"JDC" (space) message & send to 7575

یمن تباہی کے دہانے پر

یمن سعودی عرب کے جنوب میں واقع ایسا ملک ہے جو سٹریٹیجک لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ اس لیے کہ ایران اور خلیجی عرب ممالک سے مغرب کی جانب جانے والے تیل کے تمام جہاز خلیج عرب سے گزرتے ہیں۔ پچھلے چار پانچ سال سے یہ ملک القاعدہ کی نئی آماجگاہ بنا ہے۔ پچھلے ستمبر میں زیود نے ملک کے کئی حصوں پر قبضہ کرلیا۔ زیود جمع ہے زیدی کی اور یہ یمنی شیعہ ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اعتدال پسند تھے لیکن گزشتہ چند برس میں ان کی عسکری طاقت سامنے آئی ہے۔ انہیں عرف عام میں حوثی بھی کہا جاتا ہے اور یہ نام ان کے روحانی لیڈر بدرالدین الحوثی سے ماخوذ ہے۔ آج کل ان کے فرزند عبدالملک الحوثی اہم لیڈر ہیں۔ بہرحال حوثی کسی مسلک یا فرقے کا نام نہیں۔
چند روز پہلے حوثی باغیوں نے صنعا میں صدارتی محل پر حملہ کیا۔ محل کے محافظوں نے لڑنے کی زحمت نہ کی۔ حوثی اس کمپلیکس کے کئی حصوں پر قابض ہوگئے ۔ صدر عبدربوہ منصور ہادی اسی جگہ رہتے ہیں اور یہیں ان کا دفتر بھی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق فریقین میں صلح کے لیے بات چیت ہورہی تھی۔ صنعا میں صدارتی محل پر حوثی باغیوں کا قبضہ خلیجی ممالک کے لیے خطرے کی بڑی گھنٹی تھی۔ چنانچہ جی سی سی کے وزراء کا ہنگامی اجلاس ریاض میں بلایاگیا جہاں اعلامیہ ایشو کیاگیا کہ بندوق کی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کیاجائے گا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حوثی باغیوں کو ایران اور حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔
میں یمن دو مرتبہ گیا ہوں۔ میں نے صنعا اور عدن دونوں شہر دیکھے ہیں۔میں اپنے مختصر تاثرات آگے جاکر بیان کروں گا لیکن فی الحال چند قرآنی اور تاریخی حوالوں کا ذکر ضروری ہے۔ عام تصور یہ ہے کہ عربوں کا اصل وطن یمن ہی ہے۔ زمانہ قدیم میں جب مآرب کا ڈیم ٹوٹا تو ملک کے کئی حصے زیر آب آگئے۔ کئی قبائل نے شمال کی طرف ہجرت کی اور آج یہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں بستے ہیں۔ قرآن کریم میں سدمآرب کا ذکر ہے۔ عام خیال یہ بھی ہے کہ حضرت سلیمان کا تعلق بھی یمن سے تھا اور سبا کی ملکہ بلقیس بھی اسی ملک میں مقتدر رہیں۔ سورہ القریش میں رحلۃ الشتاوالصیف کا ذکر ہے۔ یعنی موسم گرما اور سرما میں جانے والے تجارتی قافلے جو سردیوں میں جنوب یعنی یمن جاتے تھے اور گرمیوں میں شمال یعنی شام کی جانب روانہ ہوتے تھے۔ کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یمن عود بخود اور لوبان کی ایکسپورٹ کے لیے مشہور تھا۔ اسلام کے آنے کے بعد حضر موت کا شہر تجارت کا بڑا مرکز بنا اور اسی علاقہ کے تاجروں کی بدولت دین حنیف انڈونیشیا اور ملائشیا تک پہنچا ۔اب واپس لوٹ آتے ہیں وقت حاضر میں ۔یمن ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں قبائلی نظام ابھی تک راسخ ہے۔ اکثر مرد بندوق ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں۔ مرکزی حکومت کی رٹ بڑے عرصے سے کمزور ہے۔ خاصا بڑا علاقہ پہاڑی اور دشوار گزار ہے۔ ہمارے قبائلی علاقہ یعنی فاٹا اور یمن کے کئی حصوں میں خاصی مماثلت ہے۔ عرب سپرنگ نے2011ء میں یمن کا بھی رخ کیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یمن میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے تھے ۔ صدر علی عبداللہ صالح ایک حملہ میں زخمی ہوئے اور سعودی عرب میں پناہ لی۔ بالآخر اقوام متحدہ اور خلیجی ممالک کی کوشش سے یہ حل نکالا گیا کہ صدر اقتدار سے علیحدگی کا اعلان کریں اور نائب صدر عبد ربوہ ہادی منصور ملک کی باگ ڈور سنبھال لیں۔ صدر صالح کے زمانے میں یمن میں کرپشن عام تھی۔ صدر کا بیٹا علی صالح ریپبلکن گارڈ کا کمانڈر تھا اور اب بھی ہے۔ اکثر عرب ممالک میں روایت ہے کہ عام فوج کے متوازی ایک اور فوج بنائی جاتی ہے جو کہ وفادار قبائل کے نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس متوازی فوج میں حکمران اپنے عزیزوں کو کلیدی عہدے دیتے ہیں۔ عراق اور لیبیا میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ غرض وغائت یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی طالع آزما جرنیل اقتدار کی طرف للچائی آنکھوں سے دیکھے تو وفادار فوج اس کے عزائم کی راہ میں حائل ہوسکے۔ علی صالح اپنے والد کے اقتدار کو تو نہ بچا سکے لیکن آج کے یمن میں بھی ان کی عسکری اہمیت ہے۔ علی عبداللہ صالح سعودی عرب میں چند ماہ قیام کے بعد واپس یمن چلے گئے تھے اور آج کل باپ بیٹا دونوں حوثی باغیوں کے حامی ہیں۔
میں 1986ء میں جبوتی جاتے ہوئے صنعا میں رکا تھا۔ صنعا سطح سمندر سے خاصا بلند ہے اور آب و ہوا اچھی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں دنیا میں سب سے پہلے کئی منزلہ عمارتیں بنیں۔ یہ صدیوں پہلے کی بات ہے جب نہ سیمنٹ کے بلاک تھے نہ سریا۔ آج بھی یہ عمارتیں سیاحوں میں مقبول ہیں۔1988ء میں مجھے تین ہفتے کے لیے سرکاری طور پر عدن جانے کا موقع ملا۔ عدن اس زمانے میں جنوبی یمن کا دارالحکومت تھا۔ جنوبی یمن عرب دنیا کا واحد ملک تھا جہاں اشتراکیت پورے زور سے آئی تھی۔ لوگوں کے مکان اور دکانیں تک قومیائے گئے۔ آناً فاناً دکانوں کے مالک سرکاری ملازم بن گئے۔ اشتراکیت کے آنے سے پہلے عدن ایک ماڈرن شاپنگ سنٹر کے طور پر مشہور تھا۔ بالی وڈ کے فلمی ستارے شاپنگ کے لیے ممبئی سے عدن جاتے تھے۔ میں جب عدن پہنچا تو اشتراکیت اس کا حسن ختم کرچکی تھی۔ رہی سہی کسر1986ء کی سول وار نے پوری کردی۔ یہ قبائلی لیڈروں میں اقتدار کی جنگ تھی۔ ایک قبائلی معاشر ے پر اشتراکیت امپورٹ کرکے ٹھونس دی جائے تو یہی حشر ہوتا ہے۔ایسا ہی سوویت یونین نے افغانستان میں کیا اور نتائج وہاں بھی سراسر منفی نکلے۔ عدن میں چند ایک پاکستانی فیملیز بھی تھیں جو کاروباری لوگ تھے اور بیچارے اس انتظار میں تھے کہ کب اشتراکیت رخصت ہواور ان کے گھر اور دکانیں واپس مل جائیں۔ مجھے عدن میں قیام کے دوران پاکستانی بھائیوں سے بہت محبت اور احترام ملا۔ چند ہی برس کے بعد اشتراکیت پوری دنیا سے رخصت ہوئی اور یمن کے دونوں حصے پھر سے اکٹھے ہوگئے لیکن شمال اور جنوب کی مسابقت آج بھی جاری ہے۔
اور اب چلتے ہیں یمن کی موجودہ صورتحال کی جانب ۔میں نے بہت کوشش کی کہ زیود کی آبادی کا تناسب معلوم کیا جائے لیکن بالکل صحیح اور ایک رائے نہ انٹرنیٹ سے ملی اور نہ ہی عرب دوستوں سے۔ عام آرا 33فیصد سے لے کر 40فیصد تک تھیں۔ ایک بات پر سب متفق تھے کہ سنی کم از کم آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ ہیں اور یہ زیادہ دیر زیود کا غلبہ برداشت نہیں کریں گے۔ یمن کے اکثر دیہی علاقوں میں عام طور پر اور جنوب میں خاص طور پر موجودہ صورت حال سے لوگ پریشان ہیں۔ صدر عبد ربوہ ہادی منصور میرے کالم لکھتے لکھتے مستعفی ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم اور کابینہ نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ صنعا کے شہر اور گردونواح پر عبدالملک الحوثی کے ملیشیا کا قبضہ ہے اور عبدالملک کو سابق صدر اس کے بیٹے اور ایران کی حمایت حاصل ہے۔ 
سعودی عرب اور یمن کا بارڈر طویل ہے۔ جس طرح افغانستان کے حالات پاکستان پر ضرور اثر انداز ہوئے ویسی ہی صورت حال وہاں ہے۔ لہٰذا سعودی عرب یمن میں بدامنی سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ یمن میں بڑی اسلامی پارٹی الاصلاح پارٹی ہے جس کے عرصے سے مصر کے اخوان سے قریبی تعلقات ہیں۔ جب سے اخوان زیر عتاب آئے ہیں، الاصلاح پارٹی کی بین الاقوامی مدد بھی کم ہوئی ہے۔ یمن کی موجودہ صورتحال سے امریکہ اور سعودی عرب دونوں پریشان ہیں۔ یمن واضح طور پر سول وار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حوثی باغیوں کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سنی اکثریت ضرور بغاوت کرے گی اور عراق والے حالات پیدا ہوں گے۔ عراق اور یمن دونوں کی سلامتی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سنی اور شیعہ بھائی بھائی ہوجائیں اور مل کر اپنے ممالک کو چلائیں۔
سول وار کی صورت میں فائدہ صرف القاعدہ جیسی تنظیموں کا ہوگا۔ یمن کا پہاڑی علاقہ جہاں ہر شخص بندوق بردار ہے، انتہا پسندوں کی جنت بن سکتا ہے۔ سول وار نے طول کھینچا تو یمن ایک اور صومالیہ بن سکتا ہے جہاں عالمی انتہا پسندوں اور بحری قزاقوں کا راج ہوگا۔ ایسی صورت میں عالمی تجارت بری طرح متاثر ہوگی۔ مجھے لگتا ہے کہ نئی سعودی قیادت امریکہ اور یورپ کے ساتھ مل کر یمن میں استحکام لانے کی کوشش کرے گی۔ صنعا میں حلیف حکومت گرنے سے امریکہ اور خلیجی ممالک کو نقصان ہوا ہے۔ ایران کا اثرورسوخ بڑھا ہے اور یمن سول وار اور عالمی تنہائی کی جانب جارہا ہے۔ خدا کرے کہ نوبل انعام جیتنے والی توکل کرمان کا ملک کسی بڑی تباہی سے دوچار نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں