"JDC" (space) message & send to 7575

اقوام متحدہ اور پاکستان

نیو یارک سے ایک خوشگوار خبر یہ آئی ہے کہ پاکستان بھاری اکثریت سے اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل یعنی ایکو ساک کا ممبر منتخب ہو گیا ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے 192ممبر ہیں لیکن انتخاب کے روز186 ممبر جنرل اسمبلی کے ہال میں موجود تھے ۔ ان میں سے 181نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ اس خوشی کی خبر ملتے ہی میں نے فیس بک کے ذریعے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر جناب مسعود خان کو مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ مسعود خان کچھ سال پہلے دفتر خارجہ کے ترجمان ہوتے تھے۔ بہت ہی قابل اور محنتی افسر ہیں۔
پاکستان 1947ء سے اقوام متحدہ کا ممبر ہے۔ 1962ء میں پاکستان کے نمائندے سر ظفر اللہ خان جنرل اسمبلی کے صدر بنے۔ آج بھی دنیا بھر میں قیام امن کے لیے بھیجے جانے والے دستوں کے حساب سے پاکستانی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش اور بھات اس ضمن میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ایکو ساک کی ممبر شپ تین سال کے لیے ہے اور جنوری 2015ء میں شروع ہو گی اس سے پہلے پاکستان پندرہ مرتبہ اسی موقر تنظیم کے لیے منتخب ہو چکا ہے۔
قارئین کے لیے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایکو ساک کیا ہے اور کیا کرتی ہے۔یہ اقوام متحدہ کی ایک ذیلی تنظیم ہے جو اقتصادی اور سماجی ترقی کے کاموں میں پیش پیش ہے۔ دنیا سے غربت کا خاتمہ اس تنظم کے مقاصد میں شامل ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اقتصادی ترقی یعنی یو این ڈی پی اکثر ترقی پذیر ممالک میں موجود ہے اور اس کا دفتر پاکستان میں بھی ہے۔یونیسکو تعلیم کے میدان میں فعال کردار ادا کر رہا ہے ۔ یونیسیف صحت کے میدان میں آگے آگے ہے۔ خاص طور پر بچوں کی صحت کے حوالے سے یو این کا پاپولیشن پروگرام بھی ایکو ساک کے تحت ہے اور اس کے علاوہ ماحولیات کے تحفظ کے پراجیکٹ بھی یہاں زیر بحث آتے ہیں۔
میں 1980ء کی دہائی کے آغاز میں وزارت خارجہ میں سیکشن آفیسر تھا اور میرے پاس اقوام متحدہ سے متعلق امور تھے۔ایکو ساک بھی ان مضامین میں شامل تھی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہر سال ستمبر میں ہوتا ہے جس میں کئی صدور اور وزرائے اعظم جاتے ہیں۔ اس اجلاس کے دوران ہی اقوام متحدہ کی مختلف کمیٹیاں بھی اپنی اپنی میٹنگ کرتی ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بطور سیکشن آفیسر یو این مجھے دو سال اس اجلاس کا بریف بنانا پڑا۔ 
جب میں دو سال تک بریف تیار کر چکا اور اقوام متحدہ سے متعلق امور سے خوب شناسائی حاصل کر لی تو 1982ء میں مجھے چھ ہفتے کے لیے نیو یارک میں ایک میٹنگ کے لیے بھیجا گیا۔ یہ میٹنگ برائے پروگرامنگ اور کوآرڈینیشن ہے۔ اس کمیٹی میں اقوام متحدہ کے اگلے سال کے لیے تمام پروگرام زیر بحث آتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کمیٹی کے فرائض میں یہ شامل تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایک ہی کام دو اداروں کے سپرد نہ ہو۔چھ ہفتے تک مختلف نوعیت کے اقتصادی پروگرام زیر بحث آئے۔ مجھے یہ فائدہ ہوا کہ اقوام متحدہ کے نظام کی پوری طرح سمجھ آ گئی۔
اقوام متحدہ کا ذکر ہو تو 1971ء والے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے ہیں۔ دسمبر کے دن تھے۔ پاک بھارت جنگ جاری تھی۔ دس دسمبر1971ء کو جنرل فرمان علی نے ڈھاکہ میں اقوام متحدہ کے نمائندہ کو کہا کہ پاکستان جنگ بندی کرنا چاہتا ہے مگر اس تجویز کو اسلام آباد میں پذیرائی نہ ملی حالانکہ اقوام متحدہ میں روس کے نمائندہ کا کہنا تھا کہ اس کا ملک جنگ بندی کی حمایت کرے گا۔ پھر سکیورٹی کونسل میں پولینڈ کی قرار داد پیش ہوئی۔ اس قرار داد میں جنگ بندی‘ عوامی لیگ کے مینڈیٹ کا احترام اور پاکستانی فوجوں کی واپسی شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وہ قرار داد اقوام متحدہ کے فلور پر پھاڑی اور کہا کہ میں اپنے ملک واپس جا کر لڑائی جاری رکھنا چاہوں گا۔ یہ بات ابھی تک زیر بحث ہے کہ بھٹو کا وہ جذباتی اقدام صحیح تھا یا غلط۔ جمشید مارکر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پولینڈ کی قرار داد میں پاکستان کو چنداں فائدہ نہ ہوتا کیونکہ سرنڈر سے بچنا ناممکن تھا۔میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اگر پاکستان پولینڈ کی قرار داد مان لیتا تو ہمارے نوے ہزار فوجی ہندوستان کی قید میں نہ جاتے اور نہ ہی ہمیں شملہ معاہدہ کرنا پڑتا۔شملہ معاہدے کی وجہ سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ کشمیر کو دو طرفہ تنازعہ بنا دیا گیا اوراقوام متحدہ کے رول کو کم کرنے بھارتی کوشش کامیاب ہوئی۔
میرے نقطہ نظر کو بھارتی جنرل جیکب کے اس بیان سے تقویت ملتی ہے جو اس نے بھٹو صاحب کے پولینڈ کی قرار داد پھاڑنے کے چند روزبعد دیا۔ جنرل جیکب مشرقی کمان کو لیڈ کر رہا تھا اور جنرل اروڑہ اس کے ماتحت تھا۔ جنرل جیکب نے کہا ''پولینڈ کی قرار داد ہندوستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ بھٹو نے قرار داد پھاڑ دی اور ہمیں موقع مل گیا کہ مشرقی پاکستان کے باقی ماندہ حصوں پر بھی کنٹرول حاصل کر لیں‘‘ میرے خیال میں پاکستانی تاریخ کے سنجیدہ طالب علموں کو پولینڈ کی قرار داد اور پاکستانی ردعمل پر مزید ریسرچ کرنی چاہیے۔
اوراب آتے ہیں اس اہم مسئلے کی جانب جو کہ اقوام متحدہ کی اصلاحات سے متعلق ہے۔ یہ مسئلہ 1982ء سے زیر بحث ہے۔ اصلاحات کے بارے میں مفصل ڈرافٹ سالوں سے تیار ہے لیکن یہ فیصلہ تاحال نہیں ہو سکا۔ویسے تو ڈرافٹ میں پورے نظام میں اصلاحات کا ذکر ہے لیکن پاکستان کے لیے سب سے اہم اور حساس وہ تجویز ہے جس میں دائمی یعنی ویٹو بردار ممبران کو بڑھانے کا کہا گیا ہے۔ جاپان برازیل انڈیا اورجرمنی سکیورٹی کونسل کے دائمی ممبر بننے کے شدید خواہش مند ہیں ان اصلاحات کی بیل تب ہی منڈھے چڑھ سکتی ہے جب کم از کم دو تہائی ممبران کی حمایت حاصل ہو جائے اور سکیورٹی کونسل میں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ چین اور روس اس کی حمایت کریں۔ یاد رہے کہ موجودہ اقوام متحدہ کا نظام دوسری جنگ عظیم میں فتح یاب ممالک کی برتری کا نقیب ہے جبکہ دنیا کے معروضی حالات بدل چکے ہیں۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کو نئے معروضی حالات تسلیم کرتے ہوئے مندرجہ بالا چار پیاروں کو دائمی چوہدراہٹ دے دینی چاہیے۔پاکستان کے دلائل یہ ہیں کہ معاملہ بہت حساس ہے لہٰذا اسے مکمل اتفاق رائے سے حل ہونا چاہیے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے بیشتر نئے رکن ترقی پذیر ممالک سے ہیں لہٰذا غیر دائمی یعنی عارضی ممبران کی تعداد بڑھا دی جائے تاکہ دنیا کے تمام خطوں کو نمائندگی مل جائے ۔پاکستان کی ایک اور وزنی دلیل یہ ہے کہ دائمی اورعارضی ممبران کی تفریق سے پہلے ہی اس نظام میں دو طبقے پیدا ہو چکے ہیں یعنی ایک اشرافیہ کے درجہ کے ممالک اور دوسرے عام ممالک۔ پاکستان کہتا ہے کہ پانچ دائمی ارکان سکیورٹی کونسل میں مزید چار شامل کرنے سے اقوام متحدہ میں ذات پات کا نظام مزید تقویت پائے گا۔پاکستان کے ہم خیال ممالک میں اٹلی‘ سپین‘ جنوبی کوریا‘ ارجنٹائن اورمصر شامل ہیں۔پاکستان اور ہم خیال ممالک اس سلسلہ میں باقاعدگی سے ملتے ہیں۔ اس گروپ نے براعظم افریقہ کے ممالک کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔ افریقہ واحد براعظم ہے جس کی سلامتی کونسل میں کوئی دائمی سیٹ نہیں۔پاکستان کو ڈر ہے کہ ہندوستان ہمیشہ کے لیے سکیورٹی کونسل میں پہنچ گیا تو مسئلہ کشمیر میں پاکستانی نقطہ نظر مزید کمزور ہو جائے گا۔
معاف کیجیے گا کالم کچھ زیادہ سنجیدہ ہو گیا۔ 1962ء میں سر ظفر اللہ خان جنرل اسمبلی کے صدر تھے ۔ ہندوستان کے نمائندے غالباً سردار سورن سنگھ تھے۔دن کے بارہ بجے تھے۔ چائے کا وقفہ تھا۔ ظفر اللہ خان نے ایک کارندے کو بلایا اور کہا کہ ہندوستانی نمائندے سے پوچھو کہ وقت کیا ہے؟ کارندہ سردار جی کے پاس گیا۔ سردار جی نے صحیح جواب دینے کی بجائے صرف یہ کہا کہ تمہیں پاکستانی نمائندے نے بھیجا ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں