"JDC" (space) message & send to 7575

اکیڈمی کے شب و روز

1971ء میں سی ایس ایس کا امتحان دیا تو پاکستان میں میری 14 ویں پوزیشن آئی۔ اُس زمانے میں نوجوانوں کو سی ایس پی بننے کا خبط تھا۔ اچھی پوزیشن کے باوجود میں سول سروس میں نہ آ سکا کیونکہ پنجاب کی سیٹوں کے لیے مقابلہ سخت تھا۔ فیڈرل پبلک سروس کمشن والوں سے استفسار کیا تو جواب ملا کہ بارڈر لائن کیس ہے ‘فارن سروس مل سکتی ہے یا پولیس سروس۔ میں خوش ہو کر تھانیداری کے خواب دیکھنے لگا ‘ساتھ ہی والد صاحب کو بتایا کہ بارڈر لائن کیس ہے وہ ہر نماز کے بعد دعا مانگنے لگے کہ خدا یا میرا بیٹا پولیس سروس میں نہ جائے تو بہتر ہو گا۔ میں نے دعا کی وجہ دریافت کی اور ساتھ ہی وعدہ کیا کہ اگر پولیس میں گیا تو ایمانداری کو شعار بنائوں گا‘ والد صاحب کا جواب تھا کہ پولیس سروس میں سہواً بھی ظلم ہو جاتا ہے۔
1972ء میں مال روڈ پر واقع کولونیل سٹائل کی شاندار بلڈنگ میں ٹریننگ شروع ہوئی۔ والد صاحب کی دعا قبول ہو چکی تھی اور مجھے فارن سروس مل گئی۔ اس زمانے میں سول اور فارن سروس ٹاپ کے گروپ تھے۔ لہٰذا ان کی ٹریننگ علیحدہ ہوتی تھی۔ اور تو اور تنخواہ بھی دیگر کلاس ون افسروں سے سو روپے زیادہ تھی۔ اس سال عارف ذوالفقار پورے پاکستان میں فرسٹ آیا تھا اور محمد علی ایوب دوسرے نمبر پر۔ دس افسر سول سروس میں آئے اور سی ایس پی کا لاحقہ لگانے کے حق دار ٹھہرے ۔فارن سروس کے افسر اپنے نام کے بعد پی ایف ایس لکھتے تھے۔ چونکہ پولیس اکیڈمی بنگلہ دیش میں رہ گئی تھی۔ لہٰذا پولیس کے افسر بھی ہماری اکیڈمی میں آ گئے اور پھر انفارمیشن سروس والے بھی آ گئے۔ لیکن ان کی ٹریننگ علیحدہ ہوتی تھی ۔اکیڈمی میں اصل اور خالص برہمن اب بھی سول اور فارن سروس والے ہی تھے‘انہیں کمرے بھی ساتھ ساتھ ملتے تھے۔ 
مہدی حسن سی ایس پی اکیڈمی کے ڈی جی تھے اور عبدالحمید سی ایس پی ڈائریکٹر۔ حافظ صباح الدین جامی ڈی آئی جی پولیس ونگ کے ہیڈ تھے اور مسٹر ڈگلس انفارمیشن کے‘ صبح کوگھڑ سواری اور پی ٹی ہوتی تھی۔ پھر لنچ تک کلاسیں اور شام کو ٹینس‘ کلاس رومز کے علاوہ فرسٹ فلور پر بہت بڑا ٹی وی لائونج تھا اور ساتھ ہی ایک وسیع ڈائننگ روم‘ چھری کانٹے کا استعمال ضروری تھا۔ پگڑی پوش بیرے گیسٹ نائٹ والے دن بڑے سلیقے سے سروس کرتے تھے۔ ہر مہینے ایک گیسٹ نائٹ ہوتی تھی جس میں باہر سے چیدہ چیدہ لوگوں کو مدعو کیا جاتا اس رات کھانا بھی خاص پکتا تھا۔ افسر خود یا باہر سے آرٹسٹ بلا کر انٹرٹینمنٹ کا بندوبست کر لیتے تھے۔ کھانا میز پر لگ جاتا تھا تو میس حوالدار ‘ڈی جی صاحب اور چیف گیسٹ کے سامنے آ کر اتنے زور سے سلیوٹ کرتا تھا کہ لکڑی کا فرش ہل جاتا تھا۔ رہائشی کمروں میں مغرب کے بعد صنف نازک کا آنا ممنوع تھا۔ عبدالحمید ڈائریکٹر ایڈمن تھے اور ڈسپلن سختی سے نافذ کرتے تھے۔ ادھر افسر تمام کے تمام نوجوان تھے اور لمبا کتابی سفر طے کر کے میرٹ پر اعلیٰ عہدوں کے لیے منتخب ہوئے تھے اور انہیں زعم تھا کہ اب جزا و سزا کی منزل سے گزر چکے ہیں۔ ٹریننگ کا آغاز ہی تھا کہ ایک شام یہ خبر اکیڈمی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ حمید صاحب نے دو سنگل کمروں پر چھاپہ مار کر صنف نازک کے دو نمونے دریافت کر لیے ہیں۔ دونوں افسروں کی چونکہ پہلی پہلی غلطی تھی لہٰذا سزا زیادہ سخت نہیں ملی انہیں سنگل کمروں سے محروم کر کے ڈبل روم دے دیا گیا تاکہ باقی ماندہ مہینے وہ صرف ایک دوسرے کی مردانہ کمپنی سے محظوظ ہوں۔
ویسے دن کے وقت یعنی مغرب سے پہلے پہلے چند لڑکیاں اکیڈمی کے چکر لگاتی رہتی تھیں۔ یہاں آپ یہ گمان نہ کریں کہ یہ لڑکیاں اخلاقی اقدار سے عاری تھیں ‘جی نہیں بالکل نہیں ۔یہ سب کی سب شریف زادیاں تھیں جنہیں ڈپٹی کمشنر کی بیگمات بننے کا شوق کچھ زیادہ ہی تھا۔ ابھی انتظامی اصلاحات نہیں آئی تھیں اور ڈپٹی کمشنر کی ضلع میں وہی پوزیشن ہوتی تھی جو جنگل میں شیر کی ہوتی ہے لیکن یہ شیر بھی چند قواعد کا پابند ضرور ہوتا تھا۔ اکیڈمی جوائن کرنے کے بعد ہمارا پہلا دورہ کراچی کا تھا۔ ہم بذریعہ پی آئی اے لاہور سے کراچی گئے ۔یہ میری زندگی کا پہلا ہوائی سفر تھا اور مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ صاف ستھرا جہاز ‘مستعد اور سمارٹ کیبن عملہ‘ لگتا تھا کہ مسکراہٹ ان کے چہرے سے جائے گی ہی نہیں۔ جہاز اڑا ہی تھا کہ مشروبات آ گئے ۔ایک نوجوان افسر نے ایئر ہوسٹس سے اپنے آپ کو متعارف کرایا کہ میں سی ایس پی ہوں ‘کراچی پہلی مرتبہ جا رہا ہوں ‘آپ مجھے کراچی کے بارے میں ذرا گائیڈ کر دیں۔ دراصل یہ افسر زمانہ طالب علمی میں کئی سال کراچی رہ چکا تھا لیکن مصرعے میں ذرا سی ترمیم کے ساتھ۔
فسانہ کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
ہم اکیڈمی میں ہی تھے کہ بھٹو صاحب کی انتظامی اصلاحات آ گئیں۔ افسر اپنے نام کے ساتھ اب سی ایس پی اور پی ایس پی جیسے لاحقے نہیں لکھ سکتے تھے۔ سروس کی دستوری گارنٹی ختم کر دی گئی۔ بہت ہی عجلت میں تیرہ سو افسر فارغ کر دیئے گئے ان میں کچھ بہت اچھے افسر بھی تھے۔ ساتھ ہی لیٹرل انٹری والے آ گئے۔ سول سرونٹ کو سیاسی لیڈروں کے غلام بنانے کا پلان عمل میں آ چکا تھا۔ سُنا ہے کہ ہم سے اگلے گروپ یعنی فرسٹ کامن کے افسروں سے باقاعدہ ایک روز لاہور کی سڑکوں کی صفائی کرائی گئی تاکہ افسری کا خناس ان کے ذہنوں سے نکل جائے۔ 
ذکر کراچی کا ہو رہا تھا جو ان دنوں روشنیوں کا شہر تھا۔ کنور ادریس سی ایس پی وہاں کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ ہمارے ٹور کا آغاز ہی ڈی سی صاحب سے ملاقات سے ہوا۔ کنور ادریس بہت لائق افسر تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ضلع کے ترقیاتی کاموں اور مسائل کے بارے میں مفصل بریفنگ دی‘ بریفنگ ختم ہوئی اور چائے آ گئی ۔اتنے میں کراچی کے نوجوان اسسٹنٹ کمشنر داخل ہوئے اور ڈی سی صاحب کے کان میں کچھ کہا۔ صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔ کراچی ان دنوں اپنی نائٹ لائف کے لیے مشہور تھا۔ دو تین اچھے پائے کے نائٹ کلبوں کا مقابلہ کرتے تھے۔ ہمیں دو عدد کلبوں کے نام بتا دیئے گئے کہ جہاں دل کرے شام کو چلے جائیں۔ پتہ چلا کہ اس سارے بندوبست میں مرکزی کردار اس سی ایس پی افسر کا تھا جو ہمارا ساتھی تھا اور ایئر ہوسٹس سے جہاز میں کہہ چکا تھا کہ کراچی سے قطعی طور پر نابلد ہوں آپ میری مدد کیجئے۔ اب پتہ چلا کہ وہ نہ صرف شہر کے چپے چپے سے واقف ہے بلکہ نائٹ کلبوں کا بھی وافر علم رکھتا ہے۔ ہماری وہ شام لیڈر کلب میں گزری‘ ہم ابھی زیر تربیت ہی تھے کہ مشہور ہو گیا کہ جو افسر فائنل پاسنگ آئوٹ امتحان پہلی کوشش میں پاس نہیں کر سکیں گے ان کی سروس میں کنفرمیشن نہیں ہو گی۔ چنانچہ یار لوگوں نے پڑھائی میں خوب محنت کی اور نتیجہ اکیڈمی کی ہسٹری میں پہلی مرتبہ سو فیصد رہا۔ اکیڈمی کی یادگار چیز وہ لیکچر تھے جو چیدہ چیدہ شخصیات سے گاہے گاہے دلائے جاتے تھے۔ مجھے قدرت اللہ شہاب ‘اسلم اظہر اور عبدالحفیظ کاردار کے لیکچر ابھی تک یاد ہیں۔ شہاب صاحب نے اپنی سروس کے
دلچسپ قصے سنائے اور کہنے لگے کہ سی ایس پی افسر عموماً لائق فائق ہوتے ہیں مگر سروس میں آنے کے بعد پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں ۔سول سروس کے ایک افسر نے شرارتاً پوچھا سر فارن سروس والوں کے بارے میں کیا خیال ہے شہاب صاحب ہالینڈ میں سفیر رہ چکے تھے۔ جواب دیا کہ ہاں فارن سروس والے اچھے ہوتے ہیں۔ سمارٹ کپڑے پہنتے ہیں خوبصورت ٹائیاں لگاتے ہیں ‘انگریزی بھی ٹھیک بولتے ہیں اور پھر شہاب صاحب خاموش ہو گئے۔ لیکن سمجھنے والوں کے لیے اشارہ ہی کافی تھا۔ سول اور فارن سروس کے افسروں کے لیے ایک ایک سینئر افسر سے رابطہ رکھنا ضروری تھا‘ یہ سینئر افسر عام طور پر لاہور میں متعین سی ایس پی ہوتے تھے مقصد یہ تھا کہ آپ انہیں ملیں ساتھ چائے پیئں اور بات چیت کا انداز اور سلیقہ سیکھیں ان افسروں کے لیے آفیشل انکل Official Uncleکی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ جس روز آفیشل انکلز کی لسٹ نوٹس بورڈ پر لگی تو ایک افسر کی حسن ظرافت پھڑکی کہنے لگا آج ہمیں انکل ملنے دیں ‘کل ڈیڈی مل جائیں گے۔ مختلف مضامین کے استاد بہت اچھے تھے ۔ڈاکٹر پرویز حسن انٹرنیشنل لاء پڑھاتے تھے وہ جب لیکچر دیتے تھے تو دل کرتا تھا کہ وہ بولتے جائیں اور ہم سنتے رہیں۔ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے عربی کا وہ ذوق شوق پیدا کیا کہ آج بھی سونے سے پہلے عربی پڑھتا ہوں یا ٹی وی کے ذریعے سنتا ہوں۔گھڑ سواری پولیس سروس والوں کے لیے لازمی تھی۔ پولیس کے افسر ڈائننگ روم میں گھوڑوں سے گرنے کے مزیدار قصے سناتے تھے۔ سروس کے حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو عارف ذوالفقار اور محمد علی ایوب امریکہ چلے گئے جہاں انہیں ورلڈ بینک میں اچھی جاب مل گئی۔ گویا ذہین فطین لوگ اب حکومت پاکستان کی نوکری سے بھاگنے لگے تھے ہمارے جیسے درمیانے درجے کے افسر یہاں رہ گئے سیاسی لیڈروں کو یس سر یس کہنے کا رواج عام ہوا۔ گڈ گورننس ایک خواب بن کے رہ گئی ۔فارسی مقولہ برمحل ہے خود کردہ را علاجے نیست۔!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں