"JDC" (space) message & send to 7575

جکارتہ کا معما

صدر ایوب کا زمانہ تھا ۔جنرل شیر علی خان انڈونیشیا میں پاکستان کے سفیر تھے۔جنرل صاحب نے جکارتہ میں سفارت کے دوران ایک بہت ہی اچھا کام کیا۔شہر کے مرکزی پوش ایریا میں پاس پاس دو شاندار عمارتیں خریدیں۔2001ء تک ہمارے سفیر وہاں قیام پذیر رہے اور دفتر ان کے گھر سے اتنا قریب تھا کہ آرام سے پیدل جانا ممکن تھا۔یہ جکارتہ شہر میں جالان تنکو عمر کا ایریا ہے جہاں بہت ہی منتخب لوگ رہتے ہیں۔یوں سمجھئے کہ جکارتہ کا سب سے اچھا ایڈریس تھا۔
مجھے یہ ایریا دیکھنے کا 2003ء میں موقع ملا ۔اُس وقت یہ شاندار عمارتیں اور اُن کے اردگرد نو ہزار گز کا ایریا بِک چُکا تھا۔ مجھے وزارت خارجہ کی عمارتوں کے لیے نئی جگہ کا انتخاب کرنا تھا۔مجھے اور ایڈیشنل فنانس سیکرٹری ساجد حسن کو اس ڈیوٹی پر بھیجا گیا۔ساجد حسن، میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانے سے دوست تھے لہٰذا آنے جانے کا سفر بہت اچھا کٹا۔بنکاک تک موجودہ فنانس سیکرٹری وقار مسعود خان کا ساتھ رہا۔وقار صاحب کو غالب اور فیض صاحب کے بے شمار شعر ازبر ہیں۔ اُن سے اشعار سنتے سنتے ہم بنکاک پہنچ گئے جہاں سے ہم جکارتہ روانہ ہوئے اور وقار صاحب کسی اور ملک چلے گئے۔
جکارتہ میں اُن دنوں میجر جنرل (ریٹائرڈ) مصطفی انور حسین سفیر تھے۔ساجد حسن اور میں تین چار دن جکارتہ میں مناسب پلاٹوں کی تلاش میں پھرتے رہے۔ بالآخر تین پلاٹوں کی نشاندہی کر کے واپس اسلام آباد آ گئے۔جکارتہ قیام کے دوران میں نے خاص طور پر اپنی فروخت شدہ عمارتوں کو دیکھنے کا پروگرام بنایاایک تو ان عمارتوں کی بہت تعریف سنی تھی اور اس سے زیادہ اُس علاقے کی جہاں ہمار ے دفاتر اور سفیر صاحب کا گھر تھا۔یقین مانئے کہ میں نے آج تک جتنے پاکستانی سفارت خانے دیکھے ہیں ان میں سے بہترین لوکیشن اس ایمبیسی کی تھی۔سفیر صاحب کا گھر بارہ کنال پلاٹ پر تھا اور دفتر چھ کنال پر۔یہ ڈچ زمانے کی بنی ہوئی شاندار کولونیل سٹائل کی عمارتیں تھیں۔ہمارے سفیر کے گھر اور صدر سوہارتو کے گھر کی دیوار مشترکہ تھی۔پاس ہی سکارنو پتری کا گھر تھا۔امریکی سعودی اوربھارتی سفیر بھی اسی ایریا میں رہائش پذیر تھے۔میں نے دونوں شاندار عمارتوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھا کیونکہ اب یہ حکومت پاکستان کی ملکیت نہیں رہی تھیں۔
2001ء میں یہ عمارتیں بیچی گئیں تو پاکستان میں میڈیا میں خاص بحث چھڑ گئی۔ہوا یوں کہ عمارتوں کا سودا سفیر پاکستان جناب مصطفی انور حسین نے کیا۔ڈپٹی ایمبیسڈر مشتاق حیدر رضوی تھے۔رضوی صاحب سینئر سفارت کار تھے اور اُس وقت سفارت خانہ میں منسٹر کی پوسٹ پر فائز تھے جو کہ گریڈ بیس کی پوسٹ ہے۔جب یہ سودا ہو رہا تھا تو رضوی صاحب نے مخالفت کی لیکن سفیر صاحب نے اُن کی اپوزیشن کو وقعت نہ دی۔2001ء میں ہمارے فارن آفس میں اے ایس (ایڈمن) بریگیڈیئر نثار صاحب تھے۔رضوی صاحب نے بریگیڈیئر صاحب سے فون پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔بریگیڈیئر صاحب نے کہا کہ آپ یہ باتیں لکھ کر بھیج دیں۔رضوی صاحب نے ہدایت پر عمل کرتے ہوئے فیکس روانہ کر دی۔لیکن ہمارے سفارت خانہ کی عمارتوں کو بیچنے کا عمل رُک نہیں سکا۔عمارتیں بِک گئیں۔رضوی صاحب کو اسلام آباد بُلا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا اور وہ اپنی ریٹائرمنٹ یعنی 2008ء تک کھڈے لائن لگے رہے۔فارن سروس کے ہر افسر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سفیر بنے لیکن رضوی صاحب کی یہ خواہش بھی حسرت میں تبدیل ہو گئی۔
جب ان قیمتی عمارتوں کی فروخت کے بارے میں شور بلند ہوا تو اسلام آباد سے ایک سہ رکنی کمیٹی بھیجی گئی۔ کمیٹی کے سربراہ اُس وقت کے کیبنٹ سیکرٹری جاوید مسعود تھے۔دراصل سفیر صاحب نے سارا عمل کُچھ شتابی میں کیا تھا قاعدہ قانون یہ ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے قبل وزارت خارجہ کے ذریعے مجاز اتھارٹی سے اجازت لی جاتی ہے۔ جکارتہ کی عمارتیں اس اجازت کے بغیر بیچی گئیں اور مستزاد یہ کہ عمارتیں بیچنے سے پہلے کسی اخبار میں اشتہار بھی نہیں دیا گیا۔کمیٹی جکارتہ گئی اور اپنی رپورٹ میں لکھا کہ عمارتوں کی فروخت میں قواعد سے انحراف ضرور ہوا ہے لیکن قیمت مناسب وصول ہوئی ہے لہٰذا حکومت پاکستان کو نقصان نہیں ہوا۔ساتھ ہی کمیٹی نے یہ تجویزکیا کہ مجاز اتھارٹی اس ایکشن کی ایکس پوسٹ فیکٹو منظوری دے دے۔صدر مشرف نے اس تجویز کی منظوری دیدی۔2001ء میں یہ دونوںعمارتیں مع رقبہ تیرہ لاکھ بیس ہزار ڈالر میں فروخت ہوئی تھیں ۔میں نے قیمت فروخت انٹرنیٹ سے لی ہے لہٰذا دروغ برگردن انٹرنیٹ۔
مشتاق حیدر رضوی 2010ء میں اسلام آباد کلب میں بیٹھے بیٹھے 
دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔اب یہ معاملہ پھر سے میڈیا میں آیا۔2011ء میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے آیا۔غالباً ندیم افضل چن ایم این اے صدارت کر رہے تھے ۔آڈٹ رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ سفیر مصطفی انور حسین کو صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم پر بے گناہ قرار دیا گیا ۔پی اے سی نے رضوی مرحوم کی بیوہ کو بھی بُلایا مسز رضوی کا کہنا تھا کہ میرے خاوند کے ساتھ ظلم ہوا اور وہ اسی صدمے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔مسز رضوی نے الزام لگایا کہ کیبنٹ سیکرٹری جاوید مسعود نے اپنے ملازمتی کنٹریکٹ میں توسیع کے لیے جنرل مصطفی انور حسین کو بے گناہ قرار دیا۔واللہ اعلم بالصواب ۔ویسے یہ بات کوئی راز نہیں کہ جنرل مصطفی انور حسین اور جنرل مشرف کی دوستی کا کول کے زمانے سے ہے۔
اس کالم کا مقصد کوئی فیصلہ صادر کرنا نہیں ہے اور نہ ہی کالم نگار عدلیہ کا جج ہوتا ہے؛ البتہ میرا مقصد صرف حقائق کو دہرانا ہے اور یہ حقائق کئی مرتبہ اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔مقصد صرف یہ ہے کہ اگر ہم سے جکارتہ میں غلطی ہوئی ہے تو اُسے دہرایا نہ جائے۔رہی احتساب کی بات تو پی اے سی کی میٹنگ کے دوران ہی نیب کے نمائندہ نے کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق معاملہ نیب کے پاس ہے۔وہاں تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلا ہے یہ میرے علم میں نہیں۔
دس سال پہلے جکارتہ میں سفارت خانہ کی نئی عمارت کا آغاز ہوا لیکن جو لوگ وہاں جاتے رہے ہیں ان کے کہنے کے مطابق نئی عمارت پرانی عمارت کا عشر عشیر بھی نہیں۔دوسرے نئی عمارت کا رقبہ پہلے والے ایریا سے خاصا کم ہے۔ کالم لکھنے سے پہلے میں نے جکارتہ میں جکارتہ کے تجربہ رکھنے والے کئی سابق سفیروں اور دیگر لوگوں سے بات کی، سب کف افسوس مل رہے تھے کہ عمارتیں غیر شفاف طریقے سے کیوں بیچی گئیں اور اول تو اتنی اعلیٰ پراپرٹی کو بیچا ہی کیوں گیا۔
جب 2011ء میں پبلک اکائونٹس کمیٹی جکارتہ مشن کی آڈٹ رپورٹ پر بحث کر رہی تھی تو موجودہ سپیکر قومی اسمبلی سردارا یاز صادق ممبر تھے۔سردار صاحب نے ساری کہانی سننے کے بعد اور بیوہ کی حالت دیکھ کر کہا ''جو لوگ ایماندار افسروں کا استحصال کرتے ہیں ہم انہیں نشان عبرت بنا دیں گے‘‘ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
مرحوم مشتاق رضوی کی بیوہ کبھی کبھار نظر آتی ہیں تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ایک افسر کا جائز دفاع بھی نہ کیا جاسکا۔جکارتہ جو انکوائری کمیٹی گئی اس میں وزارت خارجہ کا ایک افسر بھی نہ تھا۔عمارتیں وزارت خارجہ کی فروخت ہوئیں اور منسٹری کو بے خبر رکھا گیا۔ اور ڈیل بھی ایسی ہوئی کہ جیسے کوئی ادارہ لاہور مال روڈ پر گورنر ہائوس سے متصل اٹھارہ کنال زمین بیچے اور بعد میں ڈیفنس میں چھ سات کنال کا پلاٹ خرید کر نئی عمارت بنائے۔میں نے چونکہ جکارتہ والی پرانی عمارتیں دیکھی ہیں لہٰذا اب بھی یہ بات میرے ذہن میں ایک معما کی طرح معلق ہے کہ یہ سارا عمل کیوں ضروری تھا۔پھر بھی میں کوئی فیصلہ صادر نہیں کر سکتا۔
اس کہانی کا ایک کردار تو اللہ کو پیارا ہو گیا۔ وہ ہمارے ظالم نظام کی نذر ہوا لیکن باقی کردار تو زندہ ہیں ۔کیا ہمارا قومی فریضہ نہیں کہ جکارتہ کی گتھی کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔کیا قومی خزانے سے خریدی ہوئی ان عمارتوں کی غیر شفاف فروخت کا قصہ بھی داخل دفتر ہو جائے گا؟اس پر شاید نیب ہی کچھ روشنی ڈال سکے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں