"JDC" (space) message & send to 7575

اندیشہ ہائے دور دراز

جب گھروں کے گرد دیواریں اونچی ہونے لگیں اور پھر اُن دیواروں پر خار دار تاریں نصب ہونے لگیں تو سمجھ لیں کہ معاشرہ روبزوال اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں کئی گلیوں میں بیریئر لگے ہوئے ہیں۔ہر متمول گھر کے باہر مسلح گارڈ بیٹھا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ امریکہ اور کینیڈا میں گھروں کے گرد چار دیواری نہیں ہوتی۔زیادہ سے زیادہ لکڑی کا تین چار فٹ کا جنگلہ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں اب درجنوں ایسی ہائوسنگ سکیمز بن رہی ہیں جن کے گرد دیوار ہے اور مین گیٹ پر پہرہ ہے۔پچھلے ایک دو سال میں میرے چند دوست اسلام آباد سے ڈی ایچ اے تحفظ کی تلاش میں شفٹ ہوئے ہیں۔
جب انسان نے اپنے آپ کو ریاست کے تابع کرنے کا فیصلہ کیا تو اُس سوشل کنٹریکٹ کا مقصد یہی تھا کہ ریاست اسے تحفظ فراہم کرے گی اور اس طرح سے شہریوں کی زندگی میں بہتری آئے گی اور وہ اپنے معاشی اہداف کے حصول کے لیے کام کر سکیں گے۔محفوظ راستے تجارت کو فروغ دیں گے۔آہستہ آہستہ ریاست کے فرائض بڑھنے لگے اور ویلفیئر سٹیٹ بنی جہاں تعلیم‘ صحت اور انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی حکومتی فرائض میں شامل ہو گئے۔جمہوریت آئی تو لوگوں کو اپنے حکمران منتخب کرنے کا حق ملا۔حکومت لوگوں سے ٹیکس وصول کر کے ان کی فلاح پر لگاتی ہے۔امریکہ اور یورپ میں متمول لوگ آمدنی کا خاطر خواہ حصہ ٹیکسوں میں دیتے ہیں اور انہیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ پیسہ ان کی فلاح کے لیے خرچ ہو گا۔ جو جتنا ٹیکس دیتا ہے اسی حساب سے پنشن اور سوشل سکیورٹی ملتی ہے۔ لوگوں کو عمومی طور پر حکومت کے فیصلوں پر اعتماد ہے۔پاکستان میں لوگ ایدھی کو پیسے دیتے ہیں مگر حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے اس لیے کہ حکومت کی مصداقیت یعنی ساکھ کمزور ہے۔
میں بنیادی طور پر رجائیت پسند شخص ہوں اور اللہ تعالیٰ نے بھی قنوطیت سے منع فرمایا ہے۔2008ء میں الیکشن ہوا تو شکر کیا کہ دو بڑی جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی۔2009ء میں عدلیہ بحال ہوئی تو دل ناکردہ کار کے ولولے اور بلند ہو گئے۔ لگتا تھا کہ قانون کی حُکمرانی آ رہی ہے اور پھر 2013ء میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سویلین حکومت کی جگہ دوسری سویلین حکومت آئی تو لگا کہ جمہوریت راسخ ہو چکی ہے مگر یہ رجائیت بھی عارضی ثابت ہوئی ۔اور اب لگتا ہے کہ جمہوریت بھی لنگڑا رہی ہے اور ریاست بھی کمزور ہوئی ہے۔
شفاف کھرے اور ستھرے الیکشن جمہوریت کا ایک بازو ہیں جبکہ دوسرا بازو عوامی توقعات کے مطابق کارکردگی ہے اس لیے کہ جمہوریت میں حکام کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے اور اگر پاکستان میں ایسی ہی خالص جمہوریت آتی تو میٹروبس پرصرف ہونے والا پیسہ انرجی سیکٹر میں لگتا یا 2013ء میں ہی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے پر صرف ہوتا۔ شاید پشاور میں شہید ہونے والے ننھے پھول بچ جاتے ۔مگر حکمرانوں کی ترجیحات اور عوام کی سوچ میں بڑا فرق ہے لہٰذا ہماری جمہوریت کمزور ہے لیکن میری نظر میں جمہوریت کے علاوہ چارہ بھی نہیں اور اچھی جمہوریت احتساب کے بغیر ممکن ہی نہیں۔2010ء میں اسلام آباد میں میرے گھر ڈاکہ پڑا تو ڈاکوئوں نے الٹا شکوہ کیا کہ آپ کے گھر سے کُچھ خاص نہیں ملا تو میں نے ازراہ تفنن کہا کہ پھر تم حکمرانوں کے گھر ڈاکے لگائو۔ایک حاضر جواب ڈاکو بولا‘ حکمران تو ہم سے بھی بڑے ڈاکو ہیں۔
ان حالات میں چند عشرے پہلے والا اپنا ہی ملک یاد آتا ہے۔لوگ فلم کا آخری شو دیکھ کر آدھی رات کے بعد پیدل یا سائیکلوں پر گھر جاتے تھے۔ہم چند دوست مل کر کبھی کبھار آدھی رات کو سائیکلوں پر ضلع کچہری لاہور کے سامنے نیو ہوسٹل سے ملتان روڈ پر واقع فلم سٹوڈیو شوٹنگ دیکھنے جاتے۔آدھا راستہ اجاڑ بیابان تھا۔رات کو دو تین بجے واپس ہوسٹل آتے‘ ایسا صرف ویک اینڈ پر ممکن تھا باقی دنوں میں پڑھائی بھی خوب ہوتی تھی۔اور ہوسٹل سے رات کو غائب ہونے والی حرکت صرف سینئر لڑکے ہی کرتے تھے۔کتنا تحفظ تھا اس زمانے میں۔ 
1964ء میں گورنمنٹ کالج کی صد سالہ تقریبات ہوئیں تو صدر ایوب خان چیف گیسٹ تھے ۔سکیورٹی برائے نام تھی۔مجھے یاد ہے نور لغاری بطور ایس پی صدر صاحب کے ساتھ تھے اُن کے علاوہ ایک اے ڈی سی وردی میں تھا‘ کوئی جامہ تلاشی نہیں ہوئی۔ کوئی سکیورٹی گیٹ یا کیمرے نہ تھے۔شہریوں کے تحفظ کے لحاظ سے ہم نے واقعی معکوس ترقی کی ہے۔
لیکن یہ امر بھی محل نظر رہے کہ ریاستیں آہستہ آہستہ کمزور ہوتی ہیں۔مشرقی پاکستان کا سانحہ 1971ء میں ہوا لیکن اس کے عوامل کئی سال سے شروع تھے۔ آج اگر پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے تو یہ عمل بھی برسوں پہلے شروع ہوا تھا۔آج اگر لوگ ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں تو اس میں ہماری اشرافیہ کی ٹیکس چوری کی عادت بھی ایک وجہ ہے۔آج اگر سرکاری ہسپتال اور سکول روبزوال ہیں تو یہ ہماری خراب گورننس کی وجہ سے ہیں‘ فنڈز کی کمی سے نہیں۔ 1997ء میں وفاق کے وسائل کا 37.5فیصد صوبوں کو ملتا تھا آج57فیصد ملتا ہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت صوبوں کے پاس ہیں مگر گھوسٹ سکول آج بھی موجود ہیں۔ تھر کے بچے غذائی قلت سے مر رہے ہیں جبکہ اشرافیہ بسیار خوری کی وجہ سے امراء والی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے اور پاکستان خوراک میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ برآمد بھی کرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ریاست اپنے ادنیٰ فرائض پورے کرنے سے بھی قاصررہی ہے۔پچھلے دنوں قومی نصاب کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک قومی نصاب پر اتفاق رائے ہموار کیا جائے۔ دو صوبوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہم اپنا علیحدہ نصاب بنا سکتے ہیں۔گویا ہم اب ایک قوم والا تشخص ابھارنے کے بھی قابل نہیںر ہے۔
تلخ نوائی کی معافی چاہتا ہوں لیکن آج کچھ درد میرے دل میں سواہوتا ہے۔ہمارے رویے متشدد ہو رہے ہیں۔ہر کوئی دوسرے کو مرعوب کرنا چاہتا ہے۔ کوئی دولت کی نمائش سے‘ کوئی انگریزی بول کر‘ کوئی لینڈ کروزر کو سرپٹ بھگا کر اور کوئی آٹھ دس مسلح گارڈ ساتھ رکھ کر۔ وکلاء کی آزاد عدلیہ کے لیے تحریک ہوتی ہے۔عدلیہ کے بہتر ہونے کی امید بندھتی ہے تو ضلعی سطح پر وکلا ء ججوں کو مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں ۔آپ نے پڑھا ہو گا کہ دو ماہ قبل صدر اوباما اپنی بیوی کے ہمراہ ایک ریسٹورنٹ میں ڈنر کرنے گئے ۔کھانا کھا چکے تو بیرے کو اپنا کریڈٹ کارڈ دیا۔بیرا واپس آیا کہ ہماری مشین آپ کا کارڈ قبول نہیں کر رہی۔فرسٹ لیڈی نے اپنا کارڈ دیا تو مسئلہ حل ہوا۔اگر کوئی بیرا پاکستان میں ہمارے حکمرانوں کی شان میں ایسی گستاخی کرتا تو کیا حشر ہوتا؟ آپ کو لاہور کی بیکری والا واقعہ یاد ہوگا۔
ہمارا معاشرہ اپنی منطق کھو بیٹھا ہے۔ گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے توڑے تو سزا وار اور پولیس چودہ پاکستانیوں کو ماڈل ٹائون میں مار ڈالے تو قانون سست۔تو پھر اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے کہ سی ایس ایس کا امتحان دینے والے اکثر امیدوار پولیس سروس آف پاکستان میں جانا چاہتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی بندوق اٹھانا چاہتا ہے۔ اگر حکومت دے دے تو کیا خوب ورنہ سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ تو ہیں ہی اور کالعدم تنظیمیں بھی تو ہیں۔ پنجاب کا ہوم منسٹر اقرار کرتا ہے کہ کئی جعلی لائسنس پچھلے ڈیڑھ سال میں ایشو ہوئے ہیں۔ذوالفقار مرزا نے قسم کھا کر کہا کہ ہزاروں اسلحہ لائسنس ایک پولیٹیکل پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے سندھ حکومت نے ایشو کئے۔پھر ہم امید کرتے ہیں کہ ملک میں امن ہو۔لطیفہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کے بیس نکاتی ایکشن پلان میں ناجائز اسلحہ پرقابو پانے کا کوئی ذکر نہیں۔ہم اپنی تباہی کے خود ذمہ دار ہیں۔دشمن کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ گیلانی صاحب وزیر اعظم ہوں تو سارے ترقیاتی فنڈ ملتان کا رخ کرتے ہیں۔ راجہ صاحب راج سنگھاسن پر بیٹھیں تو سرکاری پیسہ گوجر خان کا رُخ کرتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت ہو تو ترقیاتی کاموں کا محور لاہو ر شہر ٹھہرتا ہے یا جی ٹی روڈ۔اعلیٰ سے اعلیٰ خیرہ کن منصوبے بن رہے ہیں لیکن غریبوں کے بچوں کے لیے سکول ندارد۔ حکومت نہ بجلی کے بل پورے وصول کر رہی ہے اور نہ ٹیکس۔
لوکل حکومتیں 2007ء سے غائب ہیں۔امریکہ کے اکثر سکول کائونٹی چلاتی ہے ۔کائونٹی کے سکول میں باہر کے بچے داخل نہیں ہو سکتے اگر کوئی مُصر ہو تو دگنی فیسیں دے۔بڑے سے بڑا آدمی ایئرپورٹ پر تلاشی دیتا ہے‘ اسے کہتے ہیں قانون کی حکمرانی۔ خوف مجرموں کے دل میں ہونا چاہیے نہ کہ عام شہریوں کے دلوں میں۔ ملک ایسے نہیں چلتے۔
لوگ اس قدر سنکی ہو رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔میرے ایک دوست جو بہت سینئر عہدوں پر رہے ہیں‘ ذو معنی الفاظ اور جملے کہنے کے بادشاہ ہیں۔ کل ملے تو کہنے لگے‘ ملک اتفاق سے چل رہا ہے۔ میں نے پوچھا کیا مطلب؟ کہنے لگے‘ حسب منشا مطلب نکال لیجیے کہ ملک بھی حسب منشا چل رہا ہے۔یہ جملے مجھے لاجواب کر گئے۔ملک ایسے نہیں چلا کرتے ۔سوچیں اور اپنے مسائل کے مناسب حل تجویز کریں‘ یہ کام چنداں مشکل نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں