھرا ہوا غربت کا جزیرہ ہے۔ اب پروفیسر صاحب لیکچر کی صورت میں کمنٹری کرتے ہوئے گاہے بگاہے مجھ سے سوال پوچھتے جاتے تھے۔ بتائو کتنے فیصد بچوں کے پائوں میں جوتے نہیں۔ مجھے یہ بتائو کہ پانچ سال سے بڑے بچے سکول جانے کی بجائے گندی گلیوں میں کیوں کھیل رہے ہیں اور جب یہ محسوس کرتے کہ ان کے یہ سوال میرے لیے پریشانیٔ خاطر کا سبب بن رہے ہیں تو خود ہی تشریح کرتے کہ ہر گھر یعنی فیملی کے پانچ سے آٹھ بچے ہیں۔ لڑکے سات آٹھ سال کے ہوتے ہیں تو کسی ورکشاپ میں چھوٹے کا کام شروع کردیتے ہیں۔ لڑکی دس بارہ سال کی ہوتی ہے تو اس کی منگنی ہوجاتی ہے۔ پروفیسر صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ پاکستان میں آبادی کے بے ہنگم اضافے کی جہالت کے علاوہ تین چار بڑی وجوہات ہیں۔ ایک ہے چھوٹی عمر کی شادیاں، دوسری وجہ ولی عہد یعنی لڑکے کی پیدائش تک بے شمار بیٹیاں پیدا کرنا اور تیسری وجہ صدیوں کا سمایا ہوا ذہنی خوف ہے کہ کچھ بچے ضرور لقمہ اجل بنیں گے لہٰذا فیملی سائز بڑا ہونا ضروری ہے۔ گائوں سے باہر نکلیں تو دنیا ہی اور ہے۔ بڑے بڑے بنگلوں والے کم بچے پیدا کرتے ہیں اور ان کی تعلیم اور صحت کا مکمل خیال کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری آبادی کی کوالٹی گر رہی ہے۔ غربت اور جہالت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہسپتال مریضوں کے لیے کم پڑ گئے ہیں۔ پاکستان کی غذائی پیداوار میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن آبادی اس سے بہت آگے نکل گئی ہے اور ہر ترقیاتی منصوبے کو فیل کررہی ہے۔ لہٰذا لگتا ہے کہ مالتھس کا نظریہ پاکستان کی حد تک تو درست ہے۔ چند حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آبادی پر کسی قسم کا کنٹرول اسلامی نظریات سے متصادم ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ دنیائے اسلام میں سب سے کامیاب فیملی پلاننگ پروگرام گزشتہ پندرہ سولہ سال سے ایران میں چل رہا ہے۔ یہ بات بھی محلِ نظر رہے کہ شادی سے پہلے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو فیملی پلاننگ سے متعلقہ کلاسوں میں جانا پڑتا ہے۔ البتہ پچھلے سال صدر احمد ی نژاد نے یہ ضرور کہا تھا کہ اب آبادی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایران میں آبادی کی شرح نمو اعشاریہ سات فیصد ہے یعنی ایک فیصد سے بھی کم۔ کل آبادی سات کروڑ ہے جبکہ ایران کا رقبہ اور وسائل پاکستان سے زیادہ ہیں۔ دوسرا اسلامی ملک جہاں آبادی کے سیلاب کو کامیابی سے روکا گیا ہے وہ بنگلہ دیش ہے۔ چند ماہ پہلے بنگلہ دیش کے سابق فارن سیکرٹری فاروق سبحان پاکستان آئے تھے۔ ایک تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے کامیاب فیملی پلاننگ پروگرام کا راز پوچھا۔ کہنے لگا کہ گرامین بینک جیسے چھوٹے قرضوں سے بنگلہ دیشی خواتین کی معاشی حالت بہت بہتر ہوئی ہے۔ اب خواتین کا خیال ہے کہ زیادہ بچے ان کی معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بنگلہ دیشی عورت اب اس قابل ہوگئی ہے کہ خاوند کے ساتھ اس حساس موضوع پر باقاعدہ بات چیت کر سکے۔ لہٰذا فیملی سائز چھوٹا ہوگیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق بنگلہ دیش میں ایک اوسط فیملی کے تین بچے ہیں۔ فاروق سبحان صاحب نے دوسری وجہ یہ بتائی کہ صحت کی بہتر سہولتوں کی وجہ سے بچوں کی شرح اموات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا والدین کے ذہنوں سے صدیوں پرانا خوف ختم ہوگیا ہے کہ کئی بچے مر جائیں گے لہٰذا فیملی سائز بڑا رکھا جائے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں آبادی کی شرح نمو اس وقت 2.2 فیصد ہے اور پورے جنوب ایشیائی خطے میں سب سے زیادہ ہے ۔اس سروے کے مطابق پاکستان کے ساٹھ فیصد شادی شدہ جوڑے فیملی پلاننگ کی سہولتوں سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے صرف تیس فیصد مستفید ہورہے ہیں۔ حکومت کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ آبادی کے بارے میں جو قومی پالیسی 2010ء میں تشکیل دی گئی تھی اسے ابھی تک پارلیمنٹ نے منظور نہیں کیا اور اب اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد آبادی کا مضمون مکمل طور پر صوبوں کے کنٹرول میں ہے اور صوبوں میں گورننس کا حال آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں ہر سال 32لاکھ نفوس کا اضافہ ہورہا ہے کیا ہم 32 لاکھ ملازمتیں یعنی JOBS بھی پیدا کررہے ہیں۔ بہت زیادہ غربت کفر کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے اور قرآن کریم ہمیں بار بار سوچنے کی ہدایت فرماتا ہے تو صاحبو مالتھس کو غلط ثابت کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم بچے کم پیدا کریں جیسا کہ برادر ممالک ایران اور بنگلہ دیش نے کیا ہے۔ اس لیے کہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں