"JDC" (space) message & send to 7575

اِک خاص تعلق

سعودی عرب اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کی متعدد جہات ہیں۔ مثلاً باہمی تجارت کو لے لیجیے۔ سعودی عرب کے ساتھ تجارت کا حجم پاکستان کی مجموعی تجارت کا نو فیصد ہے۔ بیس لاکھ پاکستانی وہاں کام کرتے ہیں اور زرمبادلہ کی ترسیل کے حوالے سے سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ اقتصادی امداد کے حوالے سے سعودی عرب کا شمار پاکستان کے اہم ترین ڈونرز میں ہوتا ہے۔ لیکن ان مادی رشتوں سے بڑھ کر روحانی رشتے کی وہ ڈور ہے جو ابدی ہے اور جس کی طاقت دنیاوی پیمانوں سے ناپی نہیں جا سکتی۔ 
1980ء کے آخری ایام تھے۔ سعودی وزیر دفاع پرنس سلطان بن عبدالعزیز مرحوم پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ پاکستان کے وزیر دفاع علی احمد تالپور مرحوم ان کے میزبان تھے۔ راولپنڈی میں ایک فوجی میس میں پُرتکلف عشائیہ دیا گیا۔ میں اُن دنوں وزارت خارجہ میں جونیئر افسر تھا۔ مجھے کہا گیا کہ آپ نے ڈنر کے فوراً بعد دونوں وزراء کی تقریروں کا فی البدیہہ ترجمہ کرنا ہے۔ یہ میری عربی دانی کا خاصا مشکل امتحان تھا۔ آپ کو یاد ہوگا اس وقت بھی خطے کے حالات اضطراب کی کیفیت سے دوچار تھے۔ سوویت یونین افغانستان میں آ چکا تھا۔ ایران اور عراق کے درمیان جنگ ہو رہی تھی اور چند شرپسندوں نے اسلحہ کے زور پر خانہ کعبہ پر قبضے کی جسارت کی تھی۔ سعودی وزیر دفاع کا دورہ بہت کامیاب رہا۔ 
پاک سعودی تعلقات کو نئی جہت ملی۔ بعد میں جب سعودی عرب میری پوسٹنگ ہوئی تو اس مضبوط رشتے کو قریب سے دیکھنے کا نہ صرف مجھے موقع ملا بلکہ میں نے اسے مزید پھلتے پھولتے دیکھا۔ سعودی حکمران صدر ضیاء الحق کا بہت احترام کرتے تھے لیکن ان کے جانے کے بعد وہی پروٹوکول سعودی قیادت نے دوسرے پاکستانی لیڈروں کو بھی دیا۔ 
1984ء میں میری پوسٹنگ سعودی عرب میں ہوئی۔ سعودی وزارت خارجہ اور دوسرے سرکاری اداروں سے ملنا جلنا شروع ہوا۔ نجم الثاقب خان مرحوم پاکستان کے سفیر تھے اور ان کی اعلیٰ ترین سعودی قیادت تک رسائی تھی۔ پاک سعودی تعلقات سٹریٹیجک نوعیت کے تھے۔ سعودی لیڈر کہتے تھے کہ دائیں جانب پاکستان ا ور بائیں جانب مصر ہمارے بازو ہیں۔ 
غالباً 1986ء کی بات ہے۔ ایک سرکاری پاکستانی کمپنی اے ڈی اے ریاض میں کئی پراجیکٹ کر رہی تھی۔ مالی مشکلات کی وجہ سے کمپنی چند ایک پراجیکٹ وقت پر مکمل نہ کر سکی اور سعودی حکومت کی طرف سے کنٹریکٹ ختم کرنے کا نوٹس مل گیا۔ اے ڈی اے ان دنوں پاکستانی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے گرمیوں کے دن تھے۔ سعودی حکومت اپنے گرما کے ہیڈ کوارٹر طائف میں تھی۔ اے ڈی اے کی مدد کے لیے پاکستان کے وزیر داخلہ اسلم خان خٹک مرحوم آئے۔ طائف میں ان کی پرنس نائف بن عبدالعزیز سے جو کہ ان کے ہم منصب تھے ، دو گھنٹے کی ملاقات رہی۔ میں دونوں وزراء کے درمیان مترجم کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ پرنس نائف بن عبدالعزیز نے میٹنگ کے فوراً بعد احکام صادر کیے کہ اے ڈی کے تمام منسوخ کردہ ٹھیکے بحال کیے جائیں۔ 
آل سعود پاکستان کے لیے اپنے دل میں خاص گوشہ رکھتے ہیں۔ بعض لوگ پاکستان میں یہ سوال پوچھتے ہیں کہ جب سزا و جزا کا وقت آتا ہے تو پاکستانیوں کو سعودی عرب میں رعایت کیوں نہیں ملتی۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ جرم کے ارتکاب پر سعودی باشندے بھی سزا سے بچ نہیںسکتے۔ سعودی عرب کی پاکستان سے محبت کا اظہار ہمیں 2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد بھی نظر آیا اور 2010ء اور 2011ء میں لگاتار سیلابوں کے بعد بھی۔ اس وقت خادم الحرمین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی حکومت پاکستان کے اقتصادی اور انرجی مسائل کا پورا ادراک رکھتی ہے۔ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ اور چترال میں ڈیم کی تعمیر کے لیے سعودی مالی امداد قابل قدر ہے۔ اسی طرح قبائلی علاقے میں سعودی عرب تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے مدد کر رہا ہے تاکہ وہاں کے لوگ اپنے گھروں کو واپس آ سکیں۔ 
سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنائو سارے خطے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس حقیقت کا ادراک کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1980ء کی دہائی میں خطے کے ان دونوں اہم ممالک کے مابین بہت کشیدگی تھی۔ خیال تھا کہ ایران 1990ء میں ریاض میں ہونے والے اسلامی وزرائے خارجہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرے گا۔ کانفرنس سے ایک روز پہلے پتہ چلا کہ ہمارے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان ڈائریکٹ ریاض آنے کی بجائے تہران چلے گئے ہیں۔ شام کو ہم وزیر خارجہ کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پہنچے تب ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے وزیرایرانی ہم منصب ڈاکٹر علی اکبر ولائتی کو ساتھ لے کر آئے ہیں تو ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ پاکستان نے اسلامی یکجہتی کے لیے ایک بار پھر اپنا کردار ادا کیا تھا۔
خطے کے حالات ایک بار پھر دگرگوں ہیں۔ چاروں جانب اضطراب کی کیفیت ہے۔ عراق میں بد امنی ہے۔ شام میں خوں آشام خانہ جنگی تیسرے سال میں ہے۔ مصر میں فوج نے ایک بار پھر غلبہ تو جما لیا ہے لیکن ملک استحکام کے لیے اب تک بہرہ ور نہیں ہو سکا۔القاعدہ افغانستان سے نکل کر مڈل ایسٹ میں پائوں پھیلا رہی ہے۔ افغانستان ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے لیکن امن کے امکانات دور دور نظر نہیں آتے۔ ان حالات میں پاک سعودی تعاون کا فروغ وقت کی ضرورت ہے۔ اہم سعودی شخصیات، باہمی مشاورت کے لیے پاکستان آ رہی ہیں۔ سب سے پہلے پرنس سعود ا لفیصل آئے۔ پاکستان میں نئی حکومت آنے کے بعد سعودی جانب سے اعلیٰ سطح کا یہ پہلا دورہ تھااور اسی وجہ سے اس کی علامتی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ یہ وہی پرنس سعودالفیصل ہیں جو دنیا بھر میں طویل ترین تجربہ رکھنے والے وزیر خارجہ ہیں۔ ان کے والد شاہ فیصل مرحوم اسلامی دنیا کا بڑا درد رکھتے تھے۔ پاکستان سے خاص محبت فرماتے تھے۔ پاکستان نے شکریہ کے اظہار کے طور پر اپنے تیسرے بڑے شہر کا نام فیصل آباد رکھ دیا۔ جب پرنس سعود الفیصل سے پوچھا گیا کہ آیا وہ جنرل مشرف کی مدد بھی اس مشکل گھڑی میں کرنا چاہتے ہیں تو جواب ملا کہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اور ہم دوست ملک کے اندرونی معاملوں میں دخل اندازی نہیں کرتے۔
وزیر خارجہ سعود الفیصل کے بعد پرنس سلمان بن سلطان نائب وزیر دفاع آئے۔ اپنے دفتر میں پرنس سلمان کا استقبال کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ دو طرفہ پاک سعودی تعاون کو مزید فروغ دیا جائے۔دونوں برادر ملکوں میں دفاعی تعاون بڑھایا جا سکتا ہے اس کے لیے باہمی اعتماد کی موجود فضا مددگار ثابت ہو گی۔ ایک انٹرنیشنل سروے کے مطابق 95 فیصد پاکستانی سعودی عرب کے لیے مثبت جذبات رکھتے ہیں اور یہ شرح اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ دفاع‘ زراعت‘ انرجی وغیرہ کے شعبوں میں تعاون کے مواقع موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت‘ آنا جانا اوراقتصادی تعاون نے خاصا فروغ پایا ہے۔سعودی وزیر سیاحت و نوادرات شہزادہ سلطان بن سلمان کا حالیہ دورۂ پاک سعودی تعلقات کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ باہمی تعاون اور محبت کا یہ رشتہ نسل در نسل چلا رہے ہیں اور اب مزید گہرا ہو رہا ہے۔ خادم الحرمین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز پاکستان اور پاکستانی عوام کی فلاح کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ یہ بات میں رسمی طور پر نہیں بلکہ ذاتی علم کی بناء پر کہہ رہا ہوں کہ میں نے ان کے افکار اور جذبات کو کئی اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں میں دیکھا اور سنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں