"JDC" (space) message & send to 7575

دو وزرائے اعظم… سرسری موازنہ

میاں محمد نوازشریف اور نریندر مودی میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں نے آزادی کے بعد آنکھ کھولی۔ دونوں کی اولین ترجیح اقتصادی ترقی ہے۔ دونوں بزنس فرینڈلی ہیں اور لبرل معاشی ایجنڈوں پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں کا تعلق دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے ہے مگر بی جے پی الٹرا رائٹ پارٹی ہے۔ دونوں اپنے اپنے مذہبی عقائد سے محبت رکھتے ہیں مگر یہاں بھی مودی تعصب کی حد تک ہندومت کے گرویدہ ہیں جبکہ وزیراعظم نوازشریف رواداری پر یقین رکھنے والے مسلمان ہیں۔ دونوں وزرائے اعظم معاشی ترقی کو بیورو کریسی کی رنجیروں سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔
اور اب دیکھتے ہیں کہ کون سی اقدار دونوں میں مشترک نہیں ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے ہوش سنبھالا تو ان کا خاندان متمول ہوچکا تھا۔ وہ اچھے مشنری سکول گئے اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور جبکہ مودی نے بچپن میں بہت غربت دیکھی۔ ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتے رہے۔ در در کی ٹھوکریں کھائیں۔ اس تجربہ نے انہیں عام آدمی کے دکھ درد کا گہرا احساس دیا ہے۔ان کے مقابلے میں نوازشریف اچھے سوٹ پہنتے ہیں۔ خوش خوراک ہیں۔ اچھی کاریں، گھڑیاں ، کیمرے اور شینڈلیر ان کی کمزوری ہیں۔ نریندر مودی سنگل ہیں۔ اپنے خاندان سے ان کے تعلقات واجبی سے ہیں۔ وہ موروثی سیاست کا سوچ ہی نہیں سکتے جبکہ وزیراعظم نوازشریف کو مریم بی بی اور حمزہ شہباز مستقبل کے لیڈر لگتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شریف خاندان نے کل کے پاکستان میں بھی اہم رول پلے کرنا ہے۔
نریندر مودی کو یہ سکون ضرور ہے کہ ان کی پارٹی کی پانچ سال کی حکومت پکی ہے۔ ان کے مقابلے میں نوازشریف چراغ ہاتھ میں 
لیے تیز ہوا میں چل رہے ہیں۔ مودی نے آتے ہی اس بات کا ادراک کیا کہ پہلی حکومتوں کا ہنی مون پیریڈ تقریباً سو دن ہوتا تھا اب بارڈر کے دونوں طرف عوام بے صبر ہورہے ہیں۔ وہ جلد نتائج چاہتے ہیں اور اچھے نتائج چاہتے ہیں۔ چنانچہ وزیراعظم نریندر مودی نے فیصلہ کیا کہ پہلے تیس دن میں اہداف طے ہونا چاہئیں۔ اقتصادیات اور انفراسٹرکچر سے متعلق نو فیڈرل سیکرٹریز کو کہا گیا کہ اپنی پچھلے سال کی کارکردگی اور اگلے سال کے اہداف چند دنوں میں پلاننگ کمیشن کے سربراہ کو بھیجیں ۔ پھر ایک بڑی میٹنگ ہوئی۔ پلاننگ کمیشن کے سربراہ نے وزیراعظم کو بریفنگ دی۔ نو کے نو فیڈرل سیکرٹریز وہاں موجود تھے۔ ان کا تعلق انرجی، جہاز رانی ،ریلویز ، سڑکوں ، ٹیلی کمیونی کیشن ،کوئلہ اور سول ایوی ایشن کے متعلق وزارتوں سے تھا۔
اقتصادی شرح نمو کو 8فیصد تک لے کر جانا مودی حکومت کا اولین ہدف ٹھہرا ہے۔ صنعتیں ایسی لگائی جائیں گی جہاں لیبر کو زیادہ جاب ملیں۔ ٹور ازم کی صنعت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ہوٹلوں اور ٹرانسپورٹ سے لے کر ٹورسٹ گائیڈز تک کو کام ملتا ہے۔ ریسٹورنٹ غیر ملکیوں سے بھرے رہتے ہیں۔ ہر آنے والا انڈین کارپٹ یا شال ضرور خریدتا ہے اور یہ شعبہ مودی حکومت سے ہر قسم کی امداد اور حوصلہ افزائی کا حق دار ٹھہرا ہے۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی سرکار اپنے پانچ سال میں اسی لاکھ ماڈرن طرز کے بیت الخلا بنائے گی کہ بھارت دنیا بھر میں بدنام ہے کہ آبادی کی اکثریت کھیتوں میں اجابت کے لیے جاتی ہے‘ جس سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔ دیہی آبادی بھارت اور پاکستان دونوں میں شہروں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ اس لیے مودی سرکار نے سو نئے شہر آباد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی ریلوے لائنیں بچھیں گی۔ چھوٹے شہروں میں کم قیمت ایئرپورٹ بنیں گے۔
پچھلے سال نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو مسائل کے انبار کا سامنا ہوا۔ میاں صاحب عرصے تک بہت پریشان نظر آئے۔ یہاں تک کہ ایک معاصر کالم نگار کو لکھ کر مشورہ دینا پڑا کہ میاں صاحب کبھی کبھی مسکرا بھی لیا کریں۔ مشکلات کے پہاڑ دیکھ کر ہراساں ہوجانا بڑے لیڈروں کا شیوہ نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ مودی اور نوازشریف کا سو فیصد تقابلی جائزہ درست نہ ہوگا کیونکہ دونوں ممالک کے معروضی حالات خاصے مختلف ہیں۔
مجھے وزیراعظم نوازشریف کی ترجیحات پر اعتراض رہا ہے اور اب بھی ہے۔ مثلاً لاہور، اسلام آباد موٹروے نہ بھی بنتی تو جی ٹی روڈ سے کام چلایا جاسکتا تھا۔ جی ٹی روڈ پر ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ چند ایک مقامات پر یہ بھارت کی توپوں کی زد میں ہے لیکن یہ مسئلہ بائی پاس قسم کی سڑکوں سے حل ہوسکتا تھا۔ موٹروے کے اقتصادی فوائد پر ریسرچ ضروری ہے اور اب لاہور اور پنڈی والی میٹرو بس اگر کچھ سال موخر کردی جاتی تو کیا پہاڑ گر جاتا؟ ملک کی اصل ضرورت بجلی ہے۔ ماڈرن معیشت میں بجلی کی اہمیت ایسے ہی ہے جیسے انسانی بدن میں خون کی۔ بجلی کی پیداوار بڑھانا اور نئے تاروں کا جال بچھانا پاکستانی معیشت کے لیے ازبس ضروری ہے ۔ کارخانے چلیں گے تو لوگوں کو روزگار ملے گا‘ برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لوٹ آئے گی اور عین ممکن ہے جرائم کی شرح بھی کم ہوجائے۔ آپ کو علم ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کی برآمدات بائیس ارب ڈالر ہیں اور پاکستان کی صرف بارہ ارب جبکہ کپاس پاکستان میں پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کا مانچسٹر یعنی فیصل آباد بجلی کو ترس رہا ہے۔ آپ فیصل آباد کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کردیں آپ کی برآمدات بنگلہ دیش سے تجاوز کرجائیں گی۔ دونوں ممالک میں بڑا فرق بجلی کی فراہمی کا ہے۔
مودی سرکار کے تھوک کے حساب سے ماڈرن ٹوائلٹ بنانے کے فیصلے سے ظاہر ہے کہ انڈین لیڈر شپ کی نظریں زمینی حقائق پر ہیں۔ کیا میاں صاحب کو معلوم نہیں کہ پاکستانی عوام کا ایک بڑا مسئلہ پینے کا صاف پانی ہے۔ آلودہ پانی سے گیسٹرو اور ہیپاٹائٹس جیسی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ جنرل حمید گل چند روز پہلے بتا رہے تھے کہ وہ خضدار گئے اور یہ معلوم کرکے پریشان ہوگئے کہ وہاں آبادی کا بیس سے پچیس فیصد حصہ ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہے۔ کیا ایک ایٹمی طاقت کے لیے یہ بات شرمناک نہیں؟ کیا میٹروبس پر لگائے جانے والے پیسے بجلی کی پیداوار اور صاف پانی کے لیے فلٹریشن پلانٹس پر نہیں لگنا چاہئیں تھے۔
کالم کی تنگ دامنی پورے موضوع کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے لہٰذا اب کچھ ذکر ہوجائے مودی سرکار کی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں کا۔ بھارت کی نئی حکومت مسلح افواج کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کرنا چاہتی ہے۔ وہ زوردار (Musculer) خارجہ پالیسی اپنانا چاہتی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے No First Useکی پالیس پر نظر ثانی ہورہی ہے۔ پاکستان کے معروضی سوالات مختلف ہیں۔ میاں نوازشریف دھیمی خارجہ پالیسی کے حامی ہیں اور موجودہ حالات میں یہی بہتر ہے۔ 
ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب نریند مودی اور نوازشریف دونوں تجارت کے فروغ کو اقتصادی ترقی کازینہ سمجھتے ہیں تو کیا وہ دو طرفہ مسائل بھی حل کرپائیں گے یا نہیں۔ مانا کہ پاکستان بھارت سے اقتصادی ترقی میں پیچھے ہے۔ مانا کہ پاکستان بھارت سے عسکری طور پر کمزور ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اب بھی انڈین لیڈر شپ کے عظیم قوت بننے کے خوابوں میں روڑے اٹکا سکتا ہے۔ سینٹرل ایشیا تک بری رسائی کے لیے اب بھی پاکستانی راہداری کی ضرورت ہے۔
پاک ہند دو طرفہ مذاکرات شروع ہونے کو ہیں۔ مودی اور نواز شریف دونوں کو چاہیے کہ یہ کام امور خارجہ کے افسروں پر ہی نہ چھوڑیں کہ یہ افسر سرکاری بریف ہی میں پھنسے رہتے ہیں۔ دونوں طرف کی سیاسی لیڈر شپ کو بھی تعلقات کی بہتری کے لیے متحرک ہونا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں