"JDC" (space) message & send to 7575

افتادگان خاک کے ساتھ طویل مکالمہ

مختلف ایام میں کالم نگاری کے محرکات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی خبر کالم لکھنے پر آمادہ کرتی ہے کبھی کبھار کسی ٹی وی ٹاک شو سے کچھ لیڈز مل جاتی ہیں۔ تھنک ٹینکس میں بحث مباحثہ کالم کے لیے اچھا مواد فراہم کرتا ہے اور آخر میں آزمودہ اور مجرب نسخہ یعنی کسی بھی گرما گرم موضوع کو انٹرنیٹ پر تلاش کیجیے‘ آپ کو ایک کالم نہیں کئی کالموں کا مواد مل جائے گا۔ اس میں کچھ اپنا تبصرہ شامل کیجیے اور کالم تیار۔ لیکن تجربہ یہ کہتا ہے کہ اچھا کالم محنت طلب ہے۔ معلومات کو کئی مرتبہ چیک کرنا پڑتا ہے اور کالم نگار کے ذہن میں یہ بات ہونا چاہیے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں سے ایسا مکالمہ کررہا ہے جس سے وہ لطف اندوز بھی ہوں اور نئی معلومات بھی حاصل کرسکیں‘ ورنہ کالم بہت ساری بے جان معلومات کا مجموعہ بن جاتا ہے۔
معاف کیجیے تمہید باندھنے میں پورا پیرا گراف صرف ہوگیا۔ اس دفعہ میری معلومات کا منبع ہمارے ارد گرد کے حقیقی کردار ہیں‘ جو تنگ گلیوں میں رہتے ہیں۔ یہ ہماری گلیوں اور سیوریج لائنوں کو صاف رکھتے ہیں۔ ہمارے گھروں کو روزانہ چمکاتے ہیں۔ یقین مانیں‘ امریکہ جیسے امیر ملک میں بھی اکثریت اپنے واش روم خود صاف کرتی ہے۔ نوکروں والی عیاشی صرف تھرڈ ورلڈ میں ہے۔
اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سیون میں دو ویٹرنری ڈاکٹر ہیں‘ جن کے پاس میں اپنے کتے کو علاج کے لیے لے کر جاتا ہوں۔ ایک ویٹرنری ڈاکٹر کا کلینک بالکل ہیرس کالونی کے پاس ہے۔ ہیرس کالونی خاکروبوں کی بستی ہے جو دارالحکومت کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے بغیر اس خوبصورت شہر میں تعفن پھیل جائے۔ ایک بار میں کلینک گیا تو وہاں رش تھا۔ انتظار کرنا پڑا مگر انتظار کرتے کرتے ایک پرانے واقف کار جمعدار سے ملاقات ہوگئی جس کا بیٹا بطور اسسٹنٹ ڈاکٹر صاحب کے ہاں کام کرتا ہے۔
میں نے کہا: رحمت مسیح مجھے پہچانا؟ کہنے لگا: جی بالکل۔ میں نے حال احوال پوچھا تو رحمت مسیح بیچارہ پھٹ پڑا۔ کہنے لگا صاحب جی ہیرس کالونی کے کئی گھروں کی بجلی پچھلے ایک ماہ سے بند ہے‘ گیس بھی نہیں‘ بُرا حال ہے گرمی سے تنگ آکر میں کلینک میں اس لیے آگیا کہ پنکھے کے نیچے بیٹھوں گا کہ آپ سے ملاقات ہوگئی‘ ویسے آپ کا کتا بہت اچھا ہے۔ میں نے رحمت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پوچھا کہ حکومت نے بجلی کیوں کاٹی ہے؟ کہنے لگا: صاحب جی افواہ ہے کہ حکومت ہیرس کالونی خالی کرانا چاہتی ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ کوئی متبادل جگہ آپ لوگوں کی رہائش کے لیے حکومت نے آفر کی ہے۔ کہنے لگا: سرجی ابھی تک ایسی کوئی آفر ہمیں نہیں بتائی گئی۔ یااللہ‘ یہ رحمت مسیح کیا چیز ہے۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس کا آستان اجڑنے کو ہے اور نارمل باتیں کررہا ہے‘ گو کہ پریشان ضرور ہے۔
مون سون کی پہلی بارش کے بعد اپنے ایک دوست کے ہاں ایف الیون جانا ہوا۔ بارش خوب موسلادھار ہوئی تھی۔ لوگوں کے بیسمنٹ یعنی تہ خانے پانی کی زد میں آچکے تھے۔ جمعدار گٹروں کا کچرا نکال رہے تھے۔ میں نے اپنے دوست بشیر خان سے کہا کہ میں چند منٹ باہر سے ہوکر آتا ہوں۔ میرے ذہن میں ہیرس کالونی والی بات پھنسی ہوئی تھی۔ ایک جمعدار سے پوچھا تو کہنے لگا کہ مجھے علم نہیں‘ میں کسی دوسری جگہ رہتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ خاکروبوں کے عمومی حالات کیسے ہیں اوریہاں بھی شکایات کا دبستان کھل گیا۔ کہنے لگا کہ وزیرستان کے مہاجرین کی مدد کے لیے خاکروبوں کی بھی ایک دن کی تنخواہ جبراً کاٹ لی گئی ہے۔ ساتھ ہی بوالا: سر جی! وزیرستان والے ہمارے بھائی ہیں لیکن میری تو تنخواہ ہی چودہ ہزار روپے ماہانہ ہے اور سات بچے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے میرا ایک کزن آئی نائن سیکٹر میں گٹر کی زہریلی گیس سے فوت ہوگیا۔ پتا چلا کہ ان لوگوں کو گٹر میں اترنے والی حفاظتی کٹ اور ماسک بھی شاذ و نادر ہی فراہم کی جاتی ہے۔
معذرت خواہ ہوں اس دفعہ کالم میں افتادگان خاک کی تلخی ایام کا ذکر کثرت سے آگیا‘ مگر یہ ہماری زندگی کے اردگرد گھومتے حقیقی کردار ہیں۔ اس دفعہ جمال ملک عید ملنے آیا تو میں نے اسے چائے پانی کے لیے بٹھا لیا۔ ویسے تو یہ ڈاک خانے کا معمولی ملازم ہے مگر سیاست پر خوب باتیں کرتا ہے۔ میں نے پوچھا تمہارے محکمے کا کیا حال ہے؟ کہنے لگا سرجی مت پوچھیں‘ پہلے ڈاک تقسیم کرنے کے لیے پٹرول الائونس ملتا تھا‘ اب ہم موٹرسائیکل میں پٹرول اپنی جیب سے ڈلواتے ہیں۔ چائے پیتے ہوئے جمال نے لمبا سڑکا لگایا تو ایک مشکل سوال داغ دیا: سرجی 14اگست کو کیا ہوگا؟ میں نے جواب دیا کچھ نہیں ہوگا‘ ایک آدھ جلسہ ہوگا‘ حکومت کے ساتھ گرما گرمی ہوگی اور پھر حالات نارمل۔ جمال ملک بولا: سرجی برا نہ منائیں آپ ٹھنڈے ٹھار گھروں میں رہنے والے لوگ ہیں‘ آپ کو باہر جلتی ہوئی لوکا کچھ پتا نہیں۔ میں نے پھر کہا کہ مجھے تو انقلاب دور دور تک نظر نہیں آتا۔ جمال ملک کی دلی خواہش ہے کہ انقلاب بس آہی جائے۔ میں نے بہت سمجھایا کہ یہ تمہاری خام خیالی ہے اور ویسے بھی پانچ سال پورے کرنا حکومت کا جمہوری حق ہے‘ مگر جمال ملک عمران خان اور طاہرالقادری کا گرویدہ ہوچکا ہے۔ کہنے لگا کہ اگر 14اگست کو حکومت نے جلسہ نہ بھی ہونے دیا تو کوئی بات نہیں‘ ساری دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں کے باہر انتخابی دھاندلی کے خلاف مظاہرے ہوںگے۔ اور پھر اس نے چونکا دینے والا جملہ بولا: سرجی! اس دفعہ عوام حکمرانوں کو ملک سے بھاگنے نہیں دے گی۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟ جمال ملک کا جواب تھا: لوگ ایئرپورٹ کا گھیرائو کرلیں گے۔ لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ بھی اس کی خام خیالی ہے مگر اس کی شدید خواہش ہے کہ کسی طرح یہ حکومت گر جائے ۔ کہنے لگا: سر جی پہلے گوشت غریبوں کی پہنچ سے باہر تھا اب ہم سبزی کا بھائو سن کر واپس گھر آجاتے ہیں اور حکمران سمجھتے ہیں میٹرو بس چلاکر تمام مسئلے حل ہوجائیں گے۔
شاہدہ بی بی ہمارے گھر میں صفائی کا کام کرتی ہے۔ عمر اس کی زیادہ نہیں لگتی مگر تین بچوں کی ماں ہے۔ ان لوگوں کی شادیاں بھی جلد ہوجاتی ہیں۔ شاہدہ کا میاں رزاق راج کا کام کرتا ہے۔ ان کے گھر کا معیار عام مزدوروں سے بہت بہتر ہے۔ پچھلے سال شاہدہ کے بڑے بیٹے کو ہڈیوں کی ٹی بی ہوگئی۔ خیر چھ مہینے گولیاں کھا کر بچہ شفایاب ہوگیا۔ اب پتہ چلا کہ ٹانگوں کی لمبائی ایک جیسی نہیں رہی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ فوری سرجری درکار ہے۔ شفا فائونڈیشن میں غریبوں کا سستا علاج ہوتا ہے‘ مگر سستی سے سستی سرجری کے لیے ساٹھ ہزار روپے درکارتھے۔ جمع پونجی کوئی تھی نہیں۔ رزاق اپنے بیٹے کے آپریشن کے لیے گردہ بیچنے کے لیے تیار ہوگیا۔ شاہدہ ایک دن پریشان حال ہمارے گھر آئی اور ساری کہانی بیان کی۔ اسے کچھ پیسے ہمارے گھر سے مل گئے‘ کچھ سیکٹر کے دوسرے لوگوں نے دیے۔ ساٹھ ہزار جمع ہوگئے اور الحمدللہ آپریشن بھی کامیاب ہوگیا۔ یہ ساری کتھا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اب غریبوں کو بھی سرکاری ہسپتالوں پر اعتماد نہیں رہا۔
عید کی تیاری کے لیے من جملہ دوسرے لوازمات کے چکن کا گوشت بھی ضروری تھا۔ ہمارے سیکٹر کا سبزی فروش احمد دین برائلر بھی رکھتا ہے۔ قیمت پوچھی تو آسمان سے بات کررہی تھی۔ میں نے پوچھا احمد دین برائلر اتنا مہنگا کیوں ہے؟ کہنے لگا: صاحب جی منڈی سے ہی مہنگا آتا ہے‘ اس کی قیمت کا تعین اوپر سے ہوتا ہے۔ ایم اے اکنامکس ہونے کے باوجود میری سمجھ میں بات نہیں آئی کیونکہ برائلر کے شیڈ کئی لوگوں کے ہیں۔ جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ عوام اپنے تمام مسائل کی جڑ موجودہ حکمرانوں کو سمجھتے ہیں اور اب 14اگست کا انتظار ہے۔ دیکھتے ہیں کہ جمال ملک کی پیشین گوئی سچی ثابت ہوتی ہے یا میری ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں