"JDC" (space) message & send to 7575

نہ گھر کا‘ نہ گھاٹ کا

نام نہاد لبرل ٹولے نے ایک بار پھر برساتی مینڈکوں کی طرح جانے پہچانے راگ الاپنے شروع کردیے ہیں: دو قومی نظریہ ناقص تھا۔ پاکستان کی تخلیق جلد بازی میں ہوئی۔ ایک صاحب مصر تھے کہ قائداعظمؒ کی سیاسی بصیرت گاندھی سے کہیں کم تھی۔ میں نے نام نہاد لبرل کی اصطلاح اس لیے استعمال کی ہے کہ سچا لبرل‘ معین اور جامد نظریات سے آزاد ہوتا ہے جبکہ ہمارے اکثر لبرل کل کے سرخوں کے وارث ہیں جو سوشلزم کی ناکامی کے بعد تتر بتر ہوگئے تھے‘ وہ لبرل کیسے ہوسکتے ہیں۔ ان کا ایک ہی نظریہ پر یقین تھا کہ یہ نظریہ امپورٹڈ تھا اور ویسے ہی جامد تھا جیسا کہ سائبیریا کی برف اور پھر 1990ء کے آس پاس وہ اسی برف میں دفن ہوکر رہ گیا۔
کیا پاکستان کے تمام لبرل ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں؟ جو اب نفی میں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک راسخ لبرل اچھا پاکستانی اور مسلمان ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ لبرل اپنے آپ کو کسی ایک سیاسی نظریے کے کھونٹے سے نہیں باندھتا‘ اس لیے اس کی ہمہ وقت ذہنی نشوونما ہوتی رہتی ہے۔ اس کے نزدیک کوئی سیاسی نظریہ حتمی اور ابدی نہیں ہوتا۔ پاکستان کے سیاق میں قائداعظم ؒ میرے نزدیک بہت بڑے اور توانا لبرل ہیں۔ایک اور تان جو نام نہاد لبرل الاپتے دکھائی دیتے ہیں‘ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہر قیمت پر اچھے ہونا چاہئیں کیونکہ ان کے خیال میں بھارت بہت ہی امن پسند ملک ہے۔ باہمی تجارت کوفروغ ملنا چاہیے خواہ وہ بھارت کی شرائط پر ہی ہو۔ 1970ء کی بات ہے میں اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں اقتصادیات پڑھاتا تھا۔ ایف اے سے لے کر ایم اے تک کے سٹوڈنٹ میرے شاگرد تھے۔ کئی شاگرد سمجھ لیں کہ میرے ہم عمر ہی تھے۔ اسلامیہ کالج اس وقت سیاست کا گڑھ تھا۔ رائٹ اور لیفٹ کی مسابقت زوروں پر تھی۔ کالج میں اچھی خاصی تعداد سرخوں کی بھی تھی جو دو فرقوں میں تقسیم ہوچکے تھے۔ ان میں سے ایک فرقہ ہمہ وقت بھارت کی شان میں رطب اللسان رہتا تھا۔ روسی سرکس لاہور آتا تھا تو یہ لڑکے کالج میں پاس بانٹتے تھے۔ ان کا اکثر کہنا ہوتا تھا کہ بھارت شاندار ملک ہے‘ وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ پھر 1993ء میں مجھے انڈیا جانے کا اتفاق ہوا اور مجھے وہاں پاکستان سے زیادہ غربت نظر آئی۔ البتہ پچھلے دو عشروں میں بھارت تعلیم‘ انڈسٹری اور معاشی ترقی میں خاصا آگے نکل گیا ہے۔ پاکستان بھی اس نہج پر چل سکتا ہے اور یہ ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔ میں بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات پر یقین رکھتا ہوں اور اس امر کا اظہار اسی کالم میں کرتا رہتا ہوں‘ لیکن تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے ایک سے نہیں۔ میں کھلے ذہن کا آدمی ہوں۔ مسقط اور بھارت میں میرے کئی انڈین دوست ہیں جو باقاعدہ طور پر اچھے لوگ ہیں لیکن ہمیں بھارت کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنا ہے۔آج کل بھارت کی نیشنل اکائی پر سپر پاور بننے کا شوق بری طرح سوار ہے اور اس میں برائی بھی نہیں۔ بھارت بڑا ملک ہے‘ ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت اور ایکسپورٹ نے بہت ترقی کی ہے۔ دفاعی طاقت بڑھ رہی ہے۔ بالی وڈ اور کرکٹ بھارت کا سوفٹ چہرہ ہیں۔ وہاں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن ساتھ ہی کئی چیزیں نظر آرہی ہیں جو بھارت کے ہمسایوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ اکھنڈ بھارت کا تصور افغانستان سے لے کر برما تک محیط ہے۔ جناب ہارون الرشید نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ عظیم بھارت کا خواب گجرات کی ریاست کے سکولوں میں پڑھائی جانے والی ایک ٹیکسٹ بک میں شامل ہے جس کا دیباچہ نریندر مودی نے لکھا ہے۔
آج کے بھارت کا ہیرو گاندھی نہیں سردار پٹیل ہے۔ وہی سردار پٹیل جس نے آزادی کے بعد پاکستان کو جائز اثاثے تک دینے سے انکار کردیا تھا اور گاندھی جی کو مرن بھرت رکھنے پر مجبور کیا تھا۔ بھارت کی موجودہ حکومت اسی سردار پٹیل کا سوا تین کروڑ ڈالر خرچ کرکے گاندھی نگر میں اتنا بڑا مجسمہ بنوا رہی ہے جو نیو یارک کے لبرٹی مجسمہ سے بڑا ہوگا۔ مجسمے کے گرد 33کروڑ ڈالر سے ایک عظیم پارک بنایا جارہا ہے۔
مجھے وہ لبرل بہت اچھے لگتے ہیں جن کا ایجنڈا خالصتاً پاکستانی ہے۔ مثلاً وہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ رول آف لا کی بات کرتے ہیں۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں کا بجٹ بڑھانا چاہتے ہیں مگر میں ایسے نام نہاد لبرلز کو برداشت نہیں کرسکتا جو شدید خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان کی فوجی قوت محدود ہوجائے اور مجھے معلوم ہے کہ ان کے روحانی آبائواجداد بھی باہر سے رہنمائی حاصل کرتے تھے ۔ دوسری جنگ عظیم میں جب سوویت یونین نے اپنا وزن اتحادی ممالک کے پلڑے میں ڈالا تو بھارتی سرخوں کی بڑی تعداد برٹش آرمی میں شامل ہوگئی تھی۔
کئی ریٹائرڈ قسم کے سرخے میرے اب بھی دوست ہیں۔ جب گورنر سلمان تاثیر کو قتل کیاگیا تو ان میں سے کسی کو اتنی ہمت بھی نہ ہوئی کہ سڑک پر آکر احتجاج ہی کرلیتا۔ ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں مشرقی پاکستان سے انٹرونگ سکالر شپ پر آئے ہوئے کافی سٹوڈنٹ تھے۔ بنگالی سیاسی طور پر بہت الرٹ لوگ تھے۔ فضیلت الرحمن ہر وقت عظیم تر بنگال کی باتیں کرتا تھا۔ اسے پاکستان اور بھارت دونوں سے پرخاش تھی۔ عمر فاروق ہم سے بھی زیادہ سچا پاکستانی تھا اور راسخ العقیدہ مسلمان۔ میرا ایک اور بنگالی دوست تھا جو ہر امتحان میں اول آتا تھا۔ مباحثوں سے ٹرافیاں لاتا تھا پھر وہ سی ایس پی بن گیا اور بنگلہ دیش میں فیڈرل سیکرٹری بنا۔ چند سال پہلے وہ اسلام آباد آیا تو میں نے پوچھا کہ اب تمہارا کیا خیال ہے‘ کیا پاکستان کا مطالبہ غلط تھا۔ کہنے لگا شکر کرو پاکستان بننے سے بھارت کے مسلمانوں کی اکثریت انڈین امپیریلزم سے آزاد ہوگئی۔ بنگلہ دیش کے لوگ بھی پاکستان کی وجہ سے آزاد 
ہوئے۔اب ہمارے نام نہاد لبرلز کو کون سمجھائے کہ پاکستان عسکری طور پر کمزور ہوا تو اس کا حشر بھی عراق اور لبیا والا ہوگا۔ اس صورت میں پاکستان بھارت کے لیے تر نوالہ بن جائے گا۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ شاید ان کی دیرینہ خواہش یہی ہے کہ تمام خطہ بشمول پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان رام راج کے تابع ہو۔
پچھلے پچیس سال میں پاکستان میں لیفٹ کی سیاست تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان مزدوروں کو ہوا ہے۔ جاندار لیبر یونین کی جگہ دونمبر والی یونینیں عام ہیں۔ آجر کاغذ پر ظاہر کرتے ہیں کہ تمام ورکر ڈیلی ورکر ہیں‘ لہٰذا ان کے حقوق محدود ہیں۔ لبرل دانشور صرف ڈرائنگ روموں میں یا این جی اوز میں بیٹھ کر بحث مباحثے کرتے ہیں۔ سڑکوں پر اب صرف دائیں بازو کی جماعتیں اور ان کے ورکر آتے ہیں۔ شہرت بخاری کا شعر یاد آرہا ہے ؎
ہم ایسے صاحب ایمان ہیں کہ برسوں سے 
جہاد شوق میں شامل ہیں، جاں نہیں دیتے
پاکستان کو لبرل سوچ کی جتنی ضرورت آج ہے کبھی پہلے نہ تھی۔ تعلیم اور جدیدیت ہماری ترقی کی ضامن ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری رویے ہماری بقا کے لیے ازبس ضروری ہیں۔ لبرل طبقہ پاکستان کی ترقی میں بے حد اہم رول ادا کرسکتا ہے‘ بشرطیکہ اس کی سوچ پاکستان کی مٹی اور مفادات سے منسلک ہو۔ سرحد پار سے آنے والے خیالات ہمارے مسائل کا حل نہیں ہوسکتے۔ دو کشتیوں کے سوار ہمیں منجدھار سے نہیں نکال سکتے۔ وہ تو خود نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں