"JDC" (space) message & send to 7575

قرض کی مے اور ہماری فاقہ مستی

2004ء میں پاکستان کا مجموعی بیرونی قرضہ 33ارب ڈالر تھا اور اب ہم73ارب ڈالر کے مقروض ہیں گویا کہ پچھلے بارہ سال میں ہم مزید چالیس ارب ڈالر کے مقروض ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا اندازہ ہے کہ 2019ء کے آخر تک پاکستان نوے ارب ڈالر کا مقروض ہو گا۔ یاد رہے کہ اندرونی قرضے بیرونی قرضوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس وقت قرضوں پر سود کی ادائیگی ہمارے ڈیفنس بجٹ سے زیادہ ہے. کیا پاکستان زیادہ عرصے تک ایسی صورت حال کا متحمل ہو سکتا ہے؟ جواب یقینی طور پر نفی میں ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتیں قرضے کیوں لیتی ہیں۔ افراد کی طرح حکومتیں قرضے تب لیتی ہیں جب ان کے اخراجات آمدنی سے تجاوز کر جائیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ صرف غریب ممالک کی حکومتیں ہی قرضے لیتی ہوں گی۔ جی نہیں۔ امیر ممالک کی حکومتیں بھی قرض لیتی ہیں۔ مثلاً آج کل امریکہ کی حکومت کا ٹوٹل قرضہ پاکستان سے سو گنا زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ امریکہ کی اکانومی میں یہ قرضہ برداشت کرنے کی سکت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ جب بھی امریکہ بہادر پر بیرونی جنگ کا بھوت سوار ہوتا ہے، اس کے قرضے بڑھ جاتے ہیں۔ ویت نام کی جنگ نے ڈالر جیسی مضبوط کرنسی پر پہلی کاری ضرب لگائی تھی اور اب افغانستان اور عراق کی جنگوں نے امریکہ کو پھر سے قرضوں میں جکڑ دیا ہے۔ مگر مجھے امریکہ کی زیادہ فکر نہیں البتہ پاکستان کی ضرور ہے۔
مرزا غالب کی زیادہ عمر تنگی اور عسرت میں گزری لیکن مے نوشی کا شوق قائم رہا۔ اکثر قرض مانگ کر یا ادھار شراب لے لیتے تھے ایک زمانے میں قرض خواہ اتنے ہو گئے تھے کہ غالب نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا۔ اب اسی خوش فہمی میں زندہ تھے کہ ان کی فاقہ مستی ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی لیکن ایسا نہ ہونا تھا، نہ ہوا۔
قرض لینا بذات خود کوئی معیوب بات نہیں۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے صنعت کار قرض لیتے ہیں ۔حکومتیں قرض لے کر عالیشان اور منافع بخش ترقیاتی منصوبے مکمل کرتی ہیں۔ تربیلا اور منگلا ڈیم بھی قرضوں سے بنے۔ لہٰذا اصل دیکھنے کی بات یہ ہوتی ہے کہ قرض استعمال کیسے ہوتا ہے؟ اگر قرض دانشمندی سے استعمال ہوتا ہے اور قومی معیشت کے لیے مفید ہے تو ایسا قرض لینے میں چنداں مضائقہ نہیں۔ معیشت ترقی کرے گی تو قرض بھی واپس ہو جائے گا لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ پاکستان پچھلے قرضے ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینے لگ گیا ہے۔ جی ہاں، ایسا 2013ء میں ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اگلے سال پھر یہی عمل دہرانا پڑے۔
یہاں یہ امر محل نظر رہے کہ مقروض ہونے کی ہر ملک کی سکت مختلف ہے۔ امریکہ کافی بوجھ اٹھانے کے قابل ہے جبکہ یونان اور ارجنٹائن کی حالت زار ہم نے خود دیکھی ہے۔ یونان کو تو یورپین سنٹرل بنک نے بچا لیا لیکن ارجنٹائن کی حالت پچھلے پندرہ سال سے پتلی ہے۔ بیرونی سرمایہ ملک سے جا چکا غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں 2005ء میں پارلیمنٹ نے Fiscal Responsiblity debt limitation ایکٹ پاس کیا۔ ایکٹ میں صاف کہا گیا کہ قومی قرضہ مجموعی قومی آمدنی کے ساٹھ فیصد سے تجاوز نہ کرے مگر اس وقت ہمارا قومی قرضہ قومی آمدنی کا تقریباً پینسٹھ(65)فیصد ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اپوزیشن نے اس سلسلہ میںکبھی واویلا نہیں مچایا۔
بیرونی قرضہ تب لیا جاتا ہے جب درآمدات برآمدات سے تجاوز کر جائیں یعنی بیرونی ادائیگی جو کہ ہارڈ کرنسی میں ہوتی ہے کرنا مشکل ہو جائے۔ ہارڈ کرنسی میں قرضے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے بھی ضروری ہو جاتے ہیں۔ مشینری باہر سے آتی ہے۔ غیر ملکی ماہرین کو تنخواہیں زرمبادلہ کی صورت میں ادا ہوتی ہیں۔
اور اب آتے ہیں اندرونی قرضوں کی طرف۔ حکومت پاکستان ایک اندازے کے مطابق اندرونی طور پر تیرہ کھرب روپے کی مقروض ہے۔ اندرونی قرض کا آسان ترین طریقہ تو یہ تھا کہ سٹیٹ بنک سے اضافی نوٹ چھپوا لیے جائیں۔پیپلزپارٹی کے پچھلے دور حکومت میں یہ طریقہ خوب استعمال ہوا مگر اب اس پر آئی ایم ایف کی طرف سے پابندی ہے۔ دوسرا آسان طریقہ یہ ہے کہ کمرشل بنکوں سے قرض لے لیا جائے۔ اس قرض کے برابر بنک حکومت کے ٹریژری بل خرید لیتے ہیں اور انہیں سٹیٹ بنک کے پاس اثاثوں کی شکل میں رکھوا دیتے ہیں۔ اس صورت میں بنکوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ کمرشل بنک عوام کو شرح منافع بہت ہی کم دیتے ہیں اور ٹریژری بل پر انہیں آٹھ فیصد سے زائد منافع ملتا ہے۔ دوسرے ان اثاثوں کی بنیاد پر وہ پرائیویٹ سیکٹر کو قرضے بھی دے سکتے ہیں۔ حکومت کو قرض دینے کا بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ قرض ڈوبتا نہیں ہے۔ دوسرے شرح منافع بھی خوب ہے۔ بنکوں کے مزے ہیں لیکن حکومت کی عادتیں خراب ہو رہی ہیں۔ پچھلے سالوں میں قومی آمدنی کے مقابلے میں ٹیکس کا تناسب گرا ہے۔
اندرونی قرضوں کا ایک اور ذریعہ قومی بچت کی سکیمیں ہیں۔ قومی بچت کا نظام دراصل حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کی فنانسنگ کے لیے شروع کیا گیا تھا مگر اب ان رقوم سے روزمرہ کے اخراجات چلائے جاتے ہیں اور یہ افسوسناک بات ہے مگر اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ قومی بچت کی سکیموں میں عام طور پنشنر اپنی جمع پونجی رکھتے تھے اور ان کے گھر کے اخراجات اچھی شرح منافع سے چلتے تھے مگر غریبوں سے یہ حق آہستہ آہستہ چھینا جا رہا ہے۔ لہٰذا بنک مالکان کے اور مزے ہو گئے ہیں۔ ٹریژری بلز پر منافع کی شرح اپنی جگہ پر قائم ہے۔ مسلم لیگ حکومت نے یہ عمومی تاثیر بھر سے ثابت کیا ہے کہ یہ اشرافیہ کو نوازتی ہے۔ پچھلے سال حکومت کو زرمبادلہ کی شدید ضرورت تھی۔ ایک انتہائی احمقانہ فیصلہ کیا گیا کہ یورو بانڈ آٹھ فیصد سے زیادہ سالانہ شرح منافع پر بیچے گئے۔ 2017ء میں یہ بانڈ میچور ہو رہے ہیں۔ اصل زر اور منافع کی ادائیگی کرتے ہوئے ہماری حکومت کے ہوش ٹھکانے لگ جائیں گے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے قرضے کی قسط بھی آ رہی ہے اور پیرس کلب کی ادائیگی بھی درپیش ہے۔
ظاہر ہے کہ قرض کی مے پر ہم زیادہ عرصہ گزارہ نہیں کر سکتے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ میری اولین تجویز یہ ہو گی کہ جب تک مجموعی قومی قرضے قومی آمدنی کے ساٹھ فیصد تک نہیں آ جاتے مزید قرضے نہ لیے جائیں اور آئندہ ساٹھ فیصد کی شرح کو مقدس سمجھا جائے۔ دوسری تجویز یہ ہو گی۔ پچیس ایکڑ نہری اور پچاس ایکڑ بارانی زمین کے ہر مالک پر زرعی انکم ٹیکس لگایا جائے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہماری وزارت خزانہ میں Debt policy management آفس بھی ہے۔ یقین مانیں کہ مجھے بھی پہلی مرتبہ اس آفس کا پتہ چلا ہے حالانکہ معاشیات میں میری دلچسپی کالج کے زمانے سے ہے، یہ آفس ایک عضو معطل ہے جسے بہت کم اہمیت دی جاتی ہے۔ اس آفس میں قابل ماہرین اقتصادیات ہونے چاہئیں جو لگاتار اس امر کا تعین کرتے رہیں کہ کونسا قرض پاکستان کے لیے مفید ہے اور کونسا مضر، کونسا قرض پہلے ادا کرنا چاہیے اور کون سا بعد میں، اور چوتھی تجویز یہ ہو گی کہ قومی بچت کی سکیموں پر شرح منافع بڑھائی جائے تا کہ جو فائدہ اب بنک مالکان کو ہو رہا ہے، اس کے کچھ ثمرات لوئر مڈل کلاس تک بھی پہنچیں۔ میری آخری تجویز یہ ہے کہ وزارت خزانہ اور اقتصادی امور چارٹرڈ اکائونٹینٹ سے لے کر کسی اچھے ماہر اقتصادیات کو دی جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 1997ء میں قرض اتارو ملک سنوارو کا شعار بلند کرنے والی مسلم لیگ(ن) آج بلا جھجک مزید قرضے لے رہی ہے جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں حکومت اسی ارب روپے کے ٹریژری بانڈ نیلام کر رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں